21 اپریل برصغیر کے مشہور فلسفی، مفکر، اسلامی اسکالر، شاعر اور سیاستداں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یوم وفات ہے۔ اگرچہ علامہ اقبال عوام کی نظروں میں اپنے اشعار خاص طور پر فارسی کلام کی وجہ سے ہند و پاک کے بلند پایہ شاعروں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایک دانشور ہیں جس نے اپنے گہرے افکار و نظریات کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر مشرقی اقوام خاص طور پر امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا ہے۔
جب بھی فلسطینی مجاہدت کی تاریخ لکھی جائے گي تب 7 اکتوبر اور 14 اپریل کا بہت بڑی تبدیلی لانے والے لمحات کے طور پر ذکر ہوگا۔ اگرچہ ماضی میں غاصبانہ قبضہ کرنے والی صیہونی حکومت کو مزاحمتی محاذ کی طرف سے مسلسل چیلنجز مل رہے تھے لیکن ان دونوں تاریخوں میں ایسا کچھ ہوا جو اپنی ہمہ گيریت اور اسکیل کے لحاظ سے اب تک بے مثال رہا ہے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے شروع ہونے اور ہیومنزم کے افکار کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی یونیورسٹی کا مفہوم بھی تبدیل ہو گيا۔ یونیورسٹی کی جہت دینی علوم سے ان علوم کی طرف مڑ گئي جو قانون، زبان کے قواعد، سیاست اور فلکیات جیسے روز مرہ کی انسانی زندگي میں سرگرم کردار ادا کرتے ہیں۔ پندرھویں صدی کے اواسط سے یورپ کی یونیورسٹیوں میں ہیومنزم کے افکار اور نئے فلسفے کو مزید فروغ حاصل ہوا اور رفتہ رفتہ وہ ان علمی مراکز کے دوسرے دیگر افکار و خیالات پر چھا گئے۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ کے مفکرین اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو ایک بڑی ذمہ داری ملی اور وہ مذہبی التزام سے عاری انسانی زندگي کے لیے اخلاقی حدود کی تعریف اور ان کا تعین تھا۔
غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم سے متعلق خبریں روزانہ ہی نیوز چینلز اور اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ اسی طرح غزہ کا بحران خبری ٹاک شوز، سیاسی تبصروں اور خبری مباحثوں کے روزمرہ کے موضوع میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں جو سب سے اہم سوال پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک، غزہ کے موجودہ بحران سے باہر نکلنے اور اس علاقے میں جاری بھیانک قتل عام اور تخریب کاری کے خاتمے کا راستہ ہے۔
رہبر انقلاب کے اس جملے پر قہقہے بلند ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صفوی بھی ہنستے ہوئے کہتی ہیں جی ہاں، آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی وہ تالیاں بجانے لگتی ہیں اور حاضرین بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
گرفتاریاں، ایذائیں، تفتیش، اسپتال کے اندر لوگوں کا قتل، لاشوں کو باہر لے جانے پر پابندی، اسپتالوں میں امداد آنے پر روک، میڈیکل اسٹاف پر براہ راست فائرنگ، اسپتالوں کے در و دیوار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دینا، قبروں سے لاشوں کو باہر گھیسٹنا اور پھر انہیں بلڈوزروں سے کچل دینا، صیہونیوں کے موجودہ وحشی پن کے نمونے ہیں۔
آج امریکا اور مغرب میں شاید ہی کوئي بیدار ضمیر انسان ہوگا جو حالیہ ایک صدی کے سب سے بھیانک جرائم میں سے ایک کے بارے میں خاموش اور لاتعلق ہو۔ اس جرم کے سبب غزہ میں اب تک بتیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار کے بقول یہ روانڈا میں نسل کشی کے بعد سے دنیا کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔(1) کوئي صیہونی حکومت کے سفارتخانے کے سامنے خودسوزی کر کے اس نسل کشی میں اپنے ملک کی شرکت پر اعتراض کرتا ہے(2) کوئي امریکی وزارت خارجہ کے اہم عہدے سے استعفیٰ دے کر(3) تو کوئي واشنگٹن، نیویارک اور سان فرانسسکو کی سڑکوں پر ہفتوں جنگ مخالف مظاہرے کر کے۔
رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے 20 مارچ 2024 کو عید نوروز کی تقریر میں غزہ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے صیہونی حکومت کی حالت ان الفاظ میں بیان کی: غزہ کے واقعے میں پتہ چلا کہ صیہونی حکومت نہ صرف اپنے تحفظ کے سلسلے میں بحران سے دوچار ہے بلکہ بحران سے باہر نکلنے میں بھی اسے ایک بحران کا سامنا ہے۔ غزہ میں صیہونی حکومت کے داخل ہونے سے اس کے لئے ایک دلدل پیدا ہو گئی۔ اب اگر وہ غزہ سے باہر نکلے تو بھی شکست خوردہ ہے اور باہر نہ نکلے تب بھی شکست خوردہ مانی جائے گی۔
غزہ کی رہنے والی ایک ماں اپنے ننہے شہید بچے کا جنازہ آغوش میں اٹھائے ہوئے ہے۔ اسے چومتی ہے، پیار کرتی ہے، نہ جانے کن احساسات و جذبات کے ساتھ اس کی آخری آرام گاہ کی سمت لے جاتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے 5 مارچ 2024 کو ایران میں یوم شجرکاری کی مناسبت سے تین پودے لگائے جن میں سے ایک زیتون کا پودا تھا۔ انھوں نے زیتون کا پودا لگانے کے بعد کہا کہ "زیتون کا درخت لگانے کا مقصد فلسطین کے عوام سے یکجہتی اور ہمدلی کا اظہار ہے کہ وہ جگہ زیتون کا مرکز ہے اور ہم دور سے ان مظلوم، عزیز اور مجاہد عوام کو سلام کرنا چاہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ہر طرح سے آپ کو یاد کرتے ہیں، جیسے یہ کہ آپ کی یاد میں زیتون کا درخت لگاتے ہیں۔"
تحریر: بنیامین منیعات :
امام خامنہ ای سے، پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں اور شہداء کے اہل خانہ کی ملاقات کی ایک نجی روداد، 28 فروری 2024ـ
پہلی بار ووٹ دینے والوں سے رہبر انقلاب اسلامی کی ملاقات کی جگہ یعنی حسینیۂ امام خمینی پر جا کر ختم ہونے والی سڑک کے کنارے نالی کا صاف پانی گزشتہ دنوں سے کہیں زیادہ تھا۔ موسم سرما کے ان آخری دنوں میں برفباری نے پہاڑوں کو مزید برف سے ڈھک دیا تھا اور ہمیں بغیر پانی کی قلت والے موسم گرما کی طرف سے زیادہ پرامید کر دیا تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای اپنی اہلیہ کے بارے میں: "انھوں نے مجھ سے کبھی بھی لباس خریدنے کے لیے نہیں کہا ... انھوں نے کبھی اپنے لیے کوئی زیور نہیں خریدا۔ ان کے پاس کچھ زیور تھے جو وہ اپنے والد کے گھر سے لائی تھیں یا بعض رشتہ داروں نے تحفے میں دیے تھے۔ انھوں نے وہ سارے زیور فروخت کر دیے اور اس سے ملنے والے پیسوں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دیا۔ اس وقت ان کے پاس زر و زیور کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے، یہاں تک کہ ایک معمولی سی انگوٹھی بھی نہیں ہے۔"
سید حسن نصر اللہ: "جب یہ کتاب میرے پاس پہنچی تو میں نے اسی رات اسے پڑھ ڈالا۔"
سنہ 2023 ایسے عالم میں ختم ہوا کہ جب غاصب صیہونیوں کے مظالم و جرائم کے سامنے فلسطینی مجاہدین کی شجاعت اور غزہ کی عورتوں اور بچوں کی استقامت نے اپنے روز افزوں فروغ کو باقی رکھا اور نئے سال میں بھی جاری رہی۔ اس دوران صیہونی حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ کھل گيا ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کی عالمی حیثیت کو پہلے سے زیادہ داغدار کر دیا ہے بلکہ اس پر بھاری معاشی بوجھ بھی لاد دیا ہے۔
حالیہ برسوں میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے تشریح و جہاد کے بیان پر مسلسل زور دیا جانا، اس موضوع کی خصوصی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے جو آج اسلامی انقلاب کی کلیدی بحثوں میں شامل ہو چکا ہے۔
پچھلے کچھ عشروں کے دوران عالمی اداروں اور قانونداں سوسائٹی کے سامنے جو ایک بڑا اہم مسئلہ رہا ہے وہ امن اور جنگ کے مختلف حالات میں میڈیا اہلکاروں کی حفاظت کا ہے۔ اگرچہ بیسویں صدی کے ابتدائي برسوں میں جنگ کے حالات میں قیدی اخبار نویسوں کی حمایت میں ہیگ کے سنہ 1907 کے کنوینشن جیسے عالمی قوانین بنائے گئے لیکن اس صدی کے دوسرے نصف میں اخبار نویسوں کے کام کے قانونی مسائل پر خاص توجہ دی گئي۔ اس سلسلے میں جینوا کے چار فریقی 1977 کے پہلے ایڈیشنل پروٹوکول کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں اخبار نویس کی اصطلاح میں، جسے ایڈیشنل پروٹوکول میں استعمال کیا گيا ہے، ان تمام افراد کو شامل کیا گيا ہے جو میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں جن میں رپورٹر، کیمرہ مین، وائس ٹیکنیشین وغیرہ شامل ہیں۔
غزہ کے سلسلے میں پیش گوئیاں صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ شروع سے ہی حالات پر نظر رکھنے والوں نے یہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی یہ پیش گوئی کی تھی اس قضیے میں فلسطین کی استقامتی تحریک فاتح ہوگی۔ اس جنگ میں شکست، خبیث اور ملعون صیہونی حکومت کو ہوگی۔
امام خامنہ ای نے 23 دسمبر 2023 کو خوزستان اور کرمان کے عوام سے ملاقات میں غزہ کے عوام کی استقامت و مزاحمت کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "غزہ کا واقعہ فلسطینی عوام اور فلسطینی مجاہدین کے پہلو سے بھی بے نظیر ہے کیونکہ ایسی مزاحمت اور صبر و استقامت اور دشمن کو اس طرح بدحواس کر دینا، کبھی دیکھا نہیں گیا۔ غزہ کے عوام پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ کھانا، پانی، دوائیں اور ایندھن نہیں پہنچ رہا ہے لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور جھک نہیں رہے ہیں۔ یہی گھٹنے نہ ٹیکنا انھیں فاتح بنائے گا۔ "ان اللہ مع الصابرین" (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ سورۂ انفال، آیت 46) فلسطینی عوام کا یہ صبر، جنگ کے ابتدائي دنوں سے قابل توجہ تھا اور اس وقت توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
سوربھ کمار شاہی کا کہنا ہے کہ اپنے آپریشنل یا حتی ٹیکٹکل اہداف حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے جھلاہٹ کا شکار صیہونی حکومت ایک بار پھر فلسطینی شہریوں پر حملے کر رہی ہے۔
آج سے کچھ مہینے پہلے شاید ہی کوئي یہ سوچ سکتا تھا کہ امریکی حکومت کی ایک سب سے بڑی تشویش اور بنیادی مشکل، خارجی پالیسی کا ایک مسئلہ ہوگا کیونکہ کبھی بھی ریاستہائے متحدہ امریکا میں عالمی مسائل، انتخابات پر چنداں اثر انداز نہیں ہوتے اور وہ اس ملک کے صدر کی مقبولیت میں بہت زیادہ تبدیلی لانے کی طاقت نہیں رکھتے۔
تاریخ بشر میں ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ ظالم، ظلم کی گوناگوں روشوں سے یہ کوشش کرتا رہا کہ ستم رسیدہ افراد پر غلبہ حاصل کر لے اور اپنے دائمی تسلط کی بنیادیں مضبوط کر لے لیکن زمینی حقیقت اس کے برخلاف ظاہر ہوئی۔ فراعنہ مصر سے لے کر یزیدوں تک سب کے سب اپنے اپنے زمانے کے موسی و حسین کے سامنے مٹ گئے۔ مستضعفین نے عارضی سختیوں کا مضبوطی سے سامنا کیا اور سرانجام مستکبرین کو مغلوب کر لیا۔
ٹھیک ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بڑا الٹ پھیر شروع ہو گيا ہے۔ وہ لوگ جو اس کا حصہ ہوتے ہیں وہ اکثر اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسے "بوائلنگ فراگ سنڈروم" کہا جاتا ہے۔ خیر، آپ ذرا سا زوم کیجیے تو آپ پائيں گے کہ پرانے نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ کسی نے کبھی بالکل صحیح کہا تھا کہ مغربی نظام کا بکھراؤ سلطنت روم کا شیرازہ بکھرنے کی طرح ہی ہے لیکن ہم اس نظارے کا انٹرنیٹ پر ریئل ٹائم لطف لے سکتے ہیں۔
سوربھ کمار شاہی مغربی و جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر جرنلسٹ
ہم وقت کے ایک بڑے اہم موڑ پر ہیں، اس وقت بھی جب میں یہ الفاظ سپرد قلم کر رہا ہوں۔ گھمنڈ کے نشے میں چور مغربی ایشیا کی ایک سفاک اور تباہ کن طاقت کو ایک ایسی اسٹریٹیجک شکست دی گئي ہے جس کی تلافی شاید ہی وہ کبھی کر پائے۔ مشرق وسطی میں مسلط کی گئي سامراجی اور نسل پرست حکومت اس مہینے کی شروعات میں اس وقت دہشت زدہ ہو گئي جب استقامتی محاذ نے اس کے مشہور و معروف دفاع کو زمیں بوس کر دیا جس پر اسے بڑا ناز تھا۔ اس کے خفیہ اداروں کو، جنھیں دنیا بھر میں اس کی دوست حکومتوں کی جانب سے تمام تر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور جو نیٹ فلکس اور دیگر ذرائع ابلاغ میں مسلسل اپنا پروپیگنڈہ انڈیل کر اپنے ہی منہ میاں مٹھو بنتے رہتے ہیں، یہ پتہ ہی نہیں چل پایا کہ انھیں کیسی مار پڑی ہے۔ فلسطین کی مقبوضہ اراضی پر حماس کے حملے نے، ویسے ہی ایک زخم کا اضافہ کر دیا ہے جیسا زحم حزب اللہ نے تقریبا دو دہائي پہلے دیا تھا یعنی دنیا کو یہ دکھا دیا تھا کہ صیہونی حکومت کے ناقابل تسخیر ہونے کا دعوی، محض افسانہ ہے۔
شام کے علاقے فوعہ اور کفریا کی ایک ماں بیٹی، محرم کے ایام میں ایران کے ٹی وی چینل-3 کے معلیٰ نامی پروگرام میں شریک ہوئے تھے اور ماں نے یہ آرزو ظاہر کی تھی کہ ان کی دو گمشدہ بیٹیاں مل جائيں اور آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے ان کی ملاقات ہو جائے۔
16 اگست 2023 کو دونوں نے، مذکورہ ٹی وی پروگرام کی ٹیم کے ساتھ رہبر انقلاب سے ملاقات اور گفتگو کی۔
آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR اسی مناسبت سے فوعہ اور کفریا میں دہشت گرد قیدیوں کو دہشت گرد تنظیم کے حوالے کئے جانے اور اس علاقے میں محصور گھرانوں کو وہاں سے باہر نکالنے کے دن رونما ہونے والے ہولناک واقعات کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ پیش کر رہی ہے۔
"اسم تو مصطفی است" کتاب کیوں پڑھیں؟
زندگی کی داستان
جہاد، ایک مجاہد انسان کی زندگي اور منش کا ایک حصہ ہے۔ اگر مومن کی زندگي کے کئي حصے ہوں تو جہاد اور جنگ، اس کا صرف ایک حصہ ہے، سارے حصے نہیں۔ اگر مومن کی زندگي قوس قزح ہو تو جہاد اور جنگ اس کا ایک رنگ ہے، سارے رنگ نہیں۔ تو ایک مومن کا جہاد اور جنگ، ایک سخت مردانہ مفہوم ہونے سے زیادہ، ایک ایسا مفہوم ہے جس کی جڑ اس کی زندگي اور انسانیت میں پیوست ہے۔ موضوع پر اس طرح نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ جہاد کا ایک رخ، سخت، مستحکم اور کڑا ہے جو میدان جنگ کی صف اول میں نظر آتا ہے جبکہ اس کا دوسرا رخ، تمام دیگر انسانی امور کی طرح نرم، لطیف اور ظریف ہے۔
"سرباز روز نھم" (نویں دن کا سپاہی) اسلامی انقلاب کے انسان کی داستان ہے
سادہ اور پیچیدہ، ایک کثیر جہتی ایکویشن
"اب کئي سال بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ جس قدر میں اس شہید کے بارے میں غور اور تحقیق کرتا ہوں، اتنا ہی اس سے دور ہوتا جاتا ہوں۔ میں اور مصطفی صدر زادہ ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ کسی زمانے میں، میں کشتی سیکھا کرتا تھا۔ شہریار میں، میں اسی جم میں جایا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں مصطفی بھی کشتی سیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس وقت میری زندگي کی ایک حسرت یہ ہے کہ میں، مصطفی کی ظاہری زندگی کے وقت ان سے کیوں نہیں ملا! میں بھی ثقافتی کام کرتا ہوں۔ اسی مسجد امیر المومنین میں گيا تھا، میں نے مصطفی کو کیوں نہیں دیکھا تھا!" ہم محمد مہدی رحیمی سے انٹرویو کر رہے تھے جو ایک مصنف اور محقق ہیں اور جنھوں نے مصطفی صدر زادہ پر کتاب لکھنے کا منصوبہ، سنہ 2015 میں ان کی شہادت کے کچھ ہی دن بعد بنا لیا تھا اور بقول ان کے آج تک وہ اس کام میں مصروف ہیں۔
فلسطین اور حالیہ مہینوں میں وہاں رونما ہونے والے واقعات پوری دنیا میں میڈیا اور عوام کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ ایک طرف غزہ کی لڑائی اور ویسٹ بینک کے حادثات زمینی سطح پر رونما ہوئے تو دوسری طرف صیہونی حکومت کے اندر اعتراضات اور افراتفری کی لہر دکھنے میں آئی۔ یہ سب چیزیں اور نشانیاں فلسطین کے منظر نامہ پر حالات میں بہت اہم تبدیلی کی عکاس ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ مہینے پہلے، فلسطین کے سیاسی منظرنامہ پر رونما ہونے والے واقعوں کے تجزيے میں ان حالات کے تعلق سے بہت اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس بارے میں انکی تجزیاتی نگاہ و روش کے تحت پچھلے کچھ مہینوں کے حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فوجی اداروں میں ٹریننگ پانے اور اعلی عہدوں تک پہنچنے والے بیشتر افراد کے پاس، جو اس ماحول میں پہنچنے سے پہلے جو بھی نظریہ اور مزاج رکھتے تھے، فوجی ادارے اور ماحول میں خود کو ڈھالنے کے لیے اپنے پرانے رویے اور نظریے کو تبدیل کرنے کے علاوہ کوئي اور چارہ نہیں ہوتا۔ اس ماحول کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئي حکم ملا ہے اور وہ انسان کی سوچ اور اس کے ذاتی نظریات کے برخلاف بھی ہے، تب بھی اس کی تعمیل کی جائے۔ فطری بات ہے کہ اس طرح کے ماحول میں ڈھلنا اور اسے برداشت کرنا، سخت اور تھکا دینے والا ہے۔ اس ماحول کا سب سے اہم نتیجہ، لوگوں کی سوچ، نظریات اور رویے کو یکساں بنانا ہے۔ مختلف آپریشنز اور جنگ کے مختلف میدانوں میں کام کر چکے ایک تجربہ کار کمانڈر کی حیثیت سے شہید قاسم سلیمانی بڑے حیرت انگیز طریقے سے ایک اعلی رتبہ فوجی کمانڈر کی ذمہ داریوں، جن میں سے بعض بہت ہی خشک اور پوری طرح ڈسپلن والی تھیں اور اخلاقیات پر کاربند ایک انسان، ہمدرد باپ اور مہربان دوست کی ذمہ داریوں کو بڑے سلیقے اور ہنرمندی سے ایک ساتھ جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس مضمون میں شہید الحاج قاسم سلیمانی کی بعض اہم خصوصیات کا سرسری جائزہ لیا گيا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ طلبہ سے ملاقات میں امریکہ کے زوال کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "دنیا کے بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ زوال کی سمت بڑھ رہا ہے، وہ قطرہ قطرہ پگھل رہا ہے۔ یہ بات ہم نہيں کہہ رہے ہيں۔ حالانکہ ہمارا بھی یہی خیال ہے، لیکن پوری دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار یہی کہہ رہے ہیں ۔" KHAMENEI.IR ویب سائٹ نے امریکہ اور بین الاقوامی امور کے ماہر جناب حمید رضا غلام زادہ کا ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں امریکہ کے عروج و زوال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مقالے کے چند اقتباسات کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:
متقی و پرہیزگار عالم دین
آيۃ اللہ الحاج سید جواد خامنہ ای صوبہ آذربائيجان کے ایک زاہد اور سادہ منش عالم دین تھے۔ نجف اشرف میں برسوں تعلیم و تدریس میں مشغول رہنے کے بعد وہ مشہد روانہ ہوئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اس مشہور زاہد عالم دین کے انتقال کے وقت مشہد میں کافی تعداد میں عقیدت مند موجود تھے لیکن اکانوے سال کی عمر اور پچاس سال تک دینی تبلیغ، مذہبی سرگرمیوں اور پیش امامی کے بعد ان کا کل اثاثہ مشہد میں غریبوں کے ایک محلے میں ایک معمولی سا مکان اور 45 ہزار تومان تھا۔
سید جواد خامنہ ای، سنہ 1896 کے موسم خزاں میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ کافی چھوٹے تھے کہ ان کے گھر والے تبریز لوٹ آئے۔ بچے ہی تھے کہ ان کے والد آيۃ اللہ سید حسین خامنہ ای کا انتقال ہو گيا۔ انھوں نے ابتدائي دینی تعلیم تبریز میں حاصل کی۔ سنہ 1919 کے آس پاس وہ مشہد روانہ ہوئے اور اس سفر نے ان کی زندگي کی راہ بدل دی۔ ان کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے قریبیوں سے کہا تھا کہ اگر زندگي یہ ہے جو مشہد میں گزر رہی ہے تو ہم نے اس سے پہلے کی اپنی زندگي فضول میں گزار دی ہے۔ امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر سے قرب مکانی نے ان کی زندگي کو ایک نئی وادی میں داخل کر دیا۔
ان ہی دنوں میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گيا اور اس طرح بچپن میں باپ کے سائے سے محرومی کے بعد سید جواد کو نوجوانی میں ایک اور بڑا غم اٹھانا پڑا۔ والدہ کے انتقال کے بعد مشہد میں مستقل رہائش کے بارے میں سید جواد کا فیصلہ مزید مستحکم ہو گيا اور وہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم کے جوار میں رہنے لگے۔ مشہد میں تقریبا آٹھ سال تک رہنے کے بعد وہ اپنے تعلیمی مراحل مکمل کرنے کے لیے ایک بار پھر نجف اشرف اور اس شہر کے اعلی دینی تعلیمی مرکز میں پہنچ گئے۔ محمد حسین نائینی، آقا ضیاء عراقی اور سید ابو الحسن اصفہانی جیسے مجتہدین، ان استاتذہ میں سے تھے، جن کے درس میں سید جواد نے اپنی نجف رہائش کے دوران شرکت کی۔ آيۃ اللہ نائينی کو شیعہ علمائے دین میں ممتاز مقام حاصل تھا اور انھوں نے بہت زیادہ شاگردوں کی تربیت کی۔
الحاج سید جواد نے کئي سال آيۃ اللہ نائینی کے درس میں شرکت کے بعد روایت اور اجتہاد کی اجازت حاصل کی اور پانچ سال بعد دوبارہ ایران لوٹ آئے اور مشہد روانہ ہو گئے لیکن اسی وقت ان کی زوجہ کا انتقال ہو گيا اور اپنی عمر کے چوتھے عشرے میں انھیں اپنی زندگي کے تیسرے بڑے غم کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے والدین کا انتقال ان کی زندگي کے پہلے دو بڑے غم تھے۔ اس کے بعد انھوں نے مشہد کے مشہور عالم دین آيۃ اللہ الحاج سید ہاشم نجف آبادی میردامادی کی بیٹی بانو خدیجہ میر دامادی کو اپنی زندگي کا شریک سفر بنایا۔ آيۃ اللہ سید جواد خامنہ ای اور بانو خدیجہ میر دامادی کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے دوسرے آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ہیں۔
الحاج سید جواد اگرچہ نجف سے واپسی کے بعد ایک صاحب رائے عالم دین اور مجتہد بن چکے تھے لیکن انھوں نے دینی طلبہ کو پڑھانے کے لیے درس کی کلاس شروع کرنے کی خود سے کوئي رغبت ظاہر نہیں کی۔ ان کے بیٹے سید محمد حسن خامنہ ای نے برسوں بعد اپنے والد کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اپنی زندگي میں کبھی بھی خودنمائي کے چکر میں نہیں پڑے۔ ان کا یہ جذبہ ان کی عمر کے آخری حصے تک قائم رہا، جب ان کے بیٹے رکن پارلیمنٹ تھے اور ان کا ایک بیٹا صدر مملکت تھا تب بھی انھوں نے خودنمائی نہیں کی۔ جس وقت ان کے بیٹے الحاج سید علی خامنہ ای، ملک کے صدر تھے، اس وقت بھی وہ اسی معمولی گھر میں رہتے تھے جو انھوں نے پچاس سال قبل لیا تھا، اسی طرز تعمیر اور اسی شکل و صورت میں۔ امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں جانے اور وہاں سے واپس آنے کے لیے الحاج رضا اپنی پرانی 'پیکان پک اپ' لے کر آيا کرتے اور وہ دونوں ساتھ میں زیارت کے لیے جاتے تھے۔
الحاج سید جواد کی کچھ خاص صفات تھیں۔ اگرچہ بظاہر ان کی کچھ خاص سیاسی سرگرمیاں نہیں تھیں لیکن ان کے اقدامات سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ انقلابیوں اور پہلوی حکومت کے درمیان حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار نہیں تھے۔ انھوں نے ہمشیہ طاغوتی حکومت سے فاصلہ بنائے رکھا۔ اس سلسلے میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کچھ دلچسپ باتیں بیان کرتے ہیں: "اکثر شیعہ امامیہ علمائے دین کی طرح وہ بھی حکومت کو بغض اور نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، خاص طور پر اس لیے انھوں نے پہلوی دور حکومت کو بھی دیکھا اور وہ وقت بھی گزارا تھا اور اس کی سختیاں بھی برداشت کی تھیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی پچھلی حکومتوں سے کوئی تعاون نہیں کیا اور انھوں نے کبھی بھی کسی بھی سرکاری نشست اور دعوت میں شرکت نہیں کی، یہاں تک کہ امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر کے میوزیم کے پروگرام میں بھی، میوزیم کا خصوصی لاؤنج وہ جگہ تھی جہاں عید کے موقع پر مشہد کے علمائے دین کو مدعو کیا جاتا تھا اور بہت سے علماء اور سینیئر افراد وہاں جاتے تھے ... بس دو تین علماء تھے جنھوں نے کبھی بھی اس پروگرام میں شرکت نہیں کی، ان میں سے ایک میرے والد تھے۔"
امام خمینی سے شناسائي
البتہ آیۃ اللہ سید جواد خامنہ ای کے مواقف، صرف ان ہی باتوں تک محدود نہیں تھے۔ کافی پہلے سے ان کے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے قریبی تعلقات تھے۔ رضا خان کے دور حکومت کے اوائل میں امام خمینی کے مشہد کے ایک سفر میں دونوں کی جان پہچان ہوئي تھی۔ ان کے ایک دوست نے انھیں آقا سید روح اللہ سے ملوایا تھا اور پھر انھوں نے انھیں اپنے گھر مدعو کیا۔ دونوں کی شناسائي کے برسوں بعد جب بھی آقا روح اللہ نوجوان سید علی خامنہ ای کو دیکھتے تو ان سے ان کے والد سید جواد کا حال چال ضرور پوچھتے۔ الحاج سید جواد بھی جو بعد میں قم آیا جایا کرتے تھے، امام خمینی سے ضرور ملاقات کرتے تھے۔ سنہ انیس سو چونسٹھ میں جب پہلوی حکومت نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ملک بدر کر دیا اور وہ ترکی چلے گئے تو سید جواد، مشہد کے ان علماء میں سے ایک تھے جنھوں نے اس ملک بدری پر احتجاج کرتے ہوئے اس شہر کی مسجد صدیقی میں نماز جماعت پڑھانا بند کر دیا۔ آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مشہد میں انقلابی جدوجہد کے اوج کے برسوں کے بارے میں اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میرے والد ان اجتماعات میں شرکت کرتے تھے جن میں علمائے دین حصہ لیتے تھے۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے، جو مشہد میں ان اجتماعات کا منتظم تھا، کہتے تھے کہ تم میری جگہ وہاں ووٹ دینا اور کہنا کہ میں ہوں اور متفق ہوں۔"
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اپنے دور صدارت میں اپنے والدین کے زاہدانہ جذبے کے بارے میں کہتے ہیں: "میں صدر تھا اور اس ملک کے وسائل، اس حد تک کہ جتنے صدر کے اختیار میں ہوتے ہیں، میرے اختیار میں تھے، لیکن ان دونوں بزرگوں کو ذرہ برابر بھی توقع نہیں تھی کہ اس گھر کو بہت اچھا بنا دیں یا اس کی شکل و صورت ٹھیک کر دیں۔ میرے والد نے سنہ انیس سو چھیاسی تک اور میری والدہ نے میرے عہدۂ صدارت کے آخر تک اسی گھر میں زندگی گزاری لیکن اس گھر کو بہتر بنانے کے لیے معمولی سے تبدیلی بھی نہیں آئي۔"
آيۃ اللہ سید جواد خامنہ نے ایمان، زہد اور تقوی کے ساتھ اکانوے سال کی پاکیزہ زندگي گزارنے کے بعد پانچ جولائي سنہ انیس سو چھیاسی کو دار فانی کو الوداع کہا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک پیغام میں انھیں ایک ایسی شخصیت قرار دیا جس نے پوری ذمہ داری، تقوی اور علم کے ساتھ گزار دی۔ الحاج سید جواد کا جنازہ 6 جولائي سنہ 1986 کو مشہد کے عوام کی کثیر تعداد کی شرکت سے بڑی شان سے اٹھا اور مشہد کے امام جمعہ آيۃ اللہ شیرازی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائي۔ پھر انھیں فرزند رسول امام علی رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر میں دارالفیض کے قریب سپرد خاک کر دیا گيا۔
احمد متوسلیان، ایران پر صدام حکومت کی جانب سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں محمد رسول اللہ ستائيسویں ڈویژن کے کمانڈر تھے جو 5 جولائي سنہ 1982 کو لبنان میں طرابلس سے بیرت کے راستے میں صیہونی حکومت کی سازش کے نتیجے میں لبنان کی فلانجسٹ پارٹی کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا کر لئے گئے تھے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد احمد متوسلیان نے 'محلہ کمیٹی' کی تشکیل کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ سپاہ پاسداران (آئي آر جی سی) کی تشکیل کے بعد وہ اس فورس میں شامل ہو گئے اور انقلاب مخالف اور علیحدگي پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ سنہ 1981 میں حج سے واپسی کے بعد آئي آر جی سی کی جنرل کمان کی جانب سے انھیں مریوان اور پاوہ کے افراد کو بھرتی کر کے محمد رسول اللہ بريگيڈ بنانے اور اس کی کمان سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئي۔ یہ بریگیڈ بعد میں ڈویژن میں تبدیل ہو گئي۔
لبنان کا سفر
احمد متوسلیان سنہ1982 کے اوائل میں ایک مشن کے تحت ایک اعلی سفارتی وفد کے ہمراہ، جس میں سیاسی و عسکری عہدیداران شامل تھے، شام روانہ ہوئے تاکہ لبنان کے مظلوم اور نہتے عوام کی مدد کی راہوں کا جائزہ لے سکیں۔
اغوا
پانچ 4 سنہ 1982 کو احمد متوسلیان اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ، ایران کے سفارتخانے میں اپنے دفتر کی طرف جا رہے تھے کہ طرابلس سے بیروت کے راستے میں لبنان کی فلانجسٹ پارٹی کے مسلح افراد نے انھیں پکڑ لیا۔ اس کے بعد سے اب تک ان کے انجام کے بارے میں کوئي مصدقہ خبر نہیں مل سکی ہے۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای: "ہم جناب الحاج احمد متوسلیان کے آنے کے منتظر ہیں، ان شاء اللہ وہ آئيں گے، انھیں شہید نہ کہیے، ہمیں ان کی شہادت کی خبر تو ملی نہیں ہے۔ ان شاء اللہ، خداوند عالم - آپ کے بیٹے کو - وہ جہاں کہیں بھی ہے، جس طرح بھی ہے، اپنے لطف و کرم سے نوازے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ، خداوند عالم اس مومن اور صالح جوان کو واپس لوٹائے۔
سپاہ پاسداران کے شہیدوں کے بعض اہل خانہ سے ملاقات میں تقریر، (15/12/1996)
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے رواں ہجری شمسی سال کے پہلے دن (اکیس مارچ 2022) کو اپنی تقریر کے ایک حصے میں یوکرین کی جنگ میں نسل پرستی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "یوکرین کے معاملے میں، مغرب کی نسل پرستی کو سبھی نے دیکھا۔ ان پناہ گزینوں کی ٹرین کو جو جنگ زدہ ملک اور جنگي مشکلات سے بچ کر بھاگ رہے ہیں، روک دیتے ہیں تاکہ سیاہ فام کو، سفید فام سے الگ کر دیں اور سیاہ فام کو ٹرین سے اتار دیں۔ اپنے ذرائع ابلاغ میں کھلے عام اس بات پر افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ اس دفعہ جنگ مشرق وسطی میں نہیں ہے، یورپ میں ہے۔ یعنی اگر جنگ، خونریزی اور برادر کشی مشرق وسطی میں ہو اور یہاں ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر یورپ میں ہو تو غلط ہے۔ اتنی واضح اور آشکارا نسل پرستی! کھل کر اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں، آشکارا اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایران کے سابق سفارتکار محسن پاک آئين نے KHAMENEI.IR کے لیے لکھے گئے ایک مقالے میں، یوکرین کے حالیہ واقعات میں یورپ والوں کی کھلی نسل پرستی کا جائزہ لیا ہے۔
ایرانی قوم کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے میں امریکا کی شکست، نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کی مناسبت سے قوم کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کے اہم موضوعات میں سے ایک تھا۔ انھوں نے فرمایا: "سنہ 1400 ہجری شمسی کے سب سے اہم شیریں واقعات میں سے ایک یہ تھا کہ امریکیوں نے اس بات کا اعتراف کیا، اپنی زبان سے یہ مانا کہ ایران کے خلاف شدید ترین دباؤ میں، ذلت آمیز شکست ہوئي ہے۔ "ذلت آمیز" لفظ خود امریکیوں نے استعمال کیا ہے۔ یہ بڑا اہم واقعہ ہے۔ ایرانی قوم کو فتح حاصل ہوئي۔" انھوں اسی طرح دور اور قریب کے علاقوں میں امریکیوں کی دیگر شکستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان باتوں سے ایرانی قوم کے صحیح راستے کا پتہ چلتا ہے۔ عالمی تعلقات میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے جناب مہدی خان علی زادہ نے KHAMENEI.IR کے لیے لکھے گئے ایک مقالے میں ایران کے مقابلے میں امریکا کی شرمناک شکست کے اسباب کا جائزہ لیا ہے۔
"میں کاریڈور تک مسعود کے ساتھ جایا کرتی تھی۔ وہ اپنی کار، صحن سے باہر لے گئے۔ پھر واپس آئے کہ مجھ سے لنچ باکس لے لیں۔ گاڑی اور صحن کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ انھوں نے لنچ باکس لیا اور چلے گئے، دروازے پر پہنچ کر انھوں نے میری طرف دیکھا اور خدا حافظ کہا۔
یہ سن 2011 کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب مغربی ایشیا میں بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ایک ملک، شام کے کچھ شہروں میں جنگ کے شعلے آہستہ آہستہ بھڑکنے لگے۔
محترم قارئین! ویب سائٹ کے اس حصے میں ہم رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ان کتب کا تعارف کرائیں گے اور کتب کی سافٹ کافی مہیا کرائیں گے جن کے اردو یا انگریزی زبانوں میں ترجمے موجود ہیں۔ یہاں وہ کتابیں بھی آپ کو مہیا کرائی جائیں گی جو دیگر اہل قلم نے رہبر انقلاب اسلامی کی تقاریر کے اقتباسات جمع کرکے تیار کی ہیں۔