اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد فاتح امیدوار کو حاصل ہونے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی جاتی ہے۔ ایک آئینی تقریب میں قائد انقلاب اسلامی صدر جمہوریہ کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کرتے ہیں۔ چنانچہ صدر سید محمد خاتمی کی انتخابات میں کامیابی کے بعد بارہ مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق تین اگست سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو اس تقریب کا انعقاد ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس تقریب سے خطاب میں اہم ترین ملکی، علاقائي اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی راہ و روش کے بارے میں اہم نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نو مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق اکتیس جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو جناب علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے دوسرے دور صدارت کے اختتام پر جناب رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے اپنے خطاب میں حکومت کی کاوشوں کو سراہا۔ آپ نے اس حکومت کے افراد کی خصوصیات کو آئندہ حکومتوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔
پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں کے اجلاس سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی فرقوں کے اشتراکات اور خاص طور پر پیغمبر اسلام کی ذات اقدس کے محور پر اتحاد بین مسلمین کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس تیر سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق سولہ جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو محکمہ پولیس کے اہلکاروں اور کمانڈروں سے ملاقات میں اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام میں پولیس کو خاص کردار اور خصوصیات کا حامل قرار دیا۔ اس ملاقات میں کچھ پولیس کمانڈروں نے بھی تقریر کی اور محکمے کی کارکردگی اور پیشرفت کی تفصیلات بیان کیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ؛ سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین، الھداۃ المھدیین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صلّ علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
مسلمین عالم، بالخصوص ایران اسلامی کے مومن، مجاہد، باشرف اور عزیز عوام، آپ نمازیوں، خصوصا شہیدوں کے پسماندگان، فداکاروں، دفاع وطن میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے عزیز 'جانبازوں'، جنگی قیدی کی حیثیت سے دشمن کی جیلوں میں ایک عرصہ گزار نے کے بعد آزاد ہوکے وطن کی آغوش میں واپس آنے والے 'حریت پسندوں'، جنگ میں لاپتہ ہو جانے والے مجاہدین اور ان کے خاندان والوں کو عید الفطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
عید الفطر اور عید الاضحی کے بارے میں جو کچھ پایا جاتا ہے یعنی جو( آیات و روایات پائی جاتی ہیں)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طہارت، پاکیزگی اور تزکئے کا دن ہے۔
یہ دو سورے جو نماز عید میں پڑھے جاتے ہیں، ان میں سے ایک میں خداوند عالم فرماتا ہے کہ قد افلح من تزکّی (1) یعنی جس نے خود کو پاکیزہ بنا لیا اور اپنے دامن اور روح و دل کو آلودگیوں سے پاک کر لیا، اس نے فلاح پا لی۔ فلاح یعنی میدان زندگی میں کامیابی اور مقصد خلقت کا حصول۔
دوسری رکعت کے سورے میں فرماتا ہے کہ قد افلح من زکّیھا(2) بعینہ وہی مضمون ہے۔ یعنی جو اپنی روح کا تزکیہ کر سکا اور اس کو پاک بنا سکا، اس نے فلاح اور نجات حاصل کر لی۔ دونوں سوروں میں تزکئے، طہارت اور پاکیزگی کی بات کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس دن ایک مالی واجب بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ زکات فطرہ کی ادائیگی ہے۔ زکات وہ مالی طہارت ہے جو انسان کو پاکیزہ کرتی ہے۔ خذ من اموالھم صدقۃ تطھّرھم و تزکّیھم بھا(3) اس واجب (کی ادائیگی) اور مالی صدقے کا لوگوں سے لینا، پستی و رذالت، حرص و طمع، بخل اور دوسری برائیوں سے ان کی روح کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے۔
بنابریں میرے عزیزو! بھائیو اور بہنو! عزیز نمازیو! عیدالفطر پاکیزگی اور طہارت کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس لئے ہو کہ آپ نے ایک مہینہ روزہ رکھا ہے، ریاضت کی ہے اور خود کو آلودگیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس لئے بھی ہو کہ اس دن آپ نے میدان عبادت میں اجتماعی طور پر عبادت کی ہے۔ بہرحال، مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کو ایک مہینہ روزہ رکھنے کے بعد، عید الفطر کے دن طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی تطہیر اور تزکیہ کیا۔ اگر روزہ صحیح رکھا ہو اور نماز عید صحیح ادا کی ہو، اور یقینا ایسا ہی ہے، تو اس طہارت، اس پاکدامنی اور روح کی اس پاکیزگی کی قدر کیجئے! یہی پاکیزگی انسان کو نجات دلاتی ہے۔ جو چیز انسان کو (مصیبتوں میں) گرفتار کرتی ہے وہ آلودگی، شہوت، غضب، حرص و طمع ، بخل اور دیگر اخلاقی برائیوں سے حاصل ہونے والی آلودگی ہے۔ افراد بشر نے انھیں اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے دنیا کو تاریک کیا، روئے زمین کو آلودہ کیا اور خدا کی نعمتوں کے سلسلے میں ناشکری کی ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں، جو نظام الہی اور حکومت قرآنی ہے، لوگ دوسرے نظاموں کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح اپنے لئے طہارت اور پاکیزگی کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اس کی قدر کریں۔ آج دنیائے انسانیت کو آپ کے پیغام تطہیر و تزکیہ کی ضرورت ہے۔
یہ ظلم، زور زبردستی اور امتیازی سلوک جو عالمی سطح پر پایا جاتا ہے، بہت سے ملکوں میں انسانوں کو جس تیرہ بختی کا سامنا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں نوجوانوں کی سرگردانی، عورتوں اور مردوں کے ناجائز تعلقات، شہوانی آلودگی، سیاسی برائياں اور مالی بدعنوانیاں، یہ سب اس لئے ہے کہ لوگوں نے اپنی تطہیر اور تزکیہ نہیں کیا۔ قرآن تزکئے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کے مقدس پیغمبر انسانوں کی تطہیر کرتے ہیں۔ نماز سے، زکات سے، روزے سے اور عید الفطر سے تطہیر ہوتی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ موقع ہر ایک کو دستیاب ہے۔
میرے عزیز نوجوانو! قلب و روح کی نورانیت اور پاکیزگی کے دور سے گزرنے والے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! آپ دوسروں سے زیادہ اس طہارت کی قدر کریں اور اس کی حفاظت وپاسداری کریں۔ آپ کا ملک خدا کے فضل اور اسی طہارت کی مدد سے ترقی کرے گا، آزاد رہے گا، پیشرفت کرے گا، اس کی ویرانیاں دور ہوں گی، تفریق، پریشانیاں اور زندگی کی گوناگوں مشکلات ختم ہوں گی۔
سب کو خدا کی بارگاہ کی طرف آگے بڑھنا چاہئے۔ خدا کی طرف دست دعا دراز کرنا چاہئے۔ اس سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ اپنے دامن کو پاک رکھنے اور برائیوں سے پرہیز کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو لوگ مالی امور سے سروکار رکھتے ہیں، ان کو مالی بدعنوانیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ در پیش رہتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، ان کے سیاسی اور سماجی برائیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جو لوگ شہوتوں سے دوچار رہتے ہیں انھیں جنسی اور شہوانی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے ماتحت ہوتے ہیں، ان کے ظلم و ستم میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جن کے ہاتھ میں کوئی کام ہوتا ہے، ان کے لئے اپنے کام میں خیانت کے ارتکاب کا خطرہ رہتا ہے۔ سب اپنا خیال رکھیں۔ سب اپنے اعمال کا خیال رکھیں۔ یہ احتیاط اور توجہ ہی تقوی ہے جس کا نماز عید الفطر میں ہمیں خود کو اور اپنے سامعین کو سفارش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پالنے والے! ہم سب کو تقوی، طہارت، تزکئے، اپنے فرائض کی ادائیگی اور صراط مستیم طے کرنے کی توفیق عنایت فرما۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و العصر ان الانسان لفی خسر الّا الّذین آمنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر (4)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین؛ الھداۃ المھدییّن المعصومین۔ سیّما علی امیر المومنین و صدیّقۃ الطّاھرۃ سیّدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سبطی الرّحمۃ و امامی الھدی و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی و جعفربن محمد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی آئمّۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔
اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
عالم اسلام میں یہ بات عیاں ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو اٹھارہ سال گزرنے کے بعد ایسی حالت میں کہ اس انقلاب کے دشمن اور اس کے خلاف سازشیں تیار کرنے والے یہ توقع رکھتے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اس انقلاب کی یاد کم ہو جائے گی اور پھر اس کو فراموش کر دیا جائے گا، لیکن ان کے اس خیال اور آرزو کے بر خلاف، تاریخ کے اس بے نظیر انقلاب پر توجہ بڑھ رہی ہے اور ملکوں میں اسلامی بیداری عمیق تر ہو رہی ہے جو خود اسلام اور انقلاب کا ایک معجزہ ہے۔
البتہ عالمی سطح پر پائی جانے والی اس توجہ میں پہلا کردار ایرانی قوم کا ہے۔ میں اپنے لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ خدا کے شکرانے اور اپنے عزیز عوام کے شکریئے کے طور پر یہ بات عرض کروں کہ دشمن کی پوری کوشش یہ رہی ہے کہ عوام کو انقلاب کے میدان سے باہر نکال دے۔ لیکن آپ کا جواب ایسا تھا کہ اس انقلاب کے بعد گزرنے والے ان برسوں میں جن میدانوں میں عوام کی موجودگی نمایاں ہونی چاہئے تھی، ان مں آپ نے بھر پور شراکت سے عالمی سامراج کو ٹھوس، محکم اور دنداں شکن جواب دیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعے، یوم القدس کے عظیم مظاہروں میں آپ کی شرکت تھی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ یوم القدس کے اعلان کے اٹھارویں سال میں عوام کی شرکت سترہویں سال سے زیادہ رہی اور سترہویں سال میں سولہویں سال سے زیادہ تھی۔ یہ کیسی تحریک، کیسا اہتمام اور اس عظیم قوم پر خداوند عالم کا کیسا لطف و کرم ہے!
آپ کے اجتماعات، عید الفطر پر میدان عبادت میں آپ کا یہ اجتماع بے نظیر ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی نماز عید الفطر پوری اسلامی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں کہیں بھی مذہبی اور اسلامی رسومات میں اتنے زیادہ نوجوان، اتنے ذوق و شوق کے ساتھ شرکت نہیں کرتے۔
میرے عزیزو! یہ بھی جان لیجئے کہ اس انقلاب اور میدان میں آپ نوجوانوں کی بھرپور موجودگی کی برکت سے پوری اسلامی دنیا میں، دین اور دینی رسومات میں نوجوانوں کی دلچسپی پندرہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھی ہے۔
کل بائیس بہمن ( مطابق گیارہ فروری، یوم آزادی) ہے؛ ایک بار پھر تجزیہ نگاروں، مبصرین اور دیکھنے والوں کی آنکھیں، انقلاب اور ایرانی قوم کی قوت و طاقت کا مشاہدہ کریں گی۔ البتہ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ ریڈیو پر دوسری طرح بولتے ہیں۔ لیکن خود جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر انقلاب، اس قوم اور یوم القدس کے عظیم اجتماع کو دشمنی اور عداوت کی آنکھوں سے نہ دیکھتے اور ان کے دل بغض و کینے اور دشمنی سے پر نہ ہوتے تو بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں یہ اعلان نہ کیا جاتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم القدس کے پروگراموں کے لئے کچھ لوگوں کو بسوں سے لایا گیا۔ جب ایرانی قوم یہ باتیں سنتی ہے تو انقلاب کے خلاف عالمی پروپیگنڈوں کی حقیقت اس پر اور عیاں ہو جاتی ہے۔ یوم القدس کا دسیوں لاکھ کا یہ مجمع، چند بسوں کے مسافروں کا مجمع تھا؟! حکومت نے کچھ لوگوں کو جمع کیا تھا؟! دیکھئے ان کے دل بغض و کینے سے کس طرح پر ہیں۔ اگر نہ دیکھیں، غصے سے نہ تلملائیں تو یہ رد عمل نہ دکھائيں۔ یہ جھوٹی خبریں، آپ کی بھرپور شرکت سے ان کی تلملاہٹ اور بغض کا ردعمل ہے۔ خدا کے فضل، نصرت الہی اور خدا کی عنایت سے کل ایک بار پھر اس انقلاب کی نسبت بغض سے بھری ان کی آنکھیں اور کینے سے پر ان کے دل تلملائیں گے اور ان پر لرزہ طاری ہوگا۔ لیکن انقلاب اور ایران کی انقلابی قوم سے دنیا کی اقوام کی محبت اور اس بیداری کے ساتھ ہی دشمن کی سازشیں بھی روز بروز بڑھی ہیں، مگر بے اثر ہیں۔ دشمن کی سازشوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے فضل سے دشمن کی سازشیں ان کا مقصد پورا نہیں کر سکی ہیں۔ لیکن بہر حال وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کی ایک سازش اسلامی ملکوں میں اختلاف ڈالنا ہے۔ ایک سازش بہت سی حکومتوں کو چھوٹی اور غیر اہم باتوں میں الجھا کے عظیم اور اہم چیزوں کی طرف سے غافل کر دینا ہے۔ ایک سازش اسلامی ملکوں میں رنجش پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کے بہانے تراشنا ہے، تاکہ صیہونیوں کے تعلق سے، جو اسلامی دنیا کے حقیقی دشمن ہیں، عالم اسلام کی گہری نفرت سے مسلمانوں کے ذہنوں کو ہٹا سکیں۔ یہ بات صرف ہمارے خطے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی دنیا میں ہر جگہ یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے خطے میں اس سازش میں زیادہ شدت ہے۔
انقلاب کے پہلے دن سے ہی سامراج کے پروپیگنڈہ اداروں اور سیاسی کھلاڑیوں نے خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے ہاتھوں اپنے اسلحے بیچ سکیں۔ تاکہ وہاں اپنے فوجیوں کی تعیناتی جاری رہنے کو یقینی بنا سکیں۔ میں نہیں جانتا کہ کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ان ملکوں کے دل اور ذہن بیدار ہوں اور یہ سمجھیں کہ امریکا ان کی بھلائی نہیں چاہتا! یہ سمجھیں کہ امریکا اور پوری دنیا میں ان کے صیہونی ڈھنڈورچی، جو ان ملکوں میں اپنی مد نظر ذہنیت بنانا چاہتے ہیں، ان کی نیت یہ ہے کہ خلیج فارس میں آئيں، یہاں اپنی فوج رکھیں، اپنے ناجائز اقتصادی مفادات پورے کریں اور اگر ہو سکے تو اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم پر دباؤ ڈالیں۔
حکومت، عوام اور حکام بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران پڑوسی ملکوں کے تعلق سے جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ ایران نے ابتدائے انقلاب سے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ انقلاب کو آٹھارہ سال ہو رہے ہیں، ہم نے اب تک کس پر حملہ کیا ہے؟ ہم نے پڑوسیوں کی کس سرحد پر فائرنگ کی ہے؟ ہم پر گولیوں کی بارش ہوئی ہے۔ ہم نے اپنے دفاع کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا ہے۔
اگر چہ ایران ایک بڑا ملک ہے اور ایرانی قوم طاقتور ہے، سب جانتے ہیں اور سمجھ چکے ہیں کہ ایران کا کوئی بھی پڑوسی ملک دوسروں کی مدد سے بھی، اس عظیم قوم اور وسیع اور طاقتور ملک پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ڈال سکتا اور جو بھی آگے بڑھ کے جارحیت کرے گا منہ کی کھائے گا، اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت، قوم اور مسلح افواج نے کسی بھی قسم کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ اہداف رکھے ہیں نہ رکھتی ہیں اور آئندہ بھی نہیں رکھیں گی۔ توسیع پسندی ہمارے نظریات کے خلاف ہے۔ ہماری اسلامی سیاست میں توسیع پسندی اور جارحیت جیسی چیزوں کے لئے جو طاغوت سے تعلق رکھتی ہیں، کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ہم اپنی اور اپنے خطے کی سلامتی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
سب اس بات پر توجہ رکھیں کہ خلیج فارس بہت حساس علاقہ ہے۔ خیال رکھیں کہ اس خطے کے باہر سے جو دشمن ان ملکوں کے دوست بن کے خطے میں آتے ہیں، اس علاقے کے امن و سلامتی کو ختم نہ کر دیں! سب اس بات پر توجہ رکھیں۔ اگر خدا نخواستہ اس خطے میں بدامنی پیدا ہوئی تو سب سے زیادہ نقصان انھیں کو پہنچے گا، جو اس بدامنی کا باعث بنیں گے اور اس کے اسباب فراہم کریں گے۔ سب سے زیادہ نقصان ان ملکوں کو پہنچے گا، جنہوں نے اپنی دولت، اپنا ملک اور اپنی سرزمین، بیرونی جارحین کے اختیار میں دی ہوگی۔
البتہ ہماری دعا ہے کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو اور خدا کے فضل سے ان شاء اللہ پیدا نہیں ہوگی؛ لیکن اگر خدانخواستہ اس بیرونی طاقت نے جس کے فوجی خلیج فارس میں موجود ہیں، دیوانگی کی اور بغیر سوچے سمجھے کوئی حرکت کی تو سب سے پہلے یہ آگ انھیں ملکوں کو دامنگیر ہوگی، جنھوں نے مذکورہ طاقت کے فوجیوں کے غیر قانونی طور پر یہاں آنے اور رہنے کے اسباب فراہم کئے ہیں۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایرانی قوم تعمیر کے میدان میں پوری تن دہی کے ساتھ محنت اور کوشش کر رہی ہے۔ خدا کے فضل سے حکومت، قوم، ملک کے حکام، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ سبھی وسط مدتی اور طویل المیعاد منصوبوں کے ساتھ پوری توجہ سے اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ قوم ایک زندہ دل قوم ہے۔ یہ ملک ایک زندہ ملک ہے۔ دنیا کی سبھی زندہ اقوام ایسی ہی ہیں کہ اپنے کام اور امور کو تدریجی طور پر چند سال میں منظم کرتی ہیں اور یہ ملک بھی اپنے امور کو مںظم کرنے میں مصروف ہے۔
میں اپنی عزیز قوم سے عرض کرتا ہوں کہ اپنی اس شراکت کو قائم رکھیں تاکہ اس کی عزت، اقتدار اور اس کی مادی و معنوی قوت محفوظ رہے۔ یہ اتحاد جو الحمد للہ آپ کے درمیان پایا جاتا ہے اور دشمن اس کو ختم نہیں کر سکا ہے، اس کی حفاظت کریں تاکہ آپ کی عزت، اقتدار، آبرو اور حیثیت نیز دنیا میں اور دیگر اقوام پر آپ کا اثرانداز ہونا اسی قوت، شدت اورعظمت کے ساتھ باقی رہے۔
ان شاء اللہ ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی پاکیزہ روح آپ سے راضی ہو۔ شہیدوں کی ارواح طیبہ بھی آپ سے راضی ہوں۔ خدا کے فضل سے حضرت بقیۃ اللہ (امام زمانہ) ارواحنا فداہ کی دعائيں آپ کے شامل حال ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انّا اعطیناک الکوثر فصلّ لربّک و انحر۔ انّ شانئک ھو الابتر (5)
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- سورہ اعلی، آیت نمبر 14
2- سورہ شمس، آیت نمبر 9
3- سورہ توبہ، آیت نمبر 103
4- سورہ عصر، آیات 1 الی 4
5-سورہ کوثر، آیات 1 الی 3
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا اس میں مغرب و عشا کی نماز میں بڑا ازدحام رہتا تھا اور باہر تک صفیں لگتی تھیں۔
(نماز میں شرکت کرنے والے)اسی۸۰ فیصد جوان ہوتے تھے، وجہ یہ تھی کہ نوجوان طبقے سے ہمارا باقاعدہ رابطہ رہتا تھا۔
ان دنوں الٹی جیکٹ پہننے کا فیشن تھا لہذا نوجوان الٹی جیکٹ پہنے نظر آتے تھے۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک جوان الٹی جیکٹ پہنے پہلی صف میں میرے مصلے کے پیچھے بیٹھا ہے، ایک حاجی صاحب نے جن کا بڑا احترام تھا اور جو ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتے تھے، اس جوان کے کان میں کچھ کہا۔ میں نے دیکھا نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
میں نے فوراً حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کہہ دیا۔
ان سے قبل نوجوان نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں۔
میں سمجھ گیا کہ انہوں نے اس سے کہا ہے اس طرح کا لباس پہن کر پہلی صف میں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔
میں نے نوجوان سے کہا کہ، آپ کو پہلی ہی صف میں بیٹھنا ہے آپ یہاں سے کہیں اور مت جایئے۔
میں نے حاجی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نوجوان پیچھے چلا جائے، یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ الٹی جیکٹ پہننے والا جدیدیت پسند نوجوان بھی نمازی ہو سکتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔
برادران ایمانی اگر ہمارے پاس دولت اور وسائل نہیں ہیں اگر ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے تو کم از کم ہم اچھا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں۔
"فی صفۃ المومن بشرہ فی وجھہ و حزنہ فی قلبہ"
نوجوانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ذہن و دل متاثر ہو اور ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ (انجمن تبلیغات اسلامی کے عہدہ داران سے ملاقات کے دوران 16/6/1997)
سابق سویت یونین اور اس کے زیر انتظام شیعہ اکثریتی علاقے آذر بایجان کے امور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ جب کمیونسٹوں نے اس علاقے (آذربائیجان) پر قبضہ کیا تو تمام اسلامی علامتیں مٹا دیں۔
مسجدیں گوداموں میں تبدیل کر دی گئیں، دینی مراکز اور امام بارگاہوں کو کچھ اور بنا دیا گیا، دین اور شیعیت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا بس ایک چیز کی اجازت دی گئی تھی اور وہ تھی قمہ زنی۔
کمیونسٹ آقاؤں کی طرف سے کارندوں کو حکم تھا کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نماز پڑھیں، نماز جماعت قائم کریں، قرآن پڑھیں، عزاداری کریں، المختصر یہ کہ کوئی بھی دینی کام نہیں کر سکتے مگر ان کو قمہ زنی کا حق ہے، کیوں؟ صرف قمہ زنی ہی کیوں؟
اس لئے کہ یہ دین اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے لئے بہترین چیز تھی۔
لہذا کبھی کبھی دشمن اس طرح سے کچھ چیزوں کو دین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات آ جائیں دین بدنام ہو جائے گا۔
(نئے سال کے آغاز پر مشہد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب)21/03/1997
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 11 مارچ 1997 عیسوی کو ہویزہ کے شہیدوں کے قبرستان 'گلزار شہدا' میں اپنے خطاب میں شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کیا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراق کی جارح بعثی حکومت کی فوجی یلغار کے مقابلے میں ایرانی مجاہدین کی جاں نثاری کی قدردانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر چہ دشمن امریکا، مغرب اور مشرق پر انحصار کرتا تھا اور سب مادی لحاظ سے اس کی مدد کر رہے تھے لیکن معنوی لحاظ سے دشمن کے ہاتھ خالی تھے۔ ہماری قوم کے ہاتھ معنوی لحاظ سے خالی نہیں تھے۔ اس کے قلب عشق و ایمان سے مملو تھے اور وہ کامیاب ہوئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ خوزستان کے دورے میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کیا۔ 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 10 مارچ 1997 عیسوی کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نقطہ نگاہ سے عورتوں کے حقوق بیان کئے اور جاہلانہ رسومات سے دور رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ معاشرے میں عورت کے کلیدی تعمیری کردار کا جائزہ لیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے عورتوں کو اسلام میں دی گئی آزادی کی جانب توجہ مبذول کرائی اور خود خواتین پر زور دیا کہ وہ حقوق نسواں کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 10 فروری 1997 عیسوی کو عید الفطر کے دن ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں عید کی مبارکباد پیش کی اور اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے عید کے معنی و مفہوم سے بحث کی اور اس کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 18 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 7 فروری 1997 کو فضائیہ کے جوانوں اور افسران سے خطاب میں فضائیہ کے تاریخی فیصلے کی تعریف کی جو اسلامی انقلاب کی فتح سے تین دن قبل یعنی آٹھ فروری 1979 کو فضائیہ نے کیا اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بیعت کا اعلان کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 شہریور 1375 ہجری شمسی مطابق 18 ستمبر 1996 کو شہر ارومیہ میں خواتین کے اجتماع سے خطاب میں معاشرے کے اندر مختلف طرح کے حالات میں خواتین کے موثر کردار پر روشنی ڈالی ساتھ ہی خواتین کے تعلق سے کچھ اہم ہدایات دیں۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ مغربی آذربائیجان کے دورے کے دوران شہر ارومیہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اس خطاب میں صوبہ آذربائیجان کے عوام میں موجود اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تعریف کی اور مختلف ادوار میں اس صوبے کے عوام کی خدمات کا ذکر کیا۔
یونیورسٹیوں میں ولی فقیہ کے نمائندہ دفاتر کے سربراہوں سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیمی مراکز میں اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کی ترویج کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں ان نمائندہ دفاتر کے کردار کی افادیت بیان کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 29 اگست 1996 کو سرکاری عہدیداروں اور ملازمین کے اجتماع سے خطاب میں فرائض منصبی اور عوامی خدمات پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 اگست 1996 کو صدر رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے انجام پانے والے کاموں سے عوام کو مطلع کئے جانے پر زور دیا اور ساتھ ہی حکومت کو اہم سفارشات کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستائیسویں محمد رسول اللہ ڈویژن کے کمانڈروں سے خطاب میں انتہائی کلیدی نکات کا جائزہ لیتے ہوئے خواص کہے جانے والے طبقے کے مختلف ادوار کے فرائض اور ان کے موقف کی فیصلہ کن حیثیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے مہمانوں اور مختلف عوامی طبقات سے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ اس موقع پر امام خمینی کے روضے پر کثیر تعداد میں عقیدتمند جمع ہوئے اور قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 'ولایت' سے موسوم عظیم پیمانے کی فوجی مشقوں میں شرکت کرنے والے فوجیوں سے خطاب میں دفاعی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یوم مسلح افواج کے موقع پر فوج کے کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ہمہ جہتی ترقی کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 23 فروردین 1375 ہجری شمسی مطابق 11 اپریل 1996 عیسوی کو قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے عہدیداروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں قومی نشریاتی ادارے کی خدمات کی قدردانی کی اور اس ادارے کی کلیدی حیثیت کو بیان کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1375 کے آغاز پر 4 فروردین 1375 ہجری شمسی مطابق 23 مارچ 1996 عیسوی کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 بہمن سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 3 فروری سنہ 1995 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی امامت کی۔ آپ نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ماہ مبارک رمضان کی فضیلتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے اس مہینے کو اللہ کا مہینہ کہے جانے کی وجہ کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی انقلاب کے تعلق سے اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں آج اس انقلاب کے بعض پہلووں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ان نکات میں سے جن پر کم بحث ہوئی ہے ایک یہ ہے کہ ہمارا عظیم انقلاب، کامیابی کی کیفیت کے لحاظ سے استثنائی اور منفرد ہے۔ یعنی واقعی ایسے عظیم پہلوؤں کے حامل عوامی انقلاب کی کہ جس میں، سڑکوں پر عوام کی موجودگی، شہروں اور دیہی بستیوں میں شاہی حکومت کے خلاف تمام عوام کی مشارکت سے ایسی مجاہدت ہوئی ہو، کم سے کم اس زمانے تک ہمارے دور کے انقلابوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس زمانے میں دنیا کے گوشہ و کنار میں جو انقلابات آئے تھے، منجملہ لاطینی امریکا، افریقا، ایشیا اور دوسری جگہوں پر آنے والے کمیونسٹ انقلابات کے ان کی شکل اور نوعیت دوسری تھی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق تیس اگست سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ہفتۂ حکومت کی مناسبت سے صدر مملکت اور وزیروں سے ملاقات میں اہم ملکی، علاقائی اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ آپ نے قومی اقتدار اعلی کے تعلق سے اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی اقتدار کے، جو درحقیقت حکومت کی طاقت و توانائی ہے، دو ستون ہیں؛ ایک خدا سے رابطہ، یعنی یہ کہ کام خدا کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی بھی ذاتی مسائل کو مد نظر رکھ کے اور مادی پہلوؤں سے کام نہ کرے۔ دوسرا رکن؛ عوام پر توجہ ہے۔ من کان للہ کان اللہ لہ اور من اصلح ما بینہ و بین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس اگر انسان نے خدا سے اپنے رابطے کو ٹھیک کر لیا تو خداوند عالم عوام سے اس کے رابطے کو اچھا بنا دے گا۔ یہ تمام روابط، سوشیالوجی اور سائیکالوجی کے علمی میکینزم پر استوار ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چوبیس مرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پندرہ اگست سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ملاقات کے آنے والے ملک کے حکام، نظام کے ذمہ داروں اور بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے منتظمین سے سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ آج اسلامی دنیا میں پیسہ بہت ہے، فکر بھی کافی ہے، لائق افرادی قوت بھی ہے۔ علماء، شعراء، مصنفین، فنکار اور قابل سیاسی شخصیات، اسلامی دنیا میں موجود ہیں اور کانیں، نیز زیر زمین، خداداد مالی ذخائر کا بڑا حصہ بھی اسلامی ملکوں کے اختیار میں ہے۔ اگر یہ سب مل کے اپنے اندر یک جہتی پیدا کرلیں، یا کم سے کم ایک دوسرے کے خلاف کام نہ کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کیا ہوگا۔ دشمن ایسا کام کر رہا ہے کہ اسلامی دنیا کے یہ مالی اور افرادی قوت کے ذخائر ایک دوسرے کے مقابلے پر آجائیں۔ عراقی حکومت کو ورغلایا، اس علاقے میں آٹھ سالہ تباہ کن جنگ شروع کی اور کوشش کی کہ اس نئے پودے کو (اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کو) جڑ سے ختم کردیں، لیکن نہیں کر سکے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سات تیر تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق اٹھائیس جولائی سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ملاقات کے لیے آنے والے، عدلیہ کے عہدیداروں اور جج صاحبان سے خطاب میں عدلیہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہر گناہ حق کی خلاف ورزی ہے۔ نظام الہی و اسلامی قوانین، قوانین الہی ہیں اور ہر قانون کی ہر خلاف ورزی، حق کی خلاف ورزی ہے۔ ان حالات میں عدلیہ حق کی انواع و اقسام کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ عدلیہ کی اہمیت ہے۔ آپ باطل کو عوام کے نظام زندگی پر مسلط ہونے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ادارے میں، جس میں آپ ہیں، درحقیقت سبھی حق پر کمربستہ ہیں۔ یعنی سبھی اس چیز کے نفاذ کو یقینی بنانے میں کوشاں ہیں، جو آفرینش حق تعالی اور عالم ہستی کے قرار حقیقی کے مطابق ہے۔ یونہی نہیں ہے کہ ہماری مقدس شرع اور فقہ میں انصاف کے امور اور عدالتی امور کے ذمہ داروں کے سلسلے میں اتنی زیادہ باریک بینی اور دقت نظر پر زور دیا گیا ہے جبکہ دیگر حکومتی کاموں کے تعلق سے اتنی زیادہ توجہ اور تاکید سے کام نہیں لیا گيا ہے کہ یہ خصوصیت ہو اور یہ نہ ہو۔ یہ موضوع کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اکیس تیر سنہ تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق بارہ جولائی سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو ہفتۂ پولیس کی مناسبت سے ملاقات کے لیے آنے والے پولیس فورس کے افسروں اور کمانڈروں سے خطاب میں اس محکمے کی اہم ترین ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے اس محکمے میں تین خصوصیات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اسلامی جمہوریہ ایران کی انتظامی فورس (پولیس) سے جو توقع ہے وہ تین خصوصیات اور تین نکات میں بیان کی جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملاقات کے لیے آنے والے وزیر اسلامی ثقافت و تعلیمات، اس وزرات کے اعلی عہدیداروں اور ملک کی ثقافتی کونسلوں کے اراکین سے خطاب میں ثقافتی امور کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ میری نظر میں عام کلچر اور ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل پر مشتمل ہے جو نمایاں، ظاہر اور آنکھوں کے سامنے ہیں اور درحقیقت قوم کے مستقبل میں دخیل ہیں لیکن ان کا اثر دیر میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی یہ امور اور مسائل قوم کے مستقبل کی راہ و روش میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور لباس کا انداز، کیا پہنا جائے، کیسے پہنا جائے، لباس کے کس ماڈل کو اپنایا جائے، یہ سب معاشرے کے عام کلچر اور ثقافت کے ظاہری حصے اور مصداق ہیں۔ عام کلچر کا دوسرا حصہ بھی پہلے حصے کی طرح قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فوری اور بہت واضح ہوتے ہیں۔ یعنی عام کلچر کے اس حصے سے مربوط امور زیادہ نمایاں نہیں ہوتے لیکن معاشرے میں اس کے مستقبل اور راہ و روش کے تعین میں ان کے اثرات بہت واضح ہوتے ہیں۔ انہیں امور میں بلکہ ان کا بڑا حصہ عادات و اطوار سے متعلق ہے۔ فرض کیجیے کہ کسی معاشرے کے افراد، وقت کو اہمیت نہ دیتے ہوں، جب آپ اس معاشرے میں پہنچیں گے تو وقت کو اہمیت نہ دینے کی افراد معاشرہ کی اس عادت کے منفی اثرات آپ اپنے اوپر بھی اور دیگر لوگوں پر بھی دیکھ لیں گے جبکہ خود یہ چیز یعنی وقت کو اہمیت نہ دینا، زیادہ واضح نہیں ہوتی۔
قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق پندرہ جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو پاسداران انقلاب اسلامی فورس کی عظیم عاشورا فوجی مشقوں کے موقع پر اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فورسز کی منفرد خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ آج خدا کے فضل سے ہماری مسلح افواج، فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب، پورے ملک میں ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں، سڑکیں بنارہے ہیں، ہائی وے بنا رہے ہیں، ڈیم تعمیر کر رہے ہیں، ترقیاتی کام کررہے ہیں، زراعت اور بہت سے کام کر رہے ہیں۔ یعنی اس قوم کے جوان چاہے وہ فوجی وردی میں ہوں، (یا دوسرے لباس میں ہوں) ملک کے لیے مفید بننا چاہتے ہیں اور ہو سکتے ہیں لیکن میری گزارش یہ ہے کہ اس مملکت کے بہترین جوان اور فداکاروں کے سردار وہ ہیں جو ہرحال میں اس بات پر توجہ رکھیں کہ حاکمیت اسلام کی یہ امانت جو ان کے پاس ہے، تمام پیغمبروں، اماموں اور اولیاء کی امانت ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کی آرزو تھی جو حاکمیت الہی سے انسانوں کی محرومی کے دور میں موت سے ہمکنار ہوئے، جنہوں نے عقوبت خانوں میں تکلیفیں برداشت کیں اور یہ آرزو کی کہ خداوند عالم انہیں نجات دلائے اور کامیابی عطا کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق نو جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی برابر دس محرم چودہ سو سولہ ہجری قمری کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی امامت کی۔ آپ نے عاشور کی مناسبت سے نماز جمعہ کے خطبوں میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور واقعہ کربلا کے تعلق سے اہم ترین نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چودہ خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق چار جون سنہ انیس سو پچانوے عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر عظیم الشان عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت اور آپ کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے اسلامی انقلاب کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عظیم اسلامی انقلاب، جس کی امام عظیم نے ہدایت کی، اس کو ثمر بخش بنایا اور اس کا اہم ترین نتیجہ اسلامی جمہوریہ کی شکل میں سامنے آیا، دو پہلو رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی چوتھی پارلیمنٹ کے ارکان نے آٹھ خرداد تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق انتیس مئی انیس سو پچانوے عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سے ملاقات کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظام میں ان کی اہمیت اور نظام و عوام کے تعلق سے ان کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے چوتھی پارلیمنٹ کے ارکان کی بعض منفرد خصوصیات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تین خرداد سن تیرہ سو چوہتر ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی سن انیس سو پچانوے عیسوی کو علماء و واعظین کے اجتماع سے خطاب کیا۔ ہر سال ماہ محرم سے قبل منعقد ہونے والے اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے حسینی تحریک اور واقعہ عاشورا کے عالم انسانیت پر اثرات و نتائج کا ذکر کیا۔ آپ نے علماء و مبلغین کو واقعہ عاشورا اور تحریک امام حسین علیہ السلام کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی کیفیت اور انداز کے بارے میں چند اہم ہدایات دیں۔