قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملاقات کے لیے آنے والے وزیر اسلامی ثقافت و تعلیمات، اس وزرات کے اعلی عہدیداروں اور ملک کی ثقافتی کونسلوں کے اراکین سے خطاب میں ثقافتی امور کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ میری نظر میں عام کلچر اور ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل پر مشتمل ہے جو نمایاں، ظاہر اور آنکھوں کے سامنے ہیں اور درحقیقت قوم کے مستقبل میں دخیل ہیں لیکن ان کا اثر دیر میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی یہ امور اور مسائل قوم کے مستقبل کی راہ و روش میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور لباس کا انداز، کیا پہنا جائے، کیسے پہنا جائے، لباس کے کس ماڈل کو اپنایا جائے، یہ سب معاشرے کے عام کلچر اور ثقافت کے ظاہری حصے اور مصداق ہیں۔ عام کلچر کا دوسرا حصہ بھی پہلے حصے کی طرح قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فوری اور بہت واضح ہوتے ہیں۔ یعنی عام کلچر کے اس حصے سے مربوط امور زیادہ نمایاں نہیں ہوتے لیکن معاشرے میں اس کے مستقبل اور راہ و روش کے تعین میں ان کے اثرات بہت واضح ہوتے ہیں۔ انہیں امور میں بلکہ ان کا بڑا حصہ عادات و اطوار سے متعلق ہے۔ فرض کیجیے کہ کسی معاشرے کے افراد، وقت کو اہمیت نہ دیتے ہوں، جب آپ اس معاشرے میں پہنچیں گے تو وقت کو اہمیت نہ دینے کی افراد معاشرہ کی اس عادت کے منفی اثرات آپ اپنے اوپر بھی اور دیگر لوگوں پر بھی دیکھ لیں گے جبکہ خود یہ چیز یعنی وقت کو اہمیت نہ دینا، زیادہ واضح نہیں ہوتی۔
قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پندرہ جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو پاسداران انقلاب اسلامی فورس کی عظیم عاشورا فوجی مشقوں کے موقع پر اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فورسز کی منفرد خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ آج خدا کے فضل سے ہماری مسلح افواج، فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب، پورے ملک میں ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں، سڑکیں بنارہے ہیں، ہائی وے بنا رہے ہیں، ڈیم تعمیر کر رہے ہیں، ترقیاتی کام کررہے ہیں، زراعت اور بہت سے کام کر رہے ہیں۔ یعنی اس قوم کے جوان چاہے وہ فوجی وردی میں ہوں، (یا دوسرے لباس میں ہوں) ملک کے لیے مفید بننا چاہتے ہیں اور ہو سکتے ہیں لیکن میری گزارش یہ ہے کہ اس مملکت کے بہترین جوان اور فداکاروں کے سردار وہ ہیں جو ہرحال میں اس بات پر توجہ رکھیں کہ حاکمیت اسلام کی یہ امانت جو ان کے پاس ہے، تمام پیغمبروں، اماموں اور اولیاء کی امانت ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کی آرزو تھی جو حاکمیت الہی سے انسانوں کی محرومی کے دور میں موت سے ہمکنار ہوئے، جنہوں نے عقوبت خانوں میں تکلیفیں برداشت کیں اور یہ آرزو کی کہ خداوند عالم انہیں نجات دلائے اور کامیابی عطا کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق نو جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی برابر دس محرم چودہ سو سولہ ہجری قمری کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی امامت کی۔ آپ نے عاشور کی مناسبت سے نماز جمعہ کے خطبوں میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور واقعہ کربلا کے تعلق سے اہم ترین نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چودہ خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق چار جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر عظیم الشان عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت اور آپ کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے اسلامی انقلاب کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عظیم اسلامی انقلاب، جس کی امام عظیم نے ہدایت کی، اس کو ثمر بخش بنایا اور اس کا اہم ترین نتیجہ اسلامی جمہوریہ کی شکل میں سامنے آیا، دو پہلو رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی چوتھی پارلیمنٹ کے ارکان نے آٹھ خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق انتیس مئی انیس سو پچانوے عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سے ملاقات کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظام میں ان کی اہمیت اور نظام و عوام کے تعلق سے ان کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے چوتھی پارلیمنٹ کے ارکان کی بعض منفرد خصوصیات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تین خرداد سن تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی سن انیس سو پچانوے عیسوی کو علماء و واعظین کے اجتماع سے خطاب کیا۔ ہر سال ماہ محرم سے قبل منعقد ہونے والے اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے حسینی تحریک اور واقعہ عاشورا کے عالم انسانیت پر اثرات و نتائج کا ذکر کیا۔ آپ نے علماء و مبلغین کو واقعہ عاشورا اور تحریک امام حسین علیہ السلام کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی کیفیت اور انداز کے بارے میں چند اہم ہدایات دیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی عہدہ داروں نے عید غدیر خم کے موقعے پر اٹھائیس اردیبہشت سن تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق اٹھارہ مئی انیس سو پچانوے عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ہر سال ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے پہلے تو عید غدیر خم کے روحانی و فکری پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور پھر سامراجی طاقتوں کی جانب سے جاری سازشوں کا ذکر کیا۔ آپ نے شیعہ عقائد کو دنیا میں برعکس اور تحریف شدہ شکل میں پیش کئے جانے کی سازش کا بھی ذکر کیا۔
یوم اساتذہ اور یوم محنت کشاں کی مناسبت سے محنت کشوں، مثالی اساتذہ اور ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے کارکنوں نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں معاشرے میں اساتذہ اور محنت کش طبقے کی اہمیت اور ان کے انتہائی اہم تعاون و شراکت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ملک کے صنعتی شعبے میں محنت کش طبقے کے تعاون کو ملک کو اسلامی انقلاب سے قبل کے دور کے اغیار پر انحصار سے نکال کر خود انحصاری کے مرحلے تک پہنچانے میں کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔
صدارت کے زمانے میں میرے والدین اپنے اسی قدیمی گھر میں رہتے تھے، نہ انہوں نے کبھی سوچا اور نہ میرے ذہن میں آیا کہ اب جب عہدہ صدارت میں نے سنبھال لیا ہے تو اپنے گھر کی شکل بدل دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسائے نے ہمارے آنگن سے لگا ہوا اپنا گھر ایک اونچی عمارت میں تبدیل کرنا شروع کر دیا اور والدہ کے لئے بغیر پردے کے آنگن میں جانا نا ممکن ہو گیا تو بعض احباب نے کہا کہ اس ہمسائے سے کہیں کہ گھر کی اونچائي ذرا کم رکھے تاکہ آنگن کا استعمال کیا جا سکے۔ ہم نے اس ہمسائے کو پیغام دلوایا لیکن اس نے کوئي توجہ نہیں دی۔ چونکہ میرے پاس اس ہمسائے کے گھر کی اونچائی کم کرنے کے لئے کوئي قانونی راستا نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئي دباؤ نہیں ڈالا۔ کسی ملک اور نظام میں یہ صورت حال بہت خوش آئند اور پسندیدہ ہے۔ کوئي بڑا عہدہ مل جائے تو انسان کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی سماجی زندگی میں دوسروں سے زیادہ عیش و آرام کی فکر میں پڑ جائے۔
1995 میں مشہد مقدس میں آبائي گھر کے معائنے کے موقع پر
نوروز کے معنی ہیں نیا دن، ہماری روایات بالخصوص معلی بن خنیس کی معروف روایت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ معلی بن خنیس بڑے گرانقدر راوی تھے اور ہمارے نزدیگ وہ ثقہ ( قابل اعتماد راوی ) ہیں۔ آپ ایک برجستہ شخصیت اور خاندان اہل بیت نبوت کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی زندگی فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بسر کی اور پھر جام شہادت نوش فرمایا۔ یہی عظیم شخصیت یعنی معلی ابن خنیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ نوروز کا دن تھا۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نوروز سے آگاہ ہو؟ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائي ہے کہ اس دن حضرت آدم زمین پر اترے۔ حضرت نوح کا واقعہ پیش آیا، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو ولایت کے لئے منتخب کیا گيا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس روایت سے میں کسی اور نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نے نو نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائي ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ نیا دن یا نوروز کسے کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ذریعے خلق کئے جانے والے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کون سا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو یہ خصوصیت ہو کہ اس دن کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتےہوں۔ حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم و حوا نے زمین پر قدم رکھے۔ وہ نوروز تھا۔ یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ جس دن حضرت نوح علیہ السلام نے عظیم طوفان کےبعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا۔ وہ ایک نیا دن تھا اور اس دن سے نئي تاریخ شروع ہوئی۔ جس دن پیغمبر اسلام پر قرآن مجید کا نزول ہوا وہ بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دن مولائے متقیان کو مسلمانوں کا ولی بنایا گيا وہ نیا دن تھا۔ یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں اب خواہ یہ واقعے ہجری شمسی سال کے پہلے دن اور نوروز والے دن رونما ہوئے ہوں یا کسی اور دن۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا دن نوروز اور نیا دن ہے۔ حضرت نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ سارے واقعات ہجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئي واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے۔ جس دن امام خمینی وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا۔ امریکہ، نیٹو، سویت یونین، وارسا اور نہ جانے کہاں کہاں سے کمک پانے والے فوجیوں پر ہمارے مومن اور جاں نثار جوانوں کی فتح کا ہر دن نوروز تھا۔
شہید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدہ داروں سے خطاب
13 مارچ 1995
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 اسفند سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 2 مارچ سنہ 1995 عیسوی کو تہران میں مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔ آپ نے نماز عید کے خطبوں میں عید الفطر کے عظیم دن کے رموز بیان کئے اور ماہ رمضان المبارک کی برکتوں اور بے پناہ خصوصیتوں کا تذکرہ کیا۔ آپ نے عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور مسلمانوں کے خلاف جاری سامراجی طاقتوں کی سازشوں کی نشاندہی کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمارے عظیم اسلامی انقلاب میں، استکبار کو اسلام سے زک پہنچی ہے۔ اس لئے مستکبرین، امت میں دشمنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میں اپنی عزیز قوم سے اور پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان ہیں، ان سے اور تمام مسلم اقوام سے عرض کرتا ہوں کہ آئیے خدا کی اس سفارش کو سنیں کہ قرآن آواز دیتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا امریکا چاہتا ہے مسلمان ایک دوسرے کے دشمن رہیں۔ آپ اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے تفرقہ انگیز مستکبر کی ناک رگڑ دیں اور دشمن کو خوش ہونے کا موقع نہ دیں۔ اسلامی دنیا کے دشمن چاہتے ہیں کہ اس زمانے میں ان کے اہداف مسلمانوں کے ذریعے پورے ہوں۔ آج وہ چاہتے ہیں کہ ایسا کام کریں کہ فلسطینیوں اور ملت فلسطین کے حریف، علاقے میں جعلی اسرائیلی حکومت اور امریکی زر خرید صیہونی نہیں بلکہ اسلامی حکومتیں ہوں۔ یہ نہ ہونے دیں،
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضے کے صحن امام خمینی میں عوامی اجتماع سے خطاب میں ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل پر گفتگو کی۔ آپ نے اقدار کے موضوع پر روشنی ڈالی اور علاقائي اور عالمی اقدار کے فرق کو واضح کیا۔ آپ نے ملک میں تعمیر نو کے کام کے سلسلے میں اہم ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام الناس سے ہمیشہ میدان میں موجود رہنے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 بہمن سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 17 فروری سنہ 1995 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطبوں میں دعا کی خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بات یہ ہے کہ دعا میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تینوں چیزیں، دعا کے فوائد اور نتائج ہیں۔ کوئی دعا ایسی نہیں ہے جو ان تین چیزوں میں سے دو سے عاری ہو۔ چاہے ماثورہ دعائیں ہوں جو آئمہ علیہم السلام سے منقول ہیں چاہے وہ دعائیں ہوں جو انسان خود اپنی ضرورت کے لئے خدا سے کرتا ہے۔ ان میں دو چیزیں یقینا پائی جاتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 15 دی سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 15 جنوری سنہ 1995 عیسوی اور 3 شعبان المعظم سنہ 1415 ہجری قمری کو یوم پاسدار کی مناسبت سے پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں سے خطاب میں ایران کی اس مخلص اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں تعمیری سرگرمیوں میں مصروف فورس کی قدردانی کی۔ ایران میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت تین شعبان المعظم کو یوم پاسدار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مناسبت سے اپنے خطاب میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اسلام کا عظیم پاسدار قرار دیا اور آپ کی ذات مبارک کو اسوہ حسنہ کے طور پر نگاہوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10دی سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 31 دسمبر سنہ 1994 عیسوی کو عید بعثت رسول کے موقع پر ملک کے حکام سے خطاب میں اسلامی دور اور اس سے قبل کے دور جاہلیت کے مابین فرق کو بیان کیا۔ آپ نے بعثت میں مضمر نکات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام پر خاص طور پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بنابریں آج میں جو نکتہ بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے بعثت کا پیغام ایک درس اور تعمیری پیغام ہے۔ یہ صرف ایک سماجی معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک تحریک ہے۔ سب سے زیادہ نظام کے عہدیداروں کو اس تحریک سے وابستہ ہونا چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک کو جو اس نظام میں عہدیدار ہیں، اس تحریک میں آگے ہونا چاہئے۔ البتہ تمام افراد ذمہ دارہیں مگر ہماری خصوصیت یہ ہے کہ جم غفیر کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے اور اس سے ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 آذر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 14 دسمبر سنہ 1994 عیسوی کو نویں امام حضرت محمد تقی علیہ السلام کو یوم ولادت با سعادت پر اپنے خطاب میں عالم اسلام کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔ آپ نے بوسنیا ہرزےگووینا، فلسطین، چیچنیا اور کشمیر کے حالات کا ذکر کیا اور سامراجی ممالک کی سازشوں اور سرگرمیوں کی نشاندہی فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں مرجع تقلید کے انتخاب کے مسئلے میں مغربی ممالک کی جانب سے جاری زہریلے پروپیگنڈے کا تجزیہ کیا، آپ نے فرمایا کہ میں نے امریکا میں ایک واقعے کے بارے میں ایک کتاب پڑھی ہے۔ یہ بالکل صحیح اور مستند کتاب ہے۔ یہ کتاب عجیب وغریب اور حیرت انگیز حقائق بیان کرتی ہے کہ کسی عہدے کے حصول کے لئے مختلف گروہوں کے درمیان کس طرح جنگ ہوئی ہے۔ سمجھتے ہیں یہاں بھی اسی طرح کا ماحول ہے۔ مرجعیت بھی اسی طرح ہے۔ نہیں جناب آپ غلط سمجھے ہیں۔ یہاں مرجعیت کے لئے کوئی جنگ نہیں ہے۔ کوئی لڑائی نہیں ہے۔ یہاں ایسی ہستیاں موجود ہیں جو قابلیت اور صلاحیت کے باوجود اپنا نام پیش کرنا پسند نہیں کرتیں۔ اسی طرح تیس چالیس سال گذر جاتے ہیں۔ پھر لوگ ان کی فکر کرتے ہیں، ان کے پاس جاتے ہیں، ان سے اصرار کرتے ہیں، کافی اصرار کے بعد اپنا رسالہ عملیہ چھاپتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی حامنہ ای نے 3 آذر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 24 نومبر سنہ 1994 عیسوی کو بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے شعراء اور قصیدہ خوانوں سے ملاقات میں حضرت فاطمہ زہرا کی بے مثال شخصیت اور آپ کی بے پناہ عظمت و احترام کا ذکر کیا۔ آپ نے دختر رسول کی ذات گرامی کے طرز زندگی سے واقفیت کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے قصیدہ خوانوں سے سفارش کی کہ اپنے قصائد میں مدح اہل بیت کے ساتھ ہی ساتھ سماج کے لئے تعمیری نکات ضرور پیش کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 آبان 1373 ہجری شمسی مطابق 2 نومبر سنہ 1994 عیسوی کو سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کے موقعے پر یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طلبہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کیا۔ ایران میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کا دن سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مناسبت سے اپنے خطاب میں چار جون کی رونما ہونے والے اہم ترین واقعات پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج میں سامراج کے خلاف جدوجہد کے تعلق سے ایک بات عرض کروں گا تا کہ معلوم ہو جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟ قضیے کی بنیاد کیا ہے؟ اس مسئلے کا ماضی میں تسلسل کہاں تک ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ان دنوں، یونیورسٹی طلبا نے ایران میں امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کیا تھا۔ مگر آج کی نوجوان نسل، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا جو میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، امیدوں کو باقی رکھا ہوئے ہیں اور ہماری آنکھوں کو روشن کر رہے ہیں، وہ اس قضیے کے ماضی کے بارے میں کیا جاتنے ہیں؟ ان کی معلومات کتنی ہیں؟ خطیبوں، قلمکاروں اور ان لوگوں نے جو اس الہی سیاست کے میدان میں، اپنے دوش پر ذمہ داری اٹھانے کے قائل ہیں، ان لوگوں نے ہماری اس ترقی پذیر نسل کے لئے، جس سے ملک کو ہزاروں کام ہیں، اس مسئلے کی کتنی تشریح کی ہے؟ بنابریں ایک مسئلہ یہ ہے۔ میں آج تھوڑا سا اس بارے میں خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے عرض کروں گا، جو انیس سو اناسی میں یعنی آج سے پندرہ سال قبل بچے تھے اور ہمارے بہت سے اسکولی طلبا اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس مسئلے کے بیان کے بعد آپ کی خدمت میں جو انقلاب اور اس کے ہم جیسے خادمین کے سب سے زیادہ مضبوط اور باقی رہنے والے مخاطبین ہیں، ایک انتہائی بنیادی بات عرض کروں گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 20 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 12 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علہیا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ملک کی نرسوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ نرس کا پیشہ اہم ترین پیشوں اور خدمات میں سے ایک ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں ہر شعبے میں عورتوں کی بھرپور شراکت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہماری خواتین میدان جنگ میں بھی آئیں، تعمیرنو کے میدان میں بھی آئیں، ذہنی قوتیں دکھانے کے میدان میں بھی آئیں اور سب سے زیادہ فعال رہیں۔ جن ہستیوں نے دشمن کے گوناگوں پروپیگنڈوں کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت اور اسقتامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے ملک کی خواتیں ہیں۔ ہمارے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں، مختلف تنقیدوں کی شکل میں، رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، چھوٹے سے مسئلے کو دس گنا بڑھاکر اس ریڈیو سے اور اس ریڈیو سے بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ خود ہمارے بعض بکے ہوئے قلم جنہیں انقلاب سے خدا واسطے کا بیر ہے، اس جریدے میں اور اس میگزین میں ان باتوں کو لکھتے ہیں۔ بعض پمفلٹ چھاپتے ہیں اور بعض آشکارا جریدوں میں لکھ کے پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو پیسہ دیتے ہیں کہ کسی چیز اور بس کی لائن میں کھڑے ہوکر برا بھلا کہیں۔ یہ پیسہ افواہ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہماری خواتین نے زیادہ استقامت دکھائی ہے۔ الحمد للہ ان مومن خواتین کی تعداد، دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہو جائیں، بہت زیادہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 13 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 5 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کیڈٹ یونیورسٹیوں کی اہمت اور گراں قدر کارکردگی پر روشنی ڈالی اور کیڈٹس کے اسلامی و قومی فرائض کی تشریح کی۔ آپ نے دفاعی شعبے میں خودانحصاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم فوج، سپاہ پاسداران انقلاب، مسلح افواج اور پولیس پر توجہ دیتے ہیں، ان کے امور کو دیکھتے ہیں، وہ اسلامی جمہوری نظام کے باشرف ترین اراکین ہیں۔ مگر ہماری کوشش یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، اس عظیم فوج کا سرحد کے اس پار کی دنیا سے انحصار کم سے کم کریں۔ لہذا ہماری بیرونی خریداری خلیج فارس کے ساحلی ملکوں سے بہت کم ہے جو ایران کے ایک ضلع کے برابر بھی سربلند اور بڑے نہیں ہیں۔ ان کے ہاں امپورٹڈ ساز و سامان ہم سے بہت زیادہ ہے اور وہ بھی بیکار کی چیزیں خریدتے ہیں۔ کیا جنگی وسائل، ہوائی جہاز اور ٹینک کسی ملک کو بچا سکتے ہیں؟ عزم و ارادے اور انسان ہیں جو اپنے وطن، اپنی اقدار اور قوم کا دفاع کرنے پر قادر ہیں۔ وہ اپنی غلط سیاست اور حکومتوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے اس عظیم عنصر سے محروم ہیں۔ مسلسل پیسے خرچ کرتے ہیں اسلحے بنانے والے کارخانوں کو دیوالیہ ہونے سے نجات دلاتے ہیں مگر اپنی قوم اور علاقے کے نقصان میں۔ اس کے باوجود ان کی اور ان کے فریبی آقاؤں کی فریاد بلند ہو رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عسکریت پھیلا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس شہریور تیرہ سو تہتر ہجری شمسی مطابق بیس ستمبر انیس سو چورانوے کو پاسداران انقلاب کے مختلف سطح کے کمانڈروں سے ملاقات میں انہیں مجاہد فی سبیل اللہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان کے پاس سنہری مواقع موجود ہیں۔ آپ نے اپنے خطاب میں پاسداران انقلاب فورس کی ماہیت اور ملک و قوم، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے لئے ان کی گراں قدر خدمات پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 4 شہریور سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 26 اگست سنہ 1994 عیسوی کو تہران میں منعقدہ وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں سامراجی طاقتوں کے غلط اندازوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سامراجی طاقتیں غلطی پر ہیں۔ اگر سمجھتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو بھی ہر حکومت کی طرح، انہیں معمولی حربوں سے، تشہیراتی محاصرے، سیاسی دباؤ، اقتصادی ناکہ بندی اور ایسے ہی دوسرے اقدامات سے جھکا لیں گی تو یہ ان کی غلطی ہے۔ یہاں اعتقاد کا مسئلہ ہے۔ دین کی پابندی کا مسئلہ ہے۔ عوام کے لئے یہ الہی فریضہ ہے کہ اس حکومت کا جو پرچمدار اسلام ہے، دفاع کریں۔ دنیا کے دوسرے مسلمانوں کا فریضہ بھی یہی ہے۔ بنابریں انقلاب کے آغاز سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی جتنی ہو سکی مخالفت کی، دشمنی کی، مختلف سیاسی اور فوجی مہم تیار کی۔ ہمارے عظیم امام (خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ دشمنی ہم سے نہیں بلکہ اسلام اور قران سے ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر تمام مسلمین عالم کو توجہ دینی چاہئے۔ آج جو لوگ تشہیرات کے میدان میں، سیاسی لڑائی میں، مختلف قسم کی اقتصادی سرگرمیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران سے بر سر پیکار ہیں، وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اسلام کی دشمنی کو ظاہر اور آشکار کر دیا ہے۔ ان لوگوں کی کوششیں پوشیدہ نہیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 29 تیر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 20 جولائی سنہ 1994 عیسوی کو محکمہ پولیس، سوشل سیکورٹی اور معذور افراد کی نگہداشت کرنے والے اداروں کے کارکنوں سے ملاقات میں ان افراد کی خدمات کو سراہا۔ آپ نے فرمایا کہ ان دونوں محکموں اور ان تمام اداروں کا کام جو محتاج اور کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں بڑا نیک اور مستحسن کام اور ا یک طرح کا فریضہ ہے۔ یہ ملک کے سماجی نظم کے لئے بہت ضروری ہے۔ البتہ معاشرے میں غربت کے علاج کے لئے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ مگر کبھی طویل المیعاد منصوبوں کے ساتھ جن کا نتیجہ جلدی سامنے نہیں آتا، اور ان میں کبھی مشکلات اور رکاوٹیں بھی آتی ہیں، ایسی تنظیموں اور اداروں کا ہونا ضروری ہے جن کا فریضہ کمزور اور ضرورتمند طبقات کی مدد کرنا ہو۔ جیسے یہ دونوں ادارے ہیں کہ جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ یا امام خمینی امدادی کمیٹی اور ایسے ہی دگر ادارے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 17 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 7 جون سنہ 1994 عیسوی کو کہگيلویہ و بویر احمد علاقے کے علماء سے خطاب میں تحریک حسینی کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ محرم الحرام سے قبل ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ روحانی اور معنوی تحریکوں میں جذبات کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ نہ جذبات استدلال کی جگہ لیتے ہیں اور نہ ہی استدلال جذبات کی جگہ لے سکتا ہے۔ واقعہ عاشورا، اپنی ذات اور فطرت میں، سچے جذبات کا ایک بحر بیکراں ہے۔ ایک اعلی، پاک اور منور انسان کہ جس کی اعلا ملکوتی شخصیت میں ذرہ برابر بھی شبہے کی گنجائش نہیں ہے، ایک ایسے ہدف کے لئے کہ تمام منصفین عالم جس کے صحیح اور معاشرے کے ظلم و ستم اور جارحیت سے نجات پر مبنی ہونے پر متفق ہیں، حیرت انگیز تحریک کا آغاز کرتا ہے اور کہتا ہے ایہا الناس ' ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، قال من رای سلطانا جائرا۔۔۔ بحث یہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کا فلسفہ ظلم سے مقابلہ کرنا قرار دیتے ہیں۔ یعمل فی عباد اللہ بالاثم و العدوان بحث مقدس ترین ہدف کی ہے جس کو تمام منصفین عالم قبول کرتے ہیں۔ ایسا انسان، ایسے ہدف کی راہ میں دشوار ترین جد و جہد کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 4 جون سنہ 1994 عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پانچویں برسی کی مناسبت سے اپنے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت اور آپ کے عظیم کارناموں پر گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا کہ تین خصوصیات حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں نمایاں تھیں۔ آپ کا ایمان مثالی اور استثنائی تھا۔ آپ کا عمل صالح ایسا تھا کہ صدر اسلام کے بعد سے آج تک کسی نے انجام نہیں دیا۔ یعنی اسلامی نظام کی تشکیل جس کے بارے میں آج میں اختصار کے ساتھ کچھ باتیں بیان کروں گا۔ آپ کا تزکیہ نفس ایسا تھا کہ آپ نے شہرت، طاقت اور مقبولیت کے عروج کے زمانے میں، اپنے لئے اوج عبودیت کا انتخاب کیا اور ہر گذرنے والے دن کے ساتھ خداوند عالم سے آپ کا توسل، تقرب اور اس کے حضور گریہ و زاری بڑھتا ہی رہا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 1 جون سنہ 1994 عیسوی کو ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں مقننہ کی خصوصیات کو بیان کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امور مملکت کے ایک ناظر کی حیثیت سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر مجلس شورائے اسلامی میں چار خصوصیات پائی جائیں تو وہ اپنا حقیقی مقام و مرتبہ حاصل کرلے گی۔ الحمد للہ آج تک جو ہم نے مشاہدہ کیا ہے، اس پارلیمنٹ میں یہ خصوصیات موجود ہیں۔ مگر ان خصوصیات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے اور مزید خیال رکھا جا سکتا ہے۔ یہ چار خصوصیات یہ ہیں؛ اول احساس ذمہ داری، دوم خودمختاری، سوم دلیری اور چہارم ہوشیاری، تدبر، علم اور مہارت سے کام لینا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 1 جون سنہ 1994 عیسوی کو ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں مقننہ کی خصوصیات کو بیان کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امور مملکت کے ایک ناظر کی حیثیت سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر مجلس شورائے اسلامی میں چار خصوصیات پائی جائیں تو وہ اپنا حقیقی مقام و مرتبہ حاصل کرلے گی۔ الحمد للہ آج تک جو ہم نے مشاہدہ کیا ہے، اس پارلیمنٹ میں یہ خصوصیات موجود ہیں۔ مگر ان خصوصیات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے اور مزید خیال رکھا جا سکتا ہے۔ یہ چار خصوصیات یہ ہیں؛ اول احساس ذمہ داری، دوم خودمختاری، سوم دلیری اور چہارم ہوشیاری، تدبر، علم اور مہارت سے کام لینا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 8 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 29 مئی سنہ 1994 عیسوی کو عید غدیر کے موقع پر ملک کے حکام سے خطاب میں اس عظیم دن کی اہمیت اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی تحقیر کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی معاشروں میں سامراجیوں کا ایک کام یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ مسلمان عوام، زندگی اور معاشرے میں جس رتبے اور مقام پر بھی ہوں، خود کو غیر اسلامی اقدار سے نزدیک کریں۔ یعنی ان کا لباس غیر مسلموں کے لباس کی طرح ہو، ان کا طرزعمل ان کے طرز عمل کی طرح ہو، ان کی بینش ان کی بینش کی مانند ہو اور ان کے اعمال، ان کے اعمال کی طرح ہوں۔ درحقیقت مسلمان غیر مسلموں کی اقدار کو اپنی اقدار سمجھیں اور ان چیزوں کو خلاف تہذیب سمجھیں جن چیزوں کو مغرب والوں نے خلاف تہذیت قرار دیا ہے اور اسلام کی کوئی بات انہیں یاد نہ آئے۔ آج بھی، جب ایرانی قوم اس بات پر ڈٹی ہوئی ہے اور مصر ہے کہ وہ اپنے طرز عمل میں، اپنی حرکات میں، اپنے لباس میں، اپنی عالمی روش میں اور دوست اور دشمن کے انتخاب میں اسلامی تہذیب، اسلامی موقف اور اسلامی اقدار کی پابندی کرنا چاہتی ہے تو اس وجہ سے اس پر حملے ہو رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 18 مئی سنہ 1994 عیسوی کو مختلف شہروں کے عوام کے اجتماع سے خطاب میں دعا و مناجات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ماہ ذی الحجۃ کی اہم بابرکت مناسبتوں کا حوالہ دیا اور عید الاضحی اور یوم عرفہ کے رموز پر گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا کہ عرفہ کی اہمیت کو سجمھیں۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ عرفہ اور عرفات کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ دن اور یہ جگہ ایسی ہے جہاں پروردگار کے حضور اپنے گناہوں کے اعترا ف کا موقع ملتا ہے۔ اسلام بندوں کے سامنے گناہ کے اعتراف کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس نے جو گناہ کیا ہے، اس کو زبان پر لائے اور کسی کے سامنے اس کا اعتراف کرے۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ خدا کے حضور، اپنے اور خدا کے درمیان، خدا سے تنہائی میں اپنی خطاؤں، اپنے قصور، اپنی تقصیروں اور اپنے گناہوں کا جو ہماری روسیاہی، بال و پر کے بندھ جانے اور پرواز میں رکاوٹیں پیدا ہو جانے کا باعث ہیں، اعتراف کریں اور توبہ کریں۔ جو لوگ خود کو تمام عیوب اور خطاؤں سے پاک سمجھتے ہیں ان کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی قوم اگر چاہے کہ خدا کے سیدھے راستے پر رہے تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ اس کی خطا کیا ہے؟ اسے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہۓ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 13 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 2 مئی سنہ 1994 عیسوی کو یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے ٹیچروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے اجتماع سے خطاب میں معاشرے کے ان دونوں طبقات کی گراں قدر خدمات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بات کہنے سے رہ نہ جائے کہ ان دونوں طبقات کے پاس وسائل کم ہیں اور یہ پہلو بھی ان کا ایک خاص امتیاز ہے۔ بنابریں معلم اور محنت کش دونوں عزیز، محترم اور مکرم طبقات ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے اور دونوں ہی حقیقی قدروں کی اساس پر محترم ہیں اور یہ اپنی جگہ پر مسلمہ امر ہے۔ ملک کے منصوبے بنانے والے، پلاننگ کرنے والے اور دوسرے ذمہ دار افراد اس بات پر توجہ رکھیں کہ ہمارے معاشرے کے یہ دونوں طبقات، بہت مخلص، بہت مومن اور ملک کی سرنوشت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ اس اہم پہلو کو مد نظر رکھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ٹیچر اور محنت کش افراد کی خاص نیت اور سوچ کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 31 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 20 اپریل سنہ 1994 عیسوی کو حج کمیٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں حج کے رموز پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوندعالم تمام مسلم اقوام میں سے ایک جماعت کو دعوت دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ آؤ ان معین ایام میں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔ ثم افیضوا من حیث افاض الناس سب مل کر چلو۔ مل کر فیض حاصل کرو۔ سب مل کر طواف کرو۔ یہ ہمہ گیر اجتماع کس لئے ہے؟ دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، کیا کرنے کے لئے؟ جمع ہوں اور خاموشی سے ایک دوسرے کی صورت دیکھیں اور چند دنوں کے بعد اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں؟ ایک جگہ کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اپنے اختلاف بیان کریں؟ اکٹھا ہونے کا مقصد کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ تمام مسلم اقوام کے افراد کا ایک جگہ اور وہ بھی ایک مقدس جگہ پر جمع ہونے کا صرف یہ فائدہ اور مقصد ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ جمع ہوں تاکہ امت اسلامیہ کی سرنوشت کے بارے میں اہم فیصلے کریں اور اس مجمع میں امت کی حیثیت سے ایک اچھا قدم اٹھائیں اور تعمیری اور مثبت کام کریں۔ یہ مثبت اور تعمیری کام کس کیفیت کا ہو سکتا ہے؟ اس کیفیت کا کہ ایک زمانے میں مسلم اقوام اتنی ترقی یافتہ ہوں - دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے- جب حج میں جمع ہوں اور اس عظیم عوامی اجتماع کے دوران، اقوام کے منتخب افراد کی ہزاروں افراد پر مشتمل اسمبلی تشکیل پائے اور یہ اسمبلی فیصلے کرے اور یہ فیصلے اسی عوامی اجتماع میں مختلف ملکوں سے آنے والے تمام عازمین حج کے ذریعے منظور کئے جائیں اور پھر عمل درآمد کے لئے اقوام اور حکومتوں کے حوالے کئے جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 24 فروردین سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 13 اپریل سنہ 1994 عیسوی کو یوم مسلح افواج کی مناسبت سے اپنے خطاب میں مسلح فورسز کی کلیدی اہمیت اور فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو ممتاز خصوصیات و صفات کا مالک قرار دیا۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران سے استکباری محاذ کی دشمنی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد ایران کی حکومت اور قوم سے سامراج کی دشمنی شروع ہوگئ جو گذشتہ پندرہ سال سے آج تک جاری ہے۔ یہ لڑائی اس حکومت اور ملت سے ہے جو پورے استحکام کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور اپنی جگہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی اور دنیا میں اس کی بات سننے والے بہت ہیں۔ ہمارا دشمن اپنے تمام طمطراق کے ساتھ اب تک اس نظام پر کوئی وار لگانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پہلی فروردین تیرہ سو تہتر ہجری شمسی مطابق اکیس مارچ انیس سو چورانوے عیسوی کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں انتہائی اہم تقریر کی۔ ہر سال اسی دن اور اسی مقدس مقام پر انجام پانے والی اس تقریر میں قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی موجودہ تحریک اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی مجاہدانہ کوششوں کا تقابلی جائزہ لیا۔ آپ نے ملت ایران کی تحریک کو نہایت موثر اور ثمر بخش قرار دیا اور سامراجی طاقتوں کی جانب سے جاری دشمنانہ اقدامات کو فطری رد عمل قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران کا دو ٹوک موقف بیان فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 29 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 20 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو نئے ہجری شمسی سال 1373 کے آغاز کی مناسبت سے اپنے پیغام میں نوروز کا جشن منانے والی اقوام بالخصوص ملت ایران اور شہدائے انقلاب کے اہل خانہ کو مبارکباد پیش کی۔ آپ نے گزرے ہوئے سال کا جائزہ لیا اور نئے سال کو جذبہ عمل اور سماجی نظم و ضبط کا سال قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی کے پیغام نوروز کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا مقلب القلوب والابصار۔یا مدبر اللیل والنہار۔یامحول حول والاحوال۔ حول حالنا الی احسن الحال۔ عید نوروز تمام ہم وطنوں اور پوری دنیا کے تمام ایرانیوں کو مبارک ہو۔ خاص طور پر ایثار و فداکاری کرنے والوں، ان گھرانوں کو جنہوں نے ایرانی قوم کی عظیم تحریک میں کوششیں کیں اور مشکلات برداشت کیں، بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان اور دفاع وطن کی جد و جہد میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ان کے گھروالوں کو، اسی طرح دشمن کی جیلوں سے رہا ہوکر آنے والوں اور ان اسیروں کو جو اب بھی دشمن کی قید میں ہیں اور ان کے گھر والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ ہمارے لاپتہ افراد اور دشمن کی قید میں موجود افراد جلد سے جلد واپس آکر ہمارے دلوں کو شاد کریں۔ اسی طرح ان تمام اقوام کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عید نوروز مناتی ہیں۔ جمہوریہ آذربائیجان کے عوام کو اور اپنے ملک کے اطراف کی ریاستوں کے عوام کو جو عید نوروز مناتے ہیں، مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خدا سے نئے ہجری شمسی سال میں سب کے لئے توفیق طلب کرتا ہوں۔ ہم تحویل سال کے آغاز کی دعا میں خداوند عالم سے کہتے ہیں کہ ہمارے حال کو بہترین حال میں تبدیل کر دے۔ رمضان المبارک میں بھی ہم نے خدا سے دعا کہ اللہم غیر سوء حالنا بحسن حالک ہمارے حال کی برائیوں، مشکلات، ہماری سرشت، رمضان المبارک کی روزانہ کی دعاوؤں میں ہم خداوند عالم سے کہتے ہیں کہ ہماری زندگی، ہماری روح اور ہمارے جسم کو اپنے خیر و رحمت کی برکت سے تبدیل کر دے۔ یہ تغیر و تبدل انسان کی تکاملی رفتار کے اہم ترین اسرار میں سے ہے جس کا اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے۔ یہ کچھ خاص لوگوں سے مخصوص نہیں ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حال کی تبدیلی ان لوگوں کے لئے ہے کہ جو اسلامی معیاروں کے مطابق بد حالی کا شکار ہیں۔ جو اچھے اخلاق اور حال کے مالک ہیں، وہ بھی چونکہ بہترین نہیں ہیں، اس لئے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں بہترین صورت حال کی طرف لے جائے۔ ہم جو بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، علم و دانش، معرفت، کمال اور اخلاق کے جس مرتبے پر بھی ہوں، ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے حال کو بہتر کر دے اور کمال کے راستے پر آگے بڑھائے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس کامل ہونے کی علامت اور جہت کیا ہے اور کس طرح انسان کا حال بہتر ہوتا ہے اور وہ منزل کمال کی طرف جاتا ہے؟ میں آپ عزیزوں سے جو آغاز سال پر میری یہ گفتگو سماعت کر رہے ہیں، دو علامتیں بیان کرتا ہوں۔ یہ دونوں علامتیں خدا کی قربت اور بندگان خدا سے محبت ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں جس کیفیت اور حالت میں بھی ہوں، خدا سے انس و محبت اور قربت کی طرف بڑھیں۔ یعنی اپنے کردار میں گناہوں کی جستجو کریں اور انہیں ترک کریں۔ انسان عام طور پر اپنے کام کی برائیوں کو نہیں پہچانتا۔ دوسرے الفاظ میں حب نفس کے سبب ہم اپنے نقائص اور عیوب کو نہیں دیکھ پاتے۔ بنابریں پہلے ان نقائص اور عیوب کا پتہ لگائیں اور پھر انہیں دور کرکے خدا کا تقرب حاصل کریں۔ تقرب خدا حاصل کرنے کے بعد، عوام سے محبت کریں، ان کے لئے مخلص رہیں، باوفا رہیں، نیکی کریں، اچھا سلوک کریں۔ یعنی تمام طبقات کے لوگوں بالخصوص کمزور لوگوں، چاہے وہ جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں، یا مالی لحاظ سے، سماجی حیثیت میں کمزور ہوں یا بے یار و مددگار ہونے کی وجہ سے کمزور ہوں، ان کے ساتھ محبت اور نیک رفتاری کو اپنا شعار بنائیں۔ جس کا بھی سامنا ہو بالخصوص اگر وہ کمزور ہو تو اپنے رویئے کی اصلاح کریں اور کوشش کریں کہ بندگان خدا کے ساتھ ہمارا سلوک اور طرزعمل اچھا ہو۔ اگر اس راستے پر چلیں اور لمحہ بہ لمحہ اپنی اصلاح کریں تو تحویل حال بہ احسن حال کا عمل انجام پائے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بہترین ہو جائیں گے لیکن بہترین ہونے کے راستے پر انشاء اللہ آگے بڑھیں گے۔ میں اس وقت ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو بہترین ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے یہ عرض کر دوں کہ موجودہ حالات میں ایک طرف ہر منصف مزاج انسان کے لئے بہت اہم معیاروں اور اعلی اقدار پر استوار ہمارا نظام انتہائی پر کشش ہے جو ابھی جوانی کے مرحلے میں ہے، اور دوسری طرف ہمارا ملک عظمت و شوکت، درخشاں ماضی، اعلی تہذیب و ثقافت، قابل فخر تاریخ، ماضی کی قیمتی میراث اور فراواں مادی دولت و ثروت کا مالک ہے کہ اسی دولت و ثروت میں سے ایک تیل اور گیس ہے جو پتہ نہیں سب سے بڑی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ دیگر زمین دوز ذخائر بھی ہیں اور اس عظیم اور دولت و ثروت سے مالامال ملک میں ایک عظیم قوم رہتی ہے، مناسب ہے کہ ہمارے عوام اپنے اندر اسی معیار کی تبدیلی لائیں۔ جو اخلاقی نکتہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آغاز سال سے دو باتوں کو اپنا شعار بنائیں۔ یہ دو باتیں کام کا جذبہ اورسماجی نظم و ضبط ہے۔ یہ دونوں معیار ہمارے لئے ہم جہاں بھی مصروف کار ہوں، بہت اہم ہیں۔ کام کا جذبہ یعنی یہ کہ اگر کوئی کام قبول کیا، اس کو انجام دینے کا وعدہ کیا تو چاہے یہ کام اپنی ذات کے لئے ہو، اپنے خاندان کے لئے ہو، روزی کمانے کے لئے ہو، یا سماج اور عوام کے لئے ہو اور دوسروں سے تعلق رکھتا ہو، جیسے اہم سماجی امور اور ملکی ذمہ داریاں، اس کو اچھی طرح بھرپور توجہ کے ساتھ اور بنحو احسن انجام تک پہچائیں اور پوری دلجمعی سے کام کریں۔ اگر کسی قوم میں کام کا جذبہ ہو تو اس کے کام کا نتیجہ بہت اچھا ہوگا۔ جب کام کا نتیجہ اچھا ہو تو یقینا سماج کی حالت اچھی ہوگی۔ ممکن ہے کہ سیاسی اور اقتصادی ماہرین میں سے ہر ایک ملک کے مختلف امور اور مسائل کے بارے میں مختلف تجزیئے پیش کرے۔ لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ جو بھی تجزیہ پیش کیا جائے، مشکلات کا حل انہیں دو باتوں کام کے جذبے اور سماجی نظم و ضبط میں ہے۔سماجی نظم و ضبط یعنی تمام امور میں ڈسپلن کا خیال رکھنا۔ آپ یہ نظم و ضبط چھوٹے کاموں سے شروع کریں۔ فرض کریں، سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کے لئے بنائی گئی مخصوص علامت پر گاڑیوں کا نہ آنا یا پیدل چلنے والوں کا سڑک عبور کرنے کے لئے بنائی گئی مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں اور سے سڑک عبور نہ کرنا۔ یہ کام پہلے مرحلے میں معمولی نظر آتا ہے۔ لیکن سماجی ضابطے کو یہیں سے شروع کریں اور تمام امور میں نافذ کریں تاکہ ملک کی اعلا ذمہ داریاں اور مسائل سے نمٹنے میں نظم و ضبط سے کام لیا جائے۔ جو لوگ ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں لوگوں سے ان کا سابقہ پڑتا ہے، لوگوں سے ملنے میں نظم وضبط کی پابندی کریں۔ جن لوگوں نے کوئی کام اپنے ذمہ لیا ہے، اس کام کی انجام دہی میں نظم و ضبط کی پابندی کریں تو ملک و قوم کو شادابی ملے گی اور ان کا کام اچھی طرح آگے بڑھےگا۔ آج خوش قسمتی سے اچھی پیشرفت ہو رہی ہے۔ میں ملک کے مسائل سے پوری آگاہی کی بنیاد پر آپ سے یہ بات عرض کر رہا ہوں۔ البتہ ہمارے بہت سے عوام، بالخصوص وہ جو ملک کے موجودہ مسائل پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اس پیشرفت کو محسوس کرتے ہیں۔ ایرانی قوم اور خود مختاری کی مخالف تسلط پسندطاقتوں کی جانب سے ہمارے اوپر دباؤ بہت ہے مگر اس دباؤ کو ہماری عظیم قوم اور مخلص حکام پوری طرح ناکام بنا رہے ہیں اور ان کا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ ممکن ہے کہ مختصر مدت کے لئے وہ بعض مشکلات کھڑی کر دیں لیکن ان کو اچھی طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ ہم تعمیر و ترقی، پیشرفت اور ایک عظیم تمدن کی بیناد رکھنے میں مصروف ہیں۔ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم خود کو بچا لیں اور اپنے بارے میں ہی سوچیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اپنی منزلت اور شان کے مطابق، ایک تمدن وجود میں لا رہی ہے۔ اس تمدن کی بنیاد، صنعت، ٹکنالوجی اور سائنس نہیں بلکہ ثقافت، بینش، معرفت اور فکر انسانی کا ارتقاء ہے۔ جو چیز کسی قوم کو فراہم کرتی ہے اور اس کو علم کا تحفہ بھی دیتی ہے ہم اسی راستے پر اور اسی جہت میں گامزن ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ کام کریں بلکہ، اس تمدن کو وجود میں لانے کے لئے ملت ایران کی تاریخی تحریک شروع ہو چکی ہے۔ ان حالات میں عظیم ملت ایران کی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کو کیا کرنا ہے اور کس راستے پر آگے بڑھنا ہے۔ میری نظر میں یہ دو باتیں، یعنی کام کا جذبہ اور سماجی نظم و ضبط ہمارے لئے دو معیار اور شعار ہو سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ دونوں خصوصیات ہمارے اندر تبدیلی اور تکامل لا سکتی ہیں۔ انشاء اللہ وہ تبدیلی خدا کے تقرب، خدائی اقدار سے انس اور عوام کے ساتھ مہربانی اور محبت کی شکل میں ہوگی۔ دعا ہے کہ ہمارے عوام کے لئے سن تیرہ سو تہتر نیکی اور برکتوں کا سال ہو۔ حضرت ولی عصراروحنا فداہ کی پاک دعائیں ان کے شامل حال ہوں۔ حکام بھی ان بڑی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں جو انہوں نے قبول کی ہیں، کامیاب ہوں۔ میں دورد بھجیتا ہوں اپنے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر پر کہ یہ عظیم راستہ ہماری قوم کو آپ ہی نے دکھایا۔ دعا ہے کہ خداوند عالم اس سال بھی گذشتہ برسوں کی طرح آپ کی روح مقدس کو اپنی برکت، مغفرت اور فضل و کرم میں شامل کرے اور آپ کے لئے اور اپنی زندگی کے امور کے لئے عوام کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔ و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 22 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 13 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔ نماز عید کے خطبوں میں قائد انقلاب اسلامی نے اس عظیم دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اپنے خطاب میں رمضان المبارک کے انتہائی معنوی ایام کی خصوصیات کا تذکرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی پر تنقید کی اور اسے مختلف مسائل میں دوہری پالیسیاں اختیار کرنے والا ادارہ قرار دیا۔ آپ نے حج کے ایام کے قریب آنے کی مناسبت سے بھی گفتگو کی اور سعودی عرب کی جانب سے ایرانی حجاج کرام کے لئے پیدا کی جانے والی مشکلات کی سمت اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 22 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 13 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو عید الفطر کے موقعے پر صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 26 دی سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 16 جنوری سنہ 1994 عیسوی کو یوم پاسدار کی مناسبت سے پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے ہزاروں ارکان اور پولیس کے خصوصی دستوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے دن تین شعبان کو ایران میں یوم پاسدار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر اپنے خطب میں قائد انقلاب اسلامی نے امام حسین علیہ السلام کی عظیم تحریک کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے خود پسندی، میں، ذاتی، جماعتی یا قومی مفاد سے سخت اجتناب حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی پہلی خصوصیت ہے۔ اس میں جو کام انجام دیتے ہیں، اس میں ہمارے اور آپ کے اندر جتنا اخلاص ہوگا، اس کام کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ مرکز اخلاص سے جتنا دور ہوں گے اور خود پسندی، خود پرستی، اپنے لئے کام کرنے، اپنی فکر میں رہنے اور ذاتی و قومیتی مفادات وغیرہ کے جتنا قریب ہوں گے اتنا ہی دوسرے گروہ سے قریب ہوں گے۔ اس اخلاص مطلق اور اس خود پرستی مطلق میں بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اس طرف سے ہٹ کے جتنا اس طرف جائیں گے کام کی اہمیت اتنی ہی کم ہوگی اور اس کی برکت بھی اتنی ہی کم ہوگی۔ اس کی بقا بھی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ یہ اس مسئلے کی خاصیت ہے۔ یہ جنس جتنی کم خالص ہوگی ، ملاوٹ جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی جلدی خراب ہوگی۔ اگر خالص ہو تو کبھی خراب نہیں ہوگی۔ سامنے کی چیزوں سے اس کی مثال دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سونا جتنا خالص اتنا ہی پائیدار ہوگا۔ اس میں زنگ نہیں لگے گا۔ لیکن اگر اس میں ملاوٹ ہو تو جتنا لوہا اور تانبا اور دوسری کم قیمت دھاتیں اس میں ملی ہوں گی اتنی ہی جلد یہ خراب ہوگا۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 6 دی سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 27 دسمبر سنہ 1993 عیسوی کو امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب میں حضرت علی کی ذات والا صفات کو مسلمانوں ہی نہیں تمام انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل قرار دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دینی علوم کے مرکز اور یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دونوں کلیدی تعلیمی اداروں کے مابین تعمیری تعاون کو یقینی بنانے کے لئے کوششیں انجام دی گئيں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں بھی اس عظیم دن کی پوری دنیا میں پھیلی امت مسلمہ، عزیز ایرانی قوم، حاضرین محترم اور ملک کے زحمت کش حکام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یوم بعثت کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے کہ مجھ جیسے لوگ اس کی تشریح کر سکیں۔ لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کی زندگی میں بعثت کی تاثیر ایسا نکتہ ہے کہ جس کے بارے میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔
بعثت کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا کہ ایک خلاء تھا اور انسانیت کو بعثت کی شدید ضرورت تھی۔ خداوند عالم نے اپنی حکمت بالغہ سے، اس عظیم واقعے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا کہ اس دور میں جو باتیں رائج تھیں ان سے آلودہ ہوئے بغیر اس دور کی دنیا میں بھی پہچانا جائے اور تاریخ میں بھی باقی رہے۔ یہ خود ایک اہم نکتہ ہے۔ ممکن تھا کہ فرض کریں کہ آخری پیغمبر کی بعثت اس دور کے روم میں ہوتی، اس دور کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی۔
بعثت کے زمانے میں دنیا میں عظیم تمدن موجود تھے۔ ایسی اقوام تھیں کہ جو انسانی علوم و فلسفے اور مدنیت کی اطلاعات سے بہرہ مند تھیں۔
بعثت ان ملکوں میں اور ان علاقوں میں ہو سکتی تھی۔ مگر خداوند عالم اس بعثت کو جو تاریخ بشریت میں ہمیشہ باقی رہنے والی تھی، ان جگہوں پر نہیں لے گیا۔ اس بعثت کو اس جگہ نہیں لے گیا، جہاں اس فکر اور اس دعوت میں بیرونی عناصر داخل ہو سکتے تھے۔ اس دور کے مغربی ممالک ایسے علاقے تھے جو عظیم تمدن کے مالک تھے۔ پیغمبروں کے ساتھ ان کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مدنیت کے مالک تھے۔ انہیں میں سے شہر انطاکیہ کے لوگ تھے۔ سورہ یاسین میں خداوند عالم نے وہاں تین پیغمبروں کو بھیجنے کا ذکر کیا ہے اور سر انجام اس دیار کے لوگوں کی ناسپاسی ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ تاریخ نے بھی ان اقوام کے واقعات بیان کئے ہیں۔ آخری پیغمبر کو وہاں مبعوث نہیں کیا۔
جزیرۃ العرب میں انسانی علوم نہیں تھے۔ شرک تھا اور شرک آلود رسومات تھیں اور وہ بھی پست ترین سطح پر۔ لہذا آپ قرآن میں بھی ملاحظہ فرماتے ہیں کہ شرک کے خلاف سخت جدوجہد ہوئی ہے۔ سورہ اخلاص جس نے لم یلد ولم یولد کو اتنا واضح اور نمایا ں کیا ہے۔ چار آیتوں کے اس چھوٹے سے سورے میں لم یلد لم یولد قلب میں واقع ہے اور لم یکن لہ کفوا احد نمایاں اور آشکارا ہے تاکہ شرک ذہنوں سے دور کر دیا جائے اور پیام خدا سے مخلوط نہ ہو۔ اسلام میں ہر شرک آلود کام مسترد کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھیں تو اسلام خالص شکل میں منظر عام پر آيا اور اکناف و اطراف عالم میں خالص شکل میں منتقل ہوا اور پھیلا۔ بنابریں جہاں بھی گیا، مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو چیلنج کیا اور ان کے مقابلے میں اپنے نمایاں ہونے کا ثبوت دیا۔ یہاں تک کہ اس کی تبلیغ کرنے والوں کا خلوص ختم ہو گیا تو تبلیغ کا خلوص بھی ختم ہو گیا۔ یہ بعثت، بشریت کے لئے ہمشیہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ بعثت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت ہے۔ یعنی جب بھی عالم اور زندگی بشر معنویت سے خالی ہو جائے تو وہی معارف اور اصول جن کی قرآن کریم بات کرتا ہے، آکر اس خلاء کو پر کر سکتے ہیں۔ اسلامی معارف و اصول کی کیفیت ایسی ہے اور اس قانونی مجموعے میں ایسی قوت ہے کہ تمام حالات میں معنوی خلاء کو پر کر سکتا ہے اور بشریت کو معنوی فضا میں زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کر سکتا ہے۔
آج بھی انہیں حالات میں سے ایک حالت ہے۔ ملکوں اور اقوام میں کسی دعوت کے موثر اور مقبول ہونے کی شرط کیا ہے؟ پہلی شرط دعوت کا منطقی اور معقول ہونا ہے۔ ہر وہ بات جو اسلام کو اس کی معقولیت اور منطقی پہلو سے الگ کرے، اسلام کے رشد اور نشر و اشاعت کو نقصان پہنچائے گی۔ جو لوگ اسلامی مسائل کے بارے میں بولتے ہیں اور اظہار رائے کرتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں۔ اسلام عقلی اصولوں پر استوار ہے۔ اسلام ایسا دین ہے کہ عقل سلیم اس کو سمجھتی ہے۔ اس کو درک کرتی ہے۔ اس کو پسند کرتی ہے اور قبول کرتی ہے۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر اسلامی حکم کے ساتھ ایک عقلی دلیل بھی موجود ہونی چاہئے۔ صبح کی نماز دو رکعت کیوں ہے؟ کیا اس کے لئے عقلی دلیل کی ضرورت ہے؟ نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کسی بھی عقل میں کوئی بات آ گئی تو وہ اسلام میں بھی ضرور نظر آئے۔ یہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات، اسلام سے جس کا رابطہ قابل قبول ہے اور اہل علم و اہل فن مانتے ہیں کہ یہ اسلام سے مربوط ہے، ہر علمی اور عاقلانہ ماحول میں قابل پیشکش ہے۔ نماز کو دنیا کے مادی ترین فرد کو بھی سمجھایا جا سکتا ہے، بتایا جا سکتا ہے کہ نماز کیا ہے اور اسلام نے نماز کیوں واجب کی ہے۔ انیسویں صدی کا جو مغرب کی بے دینی کی صدی ہے ایک مغربی مفکر جو بہت معروف ہے لیکن میں اس کا نام لینا نہیں چاہتا، کہتا ہے کہ نماز میں بہت بڑا راز نہفتہ ہے جی ہاں اگر اس میں عظیم راز نہ نہفتہ ہوتا تو مادہ پرستی کے اس ماحول میں ایک مفکر اس کے بارے میں یہ نہ کہتا۔ اہل انصاف، اہل علم، صاحبان عقل اور صاحبان منطق و استدلال، تمام اسلامی تعلیمات کو سمجھ سکتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔
معقول اور منطقی ہونا اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اگر کچھ لوگ اسلام کو اس خصوصیت سے الگ کرنے کی کوشش کریں، یا اپنے پروپیگنڈوں میں کہیں کہ یہ علم اور عقل کا مخالف دین ہے یا عمل میں ایسی باتوں کو اسلام سے منسوب کریں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اس قابل نہ ہو کہ عقل سلیم اس کی تصدیق اور تائید کر سکے، تو یہ باتیں یقینی طور پر اسلام کی اشاعت کو نقصان پہنچائیں گی، ان سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ بنابریں معقول اور منطقی ہونا ایسی خصوصیات میں سے ہے جو اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسلام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ معنوی اور خدائی دین ہے۔ عیسائیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں آخرت کے پہلو دنیاوی پہلوؤں پر غالب ہیں، اسلام ایسا نہیں ہے۔ اسلام دنیا کو بھی آخرت کا جز سمجھتا ہے۔ یہی آپ کی زندگی، آپ کی تجارت، آپ کا پڑھنا، آپ کا ملازمت کرنا، آپ کے سیاسی امور، یہ سب آخرت کا جز ہیں۔ دنیا بھی آخرت کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس طرز فکر کے ساتھ آپ اچھی نیت سے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ نیکی ہے جو آخرت میں تقرب خدا اور معنوی درجات تک پہنچائے گی اور اگر خدا نخواستہ بری نیت یا خود پسندی کی نیت سے کوئی کام انجام دیا تو یہ بات زوال، پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوگی ۔
اسلام اس طرح کی تعلیمات کا حامل دین ہے۔ ہماری پوری زندگی، ہماری تمام دنیاوی کوششیں، آخرت کا حصہ ہیں۔ دنیا و آخرت ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ برائی اس میں ہے کہ روزمرہ کی زندگی سے مربوط یہ مادی کوشش، بری نیت سے انجام دی جائے۔ وہ دنیا جس کو مذموم کہا جاتا ہے یہی ہے۔ مگر یہ عالم اس عالم سے الگ نہیں ہے۔ یہ عالم اس عالم آخرت کی کھیتی ہے۔ کھیتی یعنی کیا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فصل کھیت کے بجائے کسی دوسری جگہ حاصل کی جائے؟ یہ تعبیر انتہائی وحدت، ہم آہنگی اور دونوں کے ایک ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ایک معنوی دین بھی ہے۔ اسلام میں دلوں کو خدا کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ نیتیں خدا کے لئے ہونی چاہئیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت اور اس کے عام ہونے کا ایک سبب ہے۔
آج دنیا میں جس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور خود دنیا کے عوام اس کا احساس کرتے ہیں، خاص طور پر مغرب میں، معنویت کی کمی اور روحانیت کا خلاء ہے۔ مادیات میں غرق ہو گئے ہیں، معنویات سے دور ہیں اور خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خواہشات کی خصوصیت یہ ہے کہ ابتدائے امر میں تو یہ خواہش ہوتی ہیں لیکن جاری رہنے کی صورت میں عالم جہنم بن جاتی ہیں۔ جب کسی فرد یا قوم کی زندگی میں خواہشات غالب آ جائیں تو وہ زندگی جہنم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی خواہشات کی خاصیت ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا مل جائے جو زیادہ عرصے تک خواہشات میں غرق رہنے کے بعد بھی خوش ہو۔ ایسے کسی شخص کو خدا نے پیدا نہیں کیا ہے۔ آپ جائیں، دیکھیں، تحقیق کریں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ ایک مسلمہ اور واضح بات ہے۔ خواہشات کے نرغے میں باقی رہنا انسان کے لئے جہنم کی زندگی بن جاتا ہے۔ یہ وہی جہنم ہے کہ جس میں آج مغرب کے کچھ متمول لوگ مبتلا ہیں اور جو متمول نہیں ہیں وہ غربت، لاچاری اور دوسری برائیوں کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ البتہ ان میں مستثنی افراد بھی ہیں۔ ہر طبقے میں یقینا مستثنی لوگ مل جائیں گے۔ وہاں اچھے انسان بھی ہیں لیکن عمومی حالت یہی ہے۔
آج کی دنیا اس بعثت کی محتاج ہے۔ ایران اسلامی میں ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت بھی دوسری حکومتوں کی طرح ہو۔ کچھ دن اس خاندان نے اور کچھ دن دوسرے خاندان نے حکومت کی اور اب مسلمین اور مومنین حکومت کر رہے ہیں۔ ہمارا قضیہ یہ نہیں ہے۔ ہمارا قضیہ ایک پیغام سے عبارت ہے۔ ایک بعثت کا قضیہ ہے۔ ہم دنیا والوں کے سامنے نئی بات پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے۔ یہ نئی بات اور نیا پیغام جس کا پہلا اثر خود ہماری زندگی میں اور ہمارے ملک میں نظر آنا چاہئے، دنیا میں ایک نیا راستہ پیش کرتا ہے۔ اس کو اسلامی جمہوریہ کے کارکن فراموش نہ کریں۔ یہ وہ نظام ہے جو اس لئے آیا ہے کہ بشریت کو بعثت کی حقیقت سے روشناس کرائے۔ یہ نظام گمراہ نظاموں، حکومتوں اور معاشروں سے کچھ سیکھنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم بہت برے ہوں، ہم میں بہت نقائص ہوں، اس پیغام کو پہنچانے کے لئے ہم بہت چھوٹے ہوں، مگر یہ پیغام نجات انسانیت کا پیغام ہے۔ اس پر سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ اس پیغام میں اپنے مزاج کے مطابق رد و بدل کریں، اس میں کچھ کمی بیشی کر دیں۔ نہیں' یہ پیغام پوری بشریت کے لئے ہے اور انسان اس کا محتاج ہے۔ ہم بشریت کے طرفدار ہیں۔ ہم بشریت کے دشمن نہیں ہیں۔ ہم دنیا کی تمام اقوام کے علم، پیشرفت اور آرام و آسائش کے طرفدار ہیں۔ ہمیں پتہ ہے ان کی تکلیف کیا ہے۔ انہیں معنویت کی ضرورت ہے اور معنویت یہاں ہے۔ البتہ معنویت مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اگر مسلط کی جائے تو دوسروں پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ ہم اس کو صرف پیش کرتے ہیں۔
یہاں دو نکات ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ ایک نکتے پر ہم اور آپ، اس نظام کے تمام حکام توجہ دیں! نکتہ یہ ہے کہ ہمیں صرف منتظم اور حاکم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ دنیا میں نئی فکر پیش کرنے والے کی حیثیت سے اس طرح عمل کرنا چاہئے اور اپنی رفتار و کردار کو پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھالنا چاہئے اور اس فکر کی خود مختاری اور اس کی خالص شکل کی حفاظت کرنی چاہئے۔
اس میں ایک نکتے کا تعلق دنیا کے عوام سے ہے۔ سامراج کے ذرائع ابلاغ عامہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو جارح اور دنیا کے تمام نظاموں کا قلع قمع کرنے پر آمادہ نظام کی حیثیت سے متعارف کرائیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں جو جس طرح چاہے زندگی گزارے۔ ہم صرف وہ چیز پیش کرتے ہیں جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ امیرالمومنین علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ طبیب دوار بطبہ قد احکم مراحمہ و احمی مواسمہ ہمارے پاس بشریت کے آج کے مسائل کی دوا موجود ہے۔ جو نہ چاہے نہ لے۔ ہم کسی سے لڑتے تو نہیں ہیں۔ اگر انسان آج تشخص کے بحران سے دوچار ہے، معنویت کے فقدان میں گرفتار ہے، انسانی روایات کی بے حرمتی سے تکلیف میں ہے کہ باپ بیٹے پر رحم نہیں کرتا، بیٹا باپ کا احترام نہیں کرتا، ماضی کی روایات کا پاس نہیں کرتے، اپنی ذاتی اقدار کے علاوہ دیگر اقدار کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، تو یہ ایک المیہ ہے۔ آج مغربی اقوام اس بحران سے دوچار ہیں اور اس کا علاج اسلام کے پاس ہے۔ اگر آج دنیا میں دولت مندوں کی دولت روز بروز بڑھ رہی ہے اور کچھ افراد اور کمپنیاں افسانوی انداز میں اربوں کما رہی ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو راتوں کو سڑکوں کے کنارے کارٹون بچھا کر سوتے ہیں تو یہ مغرب کی مشکلات ہیں۔ اگر شادی کرنے کی ہزاروں سفارشات، اور خاندان کی تشکیل کے تمام تر تشہیرات کے باوجود مغربی ملکوں میں خاندانی بنیادیں روز بروز کمزور سے کمزورتر ہوتی جا رہی ہیں، اگر لڑکے اور لڑکیاں موجودہ صورتحال پر راضی نہیں ہیں، جو لوگ خود اس جرم میں شریک ہیں وہ بھی تکلیف محسوس کر رہے ہیں، خاندان کی بنیادیں متزلزل ہیں اور بچے پریشان ہیں، اگر نفسیاتی بحران نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تویہ کس لئے ہے؟ اتنی زیادہ خودکشی کی وارداتیں کس لئے؟ گذشتہ چند مہینوں یا تقریبا ایک سال کے اندر امریکا میں جہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علم و دولت کی چوٹی پر پہنچ چکے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صرف انہیں چیزوں کی اہمیت ہے، کئ افراد قتل کر دیئے گئے۔ اب وہ کتے بلی سے محبت اور ہمدردی کے اظہار کے لئے ہیلی کاپٹر لیکے بیابانوں میں اپنے گمشدہ کو تلاش کریں، کیا اندھے ہیں؟ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟ ایک شخص ریل کے ڈبے میں داخل ہوتا ہے اور مشین گن سے فائرنگ کرکے کئی افراد کو قتل کر دیتا ہے۔ اس ڈبے سے نکلتا ہے تو دوسرے ڈبے میں جاتا ہے وہاں بھی کئی افراد کو قتل کرتا ہے۔ اگر بشریت ان بیماریوں میں مبتلا ہے اور علاج نظر نہیں آتا تو ہم کہتے ہیں علاج یہاں ہمارے پاس ہے۔ علاج اسلام ہے۔ علاج آج کی دنیا میں بعثت کی تجدید ہے۔ آج آپ ہراول دستہ ہیں۔ ایرانی قوم ہراول دستہ ہے۔ اس کو عمل کرنا چاہئے اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔
اب وہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایران کا سب سے جھگڑا ہے۔ ایران کو سب پر اعتراض ہے۔ نہیں، ایران کو صرف مستکبر حکومتوں کی جاسوسی کی تنظیموں پر اعتراض ہے جو ان ملکوں کے گھناؤنے ترین مراکز میں شامل ہیں۔ ہمیں ان پر اعتراض ہے جو یہ پروپیگنڈے تیار کرتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، ان غیر ملکی نشریات کے پروپیگنڈے کون ترتیب دیتا ہے؟ مثلا یہی بی بی سی کے پروپیگنڈے کون تیار کرتا ہے؟ برطانوی انٹیلیجنس کی تنظیم اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور یہ پروپیگنڈے تیار کرتی ہے۔ ہم ایک ملک اور قوم ہیں اور ہمارا ایک پیغام ہے۔ ہم طاقت و توانائی اور قابل فخر ماضی رکھتے ہیں۔ ہمارا ماضی بھی درخشاں تھا اور حال بھی درخشاں ہے۔ آج کے دور میں امام خمینی جیسی ہستی ہمارے درمیان تھی اور ایسی کوئی شخصیت نہ آج کے دور میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی ماضی قریب میں نظر آتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں کہ جنہوں نے اپنی عظمت کا اعتراف ساری دنیا سے کروایا ہے۔ ایسی مائیں، ایسے باپ، ایسے خاندان ہیں اور ایسے سائنسداں ہیں کہ ہمیں کسی کی محتاجی نہیں ہے۔ کسی سے خوف بھی نہیں ہے۔ کسی سے بھی۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس ملک کے پیچھے جائیں۔ یا کسی جگہ کو فتح کریں، کسی جگہ کو مسمار کریں۔ کسی جگہ دھماکہ کریں۔ یہ انسانیت مخالف نظاموں کا کام ہے۔ یہ ان حکومتوں کا کام ہے جو آج اس طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ یہ ہمارے کام نہیں ہیں۔
ہمارا پیغام اسلام ہے۔ اسلام پھیلنے کے عوامل میں سے ایک، جیسا کہ میں نے عرض کیا، نرمی ہے۔ ما کان رفق فی شئ الا ذاتہ یعنی نرم ہونا، ہموار ہونا، نرمی کا مطلب سستی نہیں ہے۔ نرمی کا مطلب کمزور ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ناہموار نہ ہونا ہے، جگر خراش نہ ہونا ہے۔ آپ کسی سخت چیز پر جیسے فولاد پر ماریں تو آپ کے ہاتھوں میں درد کا احساس ہوگا، چبھن کا احساس ہوگا۔ نرمی کا مطلب یہ ہے کہ ہموار ہو، کسی چیز پر ہاتھ پھیریں تو ممکن ہے کہ آپ کے ہاتھوں پر خراش آ جائے زخم آ جائیں حالانکہ وہ چیز ممکن ہے کہ فولادی نہ ہو، لکڑی کا ایک ٹکڑا ہو۔ ممکن ہے لکڑی اس طرح کاٹی جائے کہ ناہموار ہو۔ بعض لوگ ناحق، غیر مدلل، بے معنی بات اس طح کرتے ہیں کہ سب کو نشتر کی سی چبھن کا احساس ہونے لگتا ہے اور ممکن ہے کہ کوئی بامعنی، قوی اور صحیح فکر کو اس طرح بیان کرے کہ کسی بوجھ کا احساس نہ ہو، بات بالکل آسان لگے۔ اسلام کی یہی خصوصیت ہے۔ قرآن کی یہی خصوصیت ہے۔
ہمارے لئے بعثت کا سب سے اہم درس یہی ہونا چاہئے۔ بھائیو اور بہنو' درس قرآن یہ ہونا چاہئے کہ ہم ایک نیا پیغام پہنچانے والے ہیں اور ہم خود اس نئی بات کی حفاظت کریں۔ دوسرے یہ کہ ہمارے پاس جو ہے اس کی انسانوں کو اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ زندگی کی خوبیوں سے محروم اور نابلد ہیں۔ ان چیزوں کو جو ہمارے پاس ہیں، دنیا کے ان مفکرین کی باتوں سے مخلوط نہ کریں جنہوں نے اپنے عوام کے لئے زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔
تیسرے یہ کہ دوسروں کی بڑی بڑی باتوں سے مرعوب نہ ہوں۔ ہمارے پاس منطق ہے۔ ہمارے پاس حقانیت کا پیغام ہے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز صحیح نہیں ہوئی تو سمجھ لیجئے کہ اس کا صحیح ہونا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے صحیح مالک کے پاس جائیں تا کہ وہ اسے صحیح کرے۔ منطقی، مستحکم اور قوی بات۔ یہ وہی مشعل ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روشن کی ہے۔ اس مشعل نے اس دور کی دنیا کو روشن کیا، اس دور میں تہذیبوں کی، ایک تہذیب کی نہیں متعدد تہذیبوں کی بنیاد رکھی۔ آج بھی یہ شمع ایسا ہی کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس دور میں بھی دنیا کے پاس نئی چیزیں تھیں۔ علم تھا، پیشرفت تھی۔ انطاکیہ تھا، روم تھا، یونان تھا، ایران تھا، ہگمتانہ تھا، پرسپولیس تھا، اس دور میں بھی دنیا علم سے بالکل ہی خالی نہیں تھی۔ لیکن جب یہ مشعل روشن ہوئی، جب یہ سورج نکلا تو تمام شمعوں کی روشنیاں ماند پڑ گئیں اور یہ نور سب پر غالب آ گیا۔ لیظھرہ علی الدین کلہ اسلام فطری طور پر معنویت کے غلبے کے لئے آیا تھا۔ جب سورج نکلے تو آپ ایک ہزار شمعیں اس کے سامنے رکھہ دیں، روشنی نہیں دیں گی۔ بعثت اسی طلوع اور غلبے کا نام ہے۔ یہ وہی مشعل ہے، وہی چراغ ہے، وہی سورج ہے۔ اس کی قدر کریں۔ بعثت کو اپنے وجود میں اپنی زندگی میں شمع فروزاں کی مانند روشن رکھیں۔ خدا سے نصرت طلب کریں، یقینا خدا مدد کرے گا۔
پالنے والے ہمیں امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعاؤں کا مستحق قرار دے۔ ہمیں اپنی رحمت اور ہدایت عنایت فرما۔ ہمارے قلب، ہمارے جسم، ہمارے عمل، ہماری زبان اور ہماری فکر کو نورانی کر دے۔ ہمیں اور ہماری ذریت کو اسلام سے زندہ رکھ اور اسلام پر ہی موت دے۔ ہمارے امام خمینی کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ اس عید کو پوری دنیا کے تمام مومنین و مومنات کے لئے مبارک کر۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ