یونیورسٹیوں میں ولی فقیہ کے نمائندہ دفاتر کے سربراہوں سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیمی مراکز میں اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کی ترویج کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں ان نمائندہ دفاتر کے کردار کی افادیت بیان کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 29 اگست 1996 کو سرکاری عہدیداروں اور ملازمین کے اجتماع سے خطاب میں فرائض منصبی اور عوامی خدمات پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 اگست 1996 کو صدر رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے انجام پانے والے کاموں سے عوام کو مطلع کئے جانے پر زور دیا اور ساتھ ہی حکومت کو اہم سفارشات کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستائیسویں محمد رسول اللہ ڈویژن کے کمانڈروں سے خطاب میں انتہائی کلیدی نکات کا جائزہ لیتے ہوئے خواص کہے جانے والے طبقے کے مختلف ادوار کے فرائض اور ان کے موقف کی فیصلہ کن حیثیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے مہمانوں اور مختلف عوامی طبقات سے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ اس موقع پر امام خمینی کے روضے پر کثیر تعداد میں عقیدتمند جمع ہوئے اور قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 'ولایت' سے موسوم عظیم پیمانے کی فوجی مشقوں میں شرکت کرنے والے فوجیوں سے خطاب میں دفاعی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یوم مسلح افواج کے موقع پر فوج کے کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ہمہ جہتی ترقی کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 23 فروردین 1375 ہجری شمسی مطابق 11 اپریل 1996 عیسوی کو قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے عہدیداروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں قومی نشریاتی ادارے کی خدمات کی قدردانی کی اور اس ادارے کی کلیدی حیثیت کو بیان کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1375 کے آغاز پر 4 فروردین 1375 ہجری شمسی مطابق 23 مارچ 1996 عیسوی کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 بہمن سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 3 فروری سنہ 1995 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی امامت کی۔ آپ نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ماہ مبارک رمضان کی فضیلتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے اس مہینے کو اللہ کا مہینہ کہے جانے کی وجہ کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی انقلاب کے تعلق سے اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں آج اس انقلاب کے بعض پہلووں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ان نکات میں سے جن پر کم بحث ہوئی ہے ایک یہ ہے کہ ہمارا عظیم انقلاب، کامیابی کی کیفیت کے لحاظ سے استثنائی اور منفرد ہے۔ یعنی واقعی ایسے عظیم پہلوؤں کے حامل عوامی انقلاب کی کہ جس میں، سڑکوں پر عوام کی موجودگی، شہروں اور دیہی بستیوں میں شاہی حکومت کے خلاف تمام عوام کی مشارکت سے ایسی مجاہدت ہوئی ہو، کم سے کم اس زمانے تک ہمارے دور کے انقلابوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس زمانے میں دنیا کے گوشہ و کنار میں جو انقلابات آئے تھے، منجملہ لاطینی امریکا، افریقا، ایشیا اور دوسری جگہوں پر آنے والے کمیونسٹ انقلابات کے ان کی شکل اور نوعیت دوسری تھی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق تیس اگست سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ہفتۂ حکومت کی مناسبت سے صدر مملکت اور وزیروں سے ملاقات میں اہم ملکی، علاقائی اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ آپ نے قومی اقتدار اعلی کے تعلق سے اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی اقتدار کے، جو درحقیقت حکومت کی طاقت و توانائی ہے، دو ستون ہیں؛ ایک خدا سے رابطہ، یعنی یہ کہ کام خدا کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی بھی ذاتی مسائل کو مد نظر رکھ کے اور مادی پہلوؤں سے کام نہ کرے۔ دوسرا رکن؛ عوام پر توجہ ہے۔ من کان للہ کان اللہ لہ اور من اصلح ما بینہ و بین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس اگر انسان نے خدا سے اپنے رابطے کو ٹھیک کر لیا تو خداوند عالم عوام سے اس کے رابطے کو اچھا بنا دے گا۔ یہ تمام روابط، سوشیالوجی اور سائیکالوجی کے علمی میکینزم پر استوار ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چوبیس مرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پندرہ اگست سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ملاقات کے آنے والے ملک کے حکام، نظام کے ذمہ داروں اور بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے منتظمین سے سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ آج اسلامی دنیا میں پیسہ بہت ہے، فکر بھی کافی ہے، لائق افرادی قوت بھی ہے۔ علماء، شعراء، مصنفین، فنکار اور قابل سیاسی شخصیات، اسلامی دنیا میں موجود ہیں اور کانیں، نیز زیر زمین، خداداد مالی ذخائر کا بڑا حصہ بھی اسلامی ملکوں کے اختیار میں ہے۔ اگر یہ سب مل کے اپنے اندر یک جہتی پیدا کرلیں، یا کم سے کم ایک دوسرے کے خلاف کام نہ کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کیا ہوگا۔ دشمن ایسا کام کر رہا ہے کہ اسلامی دنیا کے یہ مالی اور افرادی قوت کے ذخائر ایک دوسرے کے مقابلے پر آجائیں۔ عراقی حکومت کو ورغلایا، اس علاقے میں آٹھ سالہ تباہ کن جنگ شروع کی اور کوشش کی کہ اس نئے پودے کو (اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کو) جڑ سے ختم کردیں، لیکن نہیں کر سکے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سات تیر تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق اٹھائیس جولائی سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ملاقات کے لیے آنے والے، عدلیہ کے عہدیداروں اور جج صاحبان سے خطاب میں عدلیہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہر گناہ حق کی خلاف ورزی ہے۔ نظام الہی و اسلامی قوانین، قوانین الہی ہیں اور ہر قانون کی ہر خلاف ورزی، حق کی خلاف ورزی ہے۔ ان حالات میں عدلیہ حق کی انواع و اقسام کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ عدلیہ کی اہمیت ہے۔ آپ باطل کو عوام کے نظام زندگی پر مسلط ہونے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ادارے میں، جس میں آپ ہیں، درحقیقت سبھی حق پر کمربستہ ہیں۔ یعنی سبھی اس چیز کے نفاذ کو یقینی بنانے میں کوشاں ہیں، جو آفرینش حق تعالی اور عالم ہستی کے قرار حقیقی کے مطابق ہے۔ یونہی نہیں ہے کہ ہماری مقدس شرع اور فقہ میں انصاف کے امور اور عدالتی امور کے ذمہ داروں کے سلسلے میں اتنی زیادہ باریک بینی اور دقت نظر پر زور دیا گیا ہے جبکہ دیگر حکومتی کاموں کے تعلق سے اتنی زیادہ توجہ اور تاکید سے کام نہیں لیا گيا ہے کہ یہ خصوصیت ہو اور یہ نہ ہو۔ یہ موضوع کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اکیس تیر سنہ تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق بارہ جولائی سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ہفتۂ پولیس کی مناسبت سے ملاقات کے لیے آنے والے پولیس فورس کے افسروں اور کمانڈروں سے خطاب میں اس محکمے کی اہم ترین ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے اس محکمے میں تین خصوصیات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اسلامی جمہوریہ ایران کی انتظامی فورس (پولیس) سے جو توقع ہے وہ تین خصوصیات اور تین نکات میں بیان کی جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملاقات کے لیے آنے والے وزیر اسلامی ثقافت و تعلیمات، اس وزرات کے اعلی عہدیداروں اور ملک کی ثقافتی کونسلوں کے اراکین سے خطاب میں ثقافتی امور کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ میری نظر میں عام کلچر اور ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل پر مشتمل ہے جو نمایاں، ظاہر اور آنکھوں کے سامنے ہیں اور درحقیقت قوم کے مستقبل میں دخیل ہیں لیکن ان کا اثر دیر میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی یہ امور اور مسائل قوم کے مستقبل کی راہ و روش میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور لباس کا انداز، کیا پہنا جائے، کیسے پہنا جائے، لباس کے کس ماڈل کو اپنایا جائے، یہ سب معاشرے کے عام کلچر اور ثقافت کے ظاہری حصے اور مصداق ہیں۔ عام کلچر کا دوسرا حصہ بھی پہلے حصے کی طرح قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فوری اور بہت واضح ہوتے ہیں۔ یعنی عام کلچر کے اس حصے سے مربوط امور زیادہ نمایاں نہیں ہوتے لیکن معاشرے میں اس کے مستقبل اور راہ و روش کے تعین میں ان کے اثرات بہت واضح ہوتے ہیں۔ انہیں امور میں بلکہ ان کا بڑا حصہ عادات و اطوار سے متعلق ہے۔ فرض کیجیے کہ کسی معاشرے کے افراد، وقت کو اہمیت نہ دیتے ہوں، جب آپ اس معاشرے میں پہنچیں گے تو وقت کو اہمیت نہ دینے کی افراد معاشرہ کی اس عادت کے منفی اثرات آپ اپنے اوپر بھی اور دیگر لوگوں پر بھی دیکھ لیں گے جبکہ خود یہ چیز یعنی وقت کو اہمیت نہ دینا، زیادہ واضح نہیں ہوتی۔
قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پندرہ جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو پاسداران انقلاب اسلامی فورس کی عظیم عاشورا فوجی مشقوں کے موقع پر اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فورسز کی منفرد خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ آج خدا کے فضل سے ہماری مسلح افواج، فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب، پورے ملک میں ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں، سڑکیں بنارہے ہیں، ہائی وے بنا رہے ہیں، ڈیم تعمیر کر رہے ہیں، ترقیاتی کام کررہے ہیں، زراعت اور بہت سے کام کر رہے ہیں۔ یعنی اس قوم کے جوان چاہے وہ فوجی وردی میں ہوں، (یا دوسرے لباس میں ہوں) ملک کے لیے مفید بننا چاہتے ہیں اور ہو سکتے ہیں لیکن میری گزارش یہ ہے کہ اس مملکت کے بہترین جوان اور فداکاروں کے سردار وہ ہیں جو ہرحال میں اس بات پر توجہ رکھیں کہ حاکمیت اسلام کی یہ امانت جو ان کے پاس ہے، تمام پیغمبروں، اماموں اور اولیاء کی امانت ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کی آرزو تھی جو حاکمیت الہی سے انسانوں کی محرومی کے دور میں موت سے ہمکنار ہوئے، جنہوں نے عقوبت خانوں میں تکلیفیں برداشت کیں اور یہ آرزو کی کہ خداوند عالم انہیں نجات دلائے اور کامیابی عطا کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق نو جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی برابر دس محرم چودہ سو سولہ ہجری قمری کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی امامت کی۔ آپ نے عاشور کی مناسبت سے نماز جمعہ کے خطبوں میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور واقعہ کربلا کے تعلق سے اہم ترین نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چودہ خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق چار جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر عظیم الشان عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت اور آپ کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے اسلامی انقلاب کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عظیم اسلامی انقلاب، جس کی امام عظیم نے ہدایت کی، اس کو ثمر بخش بنایا اور اس کا اہم ترین نتیجہ اسلامی جمہوریہ کی شکل میں سامنے آیا، دو پہلو رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی چوتھی پارلیمنٹ کے ارکان نے آٹھ خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق انتیس مئی انیس سو پچانوے عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سے ملاقات کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظام میں ان کی اہمیت اور نظام و عوام کے تعلق سے ان کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے چوتھی پارلیمنٹ کے ارکان کی بعض منفرد خصوصیات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تین خرداد سن تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی سن انیس سو پچانوے عیسوی کو علماء و واعظین کے اجتماع سے خطاب کیا۔ ہر سال ماہ محرم سے قبل منعقد ہونے والے اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے حسینی تحریک اور واقعہ عاشورا کے عالم انسانیت پر اثرات و نتائج کا ذکر کیا۔ آپ نے علماء و مبلغین کو واقعہ عاشورا اور تحریک امام حسین علیہ السلام کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی کیفیت اور انداز کے بارے میں چند اہم ہدایات دیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی عہدہ داروں نے عید غدیر خم کے موقعے پر اٹھائیس اردیبہشت سن تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق اٹھارہ مئی انیس سو پچانوے عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ہر سال ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے پہلے تو عید غدیر خم کے روحانی و فکری پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور پھر سامراجی طاقتوں کی جانب سے جاری سازشوں کا ذکر کیا۔ آپ نے شیعہ عقائد کو دنیا میں برعکس اور تحریف شدہ شکل میں پیش کئے جانے کی سازش کا بھی ذکر کیا۔
یوم اساتذہ اور یوم محنت کشاں کی مناسبت سے محنت کشوں، مثالی اساتذہ اور ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے کارکنوں نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں معاشرے میں اساتذہ اور محنت کش طبقے کی اہمیت اور ان کے انتہائی اہم تعاون و شراکت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ملک کے صنعتی شعبے میں محنت کش طبقے کے تعاون کو ملک کو اسلامی انقلاب سے قبل کے دور کے اغیار پر انحصار سے نکال کر خود انحصاری کے مرحلے تک پہنچانے میں کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔
صدارت کے زمانے میں میرے والدین اپنے اسی قدیمی گھر میں رہتے تھے، نہ انہوں نے کبھی سوچا اور نہ میرے ذہن میں آیا کہ اب جب عہدہ صدارت میں نے سنبھال لیا ہے تو اپنے گھر کی شکل بدل دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسائے نے ہمارے آنگن سے لگا ہوا اپنا گھر ایک اونچی عمارت میں تبدیل کرنا شروع کر دیا اور والدہ کے لئے بغیر پردے کے آنگن میں جانا نا ممکن ہو گیا تو بعض احباب نے کہا کہ اس ہمسائے سے کہیں کہ گھر کی اونچائي ذرا کم رکھے تاکہ آنگن کا استعمال کیا جا سکے۔ ہم نے اس ہمسائے کو پیغام دلوایا لیکن اس نے کوئي توجہ نہیں دی۔ چونکہ میرے پاس اس ہمسائے کے گھر کی اونچائی کم کرنے کے لئے کوئي قانونی راستا نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئي دباؤ نہیں ڈالا۔ کسی ملک اور نظام میں یہ صورت حال بہت خوش آئند اور پسندیدہ ہے۔ کوئي بڑا عہدہ مل جائے تو انسان کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی سماجی زندگی میں دوسروں سے زیادہ عیش و آرام کی فکر میں پڑ جائے۔
1995 میں مشہد مقدس میں آبائي گھر کے معائنے کے موقع پر
نوروز کے معنی ہیں نیا دن، ہماری روایات بالخصوص معلی بن خنیس کی معروف روایت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ معلی بن خنیس بڑے گرانقدر راوی تھے اور ہمارے نزدیگ وہ ثقہ ( قابل اعتماد راوی ) ہیں۔ آپ ایک برجستہ شخصیت اور خاندان اہل بیت نبوت کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی زندگی فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بسر کی اور پھر جام شہادت نوش فرمایا۔ یہی عظیم شخصیت یعنی معلی ابن خنیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ نوروز کا دن تھا۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نوروز سے آگاہ ہو؟ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائي ہے کہ اس دن حضرت آدم زمین پر اترے۔ حضرت نوح کا واقعہ پیش آیا، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو ولایت کے لئے منتخب کیا گيا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس روایت سے میں کسی اور نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نے نو نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائي ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ نیا دن یا نوروز کسے کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ذریعے خلق کئے جانے والے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کون سا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو یہ خصوصیت ہو کہ اس دن کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتےہوں۔ حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم و حوا نے زمین پر قدم رکھے۔ وہ نوروز تھا۔ یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ جس دن حضرت نوح علیہ السلام نے عظیم طوفان کےبعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا۔ وہ ایک نیا دن تھا اور اس دن سے نئي تاریخ شروع ہوئی۔ جس دن پیغمبر اسلام پر قرآن مجید کا نزول ہوا وہ بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دن مولائے متقیان کو مسلمانوں کا ولی بنایا گيا وہ نیا دن تھا۔ یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں اب خواہ یہ واقعے ہجری شمسی سال کے پہلے دن اور نوروز والے دن رونما ہوئے ہوں یا کسی اور دن۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا دن نوروز اور نیا دن ہے۔ حضرت نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ سارے واقعات ہجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئي واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے۔ جس دن امام خمینی وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا۔ امریکہ، نیٹو، سویت یونین، وارسا اور نہ جانے کہاں کہاں سے کمک پانے والے فوجیوں پر ہمارے مومن اور جاں نثار جوانوں کی فتح کا ہر دن نوروز تھا۔
شہید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدہ داروں سے خطاب
13 مارچ 1995
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 اسفند سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 2 مارچ سنہ 1995 عیسوی کو تہران میں مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔ آپ نے نماز عید کے خطبوں میں عید الفطر کے عظیم دن کے رموز بیان کئے اور ماہ رمضان المبارک کی برکتوں اور بے پناہ خصوصیتوں کا تذکرہ کیا۔ آپ نے عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور مسلمانوں کے خلاف جاری سامراجی طاقتوں کی سازشوں کی نشاندہی کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمارے عظیم اسلامی انقلاب میں، استکبار کو اسلام سے زک پہنچی ہے۔ اس لئے مستکبرین، امت میں دشمنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میں اپنی عزیز قوم سے اور پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان ہیں، ان سے اور تمام مسلم اقوام سے عرض کرتا ہوں کہ آئیے خدا کی اس سفارش کو سنیں کہ قرآن آواز دیتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا امریکا چاہتا ہے مسلمان ایک دوسرے کے دشمن رہیں۔ آپ اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے تفرقہ انگیز مستکبر کی ناک رگڑ دیں اور دشمن کو خوش ہونے کا موقع نہ دیں۔ اسلامی دنیا کے دشمن چاہتے ہیں کہ اس زمانے میں ان کے اہداف مسلمانوں کے ذریعے پورے ہوں۔ آج وہ چاہتے ہیں کہ ایسا کام کریں کہ فلسطینیوں اور ملت فلسطین کے حریف، علاقے میں جعلی اسرائیلی حکومت اور امریکی زر خرید صیہونی نہیں بلکہ اسلامی حکومتیں ہوں۔ یہ نہ ہونے دیں،
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضے کے صحن امام خمینی میں عوامی اجتماع سے خطاب میں ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل پر گفتگو کی۔ آپ نے اقدار کے موضوع پر روشنی ڈالی اور علاقائي اور عالمی اقدار کے فرق کو واضح کیا۔ آپ نے ملک میں تعمیر نو کے کام کے سلسلے میں اہم ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام الناس سے ہمیشہ میدان میں موجود رہنے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 بہمن سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 17 فروری سنہ 1995 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطبوں میں دعا کی خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بات یہ ہے کہ دعا میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تینوں چیزیں، دعا کے فوائد اور نتائج ہیں۔ کوئی دعا ایسی نہیں ہے جو ان تین چیزوں میں سے دو سے عاری ہو۔ چاہے ماثورہ دعائیں ہوں جو آئمہ علیہم السلام سے منقول ہیں چاہے وہ دعائیں ہوں جو انسان خود اپنی ضرورت کے لئے خدا سے کرتا ہے۔ ان میں دو چیزیں یقینا پائی جاتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 15 دی سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 15 جنوری سنہ 1995 عیسوی اور 3 شعبان المعظم سنہ 1415 ہجری قمری کو یوم پاسدار کی مناسبت سے پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں سے خطاب میں ایران کی اس مخلص اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں تعمیری سرگرمیوں میں مصروف فورس کی قدردانی کی۔ ایران میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت تین شعبان المعظم کو یوم پاسدار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مناسبت سے اپنے خطاب میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اسلام کا عظیم پاسدار قرار دیا اور آپ کی ذات مبارک کو اسوہ حسنہ کے طور پر نگاہوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10دی سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 31 دسمبر سنہ 1994 عیسوی کو عید بعثت رسول کے موقع پر ملک کے حکام سے خطاب میں اسلامی دور اور اس سے قبل کے دور جاہلیت کے مابین فرق کو بیان کیا۔ آپ نے بعثت میں مضمر نکات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام پر خاص طور پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بنابریں آج میں جو نکتہ بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے بعثت کا پیغام ایک درس اور تعمیری پیغام ہے۔ یہ صرف ایک سماجی معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک تحریک ہے۔ سب سے زیادہ نظام کے عہدیداروں کو اس تحریک سے وابستہ ہونا چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک کو جو اس نظام میں عہدیدار ہیں، اس تحریک میں آگے ہونا چاہئے۔ البتہ تمام افراد ذمہ دارہیں مگر ہماری خصوصیت یہ ہے کہ جم غفیر کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے اور اس سے ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 آذر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 14 دسمبر سنہ 1994 عیسوی کو نویں امام حضرت محمد تقی علیہ السلام کو یوم ولادت با سعادت پر اپنے خطاب میں عالم اسلام کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔ آپ نے بوسنیا ہرزےگووینا، فلسطین، چیچنیا اور کشمیر کے حالات کا ذکر کیا اور سامراجی ممالک کی سازشوں اور سرگرمیوں کی نشاندہی فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں مرجع تقلید کے انتخاب کے مسئلے میں مغربی ممالک کی جانب سے جاری زہریلے پروپیگنڈے کا تجزیہ کیا، آپ نے فرمایا کہ میں نے امریکا میں ایک واقعے کے بارے میں ایک کتاب پڑھی ہے۔ یہ بالکل صحیح اور مستند کتاب ہے۔ یہ کتاب عجیب وغریب اور حیرت انگیز حقائق بیان کرتی ہے کہ کسی عہدے کے حصول کے لئے مختلف گروہوں کے درمیان کس طرح جنگ ہوئی ہے۔ سمجھتے ہیں یہاں بھی اسی طرح کا ماحول ہے۔ مرجعیت بھی اسی طرح ہے۔ نہیں جناب آپ غلط سمجھے ہیں۔ یہاں مرجعیت کے لئے کوئی جنگ نہیں ہے۔ کوئی لڑائی نہیں ہے۔ یہاں ایسی ہستیاں موجود ہیں جو قابلیت اور صلاحیت کے باوجود اپنا نام پیش کرنا پسند نہیں کرتیں۔ اسی طرح تیس چالیس سال گذر جاتے ہیں۔ پھر لوگ ان کی فکر کرتے ہیں، ان کے پاس جاتے ہیں، ان سے اصرار کرتے ہیں، کافی اصرار کے بعد اپنا رسالہ عملیہ چھاپتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی حامنہ ای نے 3 آذر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 24 نومبر سنہ 1994 عیسوی کو بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے شعراء اور قصیدہ خوانوں سے ملاقات میں حضرت فاطمہ زہرا کی بے مثال شخصیت اور آپ کی بے پناہ عظمت و احترام کا ذکر کیا۔ آپ نے دختر رسول کی ذات گرامی کے طرز زندگی سے واقفیت کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے قصیدہ خوانوں سے سفارش کی کہ اپنے قصائد میں مدح اہل بیت کے ساتھ ہی ساتھ سماج کے لئے تعمیری نکات ضرور پیش کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 آبان 1373 ہجری شمسی مطابق 2 نومبر سنہ 1994 عیسوی کو سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کے موقعے پر یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طلبہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کیا۔ ایران میں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کا دن سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مناسبت سے اپنے خطاب میں چار جون کی رونما ہونے والے اہم ترین واقعات پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج میں سامراج کے خلاف جدوجہد کے تعلق سے ایک بات عرض کروں گا تا کہ معلوم ہو جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟ قضیے کی بنیاد کیا ہے؟ اس مسئلے کا ماضی میں تسلسل کہاں تک ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ان دنوں، یونیورسٹی طلبا نے ایران میں امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کیا تھا۔ مگر آج کی نوجوان نسل، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا جو میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، امیدوں کو باقی رکھا ہوئے ہیں اور ہماری آنکھوں کو روشن کر رہے ہیں، وہ اس قضیے کے ماضی کے بارے میں کیا جاتنے ہیں؟ ان کی معلومات کتنی ہیں؟ خطیبوں، قلمکاروں اور ان لوگوں نے جو اس الہی سیاست کے میدان میں، اپنے دوش پر ذمہ داری اٹھانے کے قائل ہیں، ان لوگوں نے ہماری اس ترقی پذیر نسل کے لئے، جس سے ملک کو ہزاروں کام ہیں، اس مسئلے کی کتنی تشریح کی ہے؟ بنابریں ایک مسئلہ یہ ہے۔ میں آج تھوڑا سا اس بارے میں خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے عرض کروں گا، جو انیس سو اناسی میں یعنی آج سے پندرہ سال قبل بچے تھے اور ہمارے بہت سے اسکولی طلبا اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس مسئلے کے بیان کے بعد آپ کی خدمت میں جو انقلاب اور اس کے ہم جیسے خادمین کے سب سے زیادہ مضبوط اور باقی رہنے والے مخاطبین ہیں، ایک انتہائی بنیادی بات عرض کروں گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 20 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 12 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علہیا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ملک کی نرسوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ نرس کا پیشہ اہم ترین پیشوں اور خدمات میں سے ایک ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں ہر شعبے میں عورتوں کی بھرپور شراکت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہماری خواتین میدان جنگ میں بھی آئیں، تعمیرنو کے میدان میں بھی آئیں، ذہنی قوتیں دکھانے کے میدان میں بھی آئیں اور سب سے زیادہ فعال رہیں۔ جن ہستیوں نے دشمن کے گوناگوں پروپیگنڈوں کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت اور اسقتامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے ملک کی خواتیں ہیں۔ ہمارے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں، مختلف تنقیدوں کی شکل میں، رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، چھوٹے سے مسئلے کو دس گنا بڑھاکر اس ریڈیو سے اور اس ریڈیو سے بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ خود ہمارے بعض بکے ہوئے قلم جنہیں انقلاب سے خدا واسطے کا بیر ہے، اس جریدے میں اور اس میگزین میں ان باتوں کو لکھتے ہیں۔ بعض پمفلٹ چھاپتے ہیں اور بعض آشکارا جریدوں میں لکھ کے پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو پیسہ دیتے ہیں کہ کسی چیز اور بس کی لائن میں کھڑے ہوکر برا بھلا کہیں۔ یہ پیسہ افواہ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہماری خواتین نے زیادہ استقامت دکھائی ہے۔ الحمد للہ ان مومن خواتین کی تعداد، دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہو جائیں، بہت زیادہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 13 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 5 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو کیڈٹ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کیڈٹ یونیورسٹیوں کی اہمت اور گراں قدر کارکردگی پر روشنی ڈالی اور کیڈٹس کے اسلامی و قومی فرائض کی تشریح کی۔ آپ نے دفاعی شعبے میں خودانحصاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم فوج، سپاہ پاسداران انقلاب، مسلح افواج اور پولیس پر توجہ دیتے ہیں، ان کے امور کو دیکھتے ہیں، وہ اسلامی جمہوری نظام کے باشرف ترین اراکین ہیں۔ مگر ہماری کوشش یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، اس عظیم فوج کا سرحد کے اس پار کی دنیا سے انحصار کم سے کم کریں۔ لہذا ہماری بیرونی خریداری خلیج فارس کے ساحلی ملکوں سے بہت کم ہے جو ایران کے ایک ضلع کے برابر بھی سربلند اور بڑے نہیں ہیں۔ ان کے ہاں امپورٹڈ ساز و سامان ہم سے بہت زیادہ ہے اور وہ بھی بیکار کی چیزیں خریدتے ہیں۔ کیا جنگی وسائل، ہوائی جہاز اور ٹینک کسی ملک کو بچا سکتے ہیں؟ عزم و ارادے اور انسان ہیں جو اپنے وطن، اپنی اقدار اور قوم کا دفاع کرنے پر قادر ہیں۔ وہ اپنی غلط سیاست اور حکومتوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے اس عظیم عنصر سے محروم ہیں۔ مسلسل پیسے خرچ کرتے ہیں اسلحے بنانے والے کارخانوں کو دیوالیہ ہونے سے نجات دلاتے ہیں مگر اپنی قوم اور علاقے کے نقصان میں۔ اس کے باوجود ان کی اور ان کے فریبی آقاؤں کی فریاد بلند ہو رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عسکریت پھیلا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس شہریور تیرہ سو تہتر ہجری شمسی مطابق بیس ستمبر انیس سو چورانوے کو پاسداران انقلاب کے مختلف سطح کے کمانڈروں سے ملاقات میں انہیں مجاہد فی سبیل اللہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان کے پاس سنہری مواقع موجود ہیں۔ آپ نے اپنے خطاب میں پاسداران انقلاب فورس کی ماہیت اور ملک و قوم، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے لئے ان کی گراں قدر خدمات پر روشنی ڈالی۔