بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ کی یونیورسٹی، اس معروف اور پر افتخار یونیورسٹی میں آنے کا موقع ملا۔ افسوس کہ اس سے پہلے، صدارت کے دور میں بھی اور اس کے بعد بھی آج تک یہاں آنے کا موقع نہ مل سکا۔ ہم نے کئی بار اس یونیورسٹی میں آنے اور یہاں کے طلبا سے ملنے کا پروگرام بنایا لیکن اپنے مسائل و مشکلات کی وجہ سے نہ آ سکے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج یہ توفیق نصیب ہوئی اور میں آپ کی یونیورسٹی میں آیا۔
ایک بات شریف ٹیکنیکل یونیورسٹی کے بارے میں عرض کروں گا: اس یونیورسٹی کے تاریخچہ میں دو ممتاز خصوصیات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک خصوصیت علمی ہے اور دوسری انقلابی اور دینی ہے۔ یعنی آپ کی یونیورسٹی علمی کاوشوں کے میدان میں بھی ایک پیش قدم اور کامیاب یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے اور انقلابی نیز دینی سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی پیشرفتہ اور کامیاب یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کے سربراہ نے اشارہ کیا کہ اس یونیورسٹی کے کچھ شہدا بہت ہی مشہور و معروف ہیں جیسے شہید عباس پور، شہید وزائی، شہید شوریدہ اور خود شہید شریف واقفی جو انقلاب سے پہلے شہید ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک، ایک شہید ہے، لیکن ہر ایک ممتاز اور درخشاں شخصیت کا مالک بھی ہے۔ تعمیری جہاد، مسلط کردہ جنگ، پاسداران انقلاب کی ابتدائی تشکیل، اسی طرح انقلاب کے ابتدائی برسوں کی انقلابی اور سیاسی سرگرمیوں میں اس یونیورسٹی کی ممتاز ہستیاں موجود رہی ہیں۔ یعنی یہ وہ یونیورسٹی ہے جس نے دین اور انقلاب کے پیغام کو نمایاں طور پر قبول کیا اور اس کو طلبا، اساتید اور فیکلٹیوں کے سربراہوں تک پہنچایا۔ علمی لحاظ سے بھی یہ یونیورسٹی اعلی سطح پر ہے۔ میں اس سے پہلے اساتذہ کے درمیان تھا، وہاں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے، ان میں سے بہت سے اعداد و شمار سے میں پہلے سے واقف تھا۔ عالمی علمی مقابلوں میں استعداد اور صلاحیتوں کی درخشندگی میں یہ یونیورسٹی بہت کامیاب رہی ہے۔
بنابریں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی یونیورسٹی، اس یونیورسٹی کے طلبا اور آپ کی اس یونیورسٹی کے اساتذہ دین اور علم کے اٹوٹ رشتے کے زندہ اور نمایاں مظاہر ہیں۔ اب کچھ لوگ بیٹھیں، باتیں بنائیں اور شور مچائیں کہ علم اور دین ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے! ان کی سو گھنٹے کی تقریر کی وہ علمی تاثیر نہیں ہے جو آپ کی ایک گھنٹے کی موجودگی کا اثر ہے۔ اس لئے کہ آپ حاضر اور موجود ہیں۔ آپ کے روبوٹ بنانے کے وہ کارنامے، ریاضی کے مقابلوں میں دنیا میں آپ کا پہلے نمبر پر آنا۔ یہ آپ کا قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ آپ کی علمی ہستیاں اور وہ آپ کا دینی سرمایہ ہے۔ اس وقت آپ کی یونیورسٹی کا قرآن اور دین کا مرکز اور آپ کے دین اور ہنر و آرٹ کے مرکز کا کام ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں سے زیادہ نمایاں ہے اور یہ مراکز دیگر یونیورسٹیوں کے مراکز سے زیادہ سرگرم اور فعال ہیں۔ ان میں بعض کاموں کی مجھے اطلاع ہے۔ بنابریں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ " ادلّ الدلیل علی امکان شیء وقوعہ" یعنی کسی چیز کے امکان کی بہترین اور محکم ترین دلیل یہ ہے کہ وہ چیز معرض وجود میں آ جائے۔ جب ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ یہ چیز ممکن ہے یا نہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ جس چیز کے امکان کے بارے میں ہم بحث کر رہے ہیں وہ موجود ہے تو بحث ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کے بعد بھی بحث کو جاری رکھیں گے۔ دنیا میں صرف خیالی بنیادوں پر بحث کرنے والے بیکار لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہاں، وہاں بیٹھیں اور باتیں کریں۔ یہ بحث کریں کہ انقلابی فکر، دینی رجحان اور دینی عمل علمی پیشرفت سے سازگار ہے یا نہیں! بہت خوب، بیٹھیں اور رات تک بحث کریں! اس یونیورسٹی کا وجود، یہاں اس علمی مرکز کا وجود اور یہاں آپ جیسے بہتریں طلبا اور آپ کے بہتریں اساتذہ کا وجود ان بحثوں کو بے سود، مہمل اور بے جا ثابت کر دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب میں آپ جیسے طلبا سے ملتا ہوں تو میرے ذہن میں بہت سی باتیں ہوتیں ہیں۔ ہماری بہت سی باتوں کے اصلی مخاطب بھی آپ یعنی نوجوان نسل کے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ جب "ہم" کہتے ہیں تو ہم سے مراد اسلامی جمہوری نظام میں ایک ذمہ دار عہدیدار کی حیثیت سے مراد میری ذات نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی "علی خامنہ ای" مراد ہوتا ہے بلکہ ایک طالب علم، ایک عالم دین اور وہ ذات مراد ہوتی ہے جو اسلامی، تاریخی اور سیاسی میدانوں میں علمی و فکری مسائل میں دلچسپی رکھتی ہے۔ البتہ ذمہ داری کا ماجرا اور مسئلہ الگ ہے۔ بہرحال میرے اصلی مخاطب نوجوان ہیں اور نوجوانوں میں بھی ذہین، جینئس، اہل علم و دانش، صاحبان ثقافت و معرفت، لکھنے پڑھنے والے، کہنے سننے والے اور آگے بڑھنے والے طلبا ہیں۔ البتہ حکومتی ذمہ داریوں کا حجاب ان میں سے بہت سی باتوں کو روک دیتا ہے اور ہم خود بھی اس حجاب کو ہٹا کے سخن دل کے اس مرکزی نقطے تک نہیں پہنچ سکتے۔ بنابریں کہنے کے لئے باتیں بہت زیادہ ہیں اور ہمارے ایک مشہدی شاعر کے بقول "یک سینہ حرف، موج زند در دہان ما" (یعنی ہمارے سینے میں باتوں کا یک سمندر موجزن ہے۔)
چونکہ میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو میری تقریر مختصر ہو تاکہ اس کے بعد آپ کے مکتوب سوالوں کو وقت دیا جائے اور میں آپ کے سوالوں کا جواب دوں، اس لئے میں نے ایک سو فیصد طلبا کا موضوع مد نظر رکھا۔ یہ موضوع طلبا کی تحریک ہے جس کو طلبا کی بیداری اور طلبا کا احساس ذمہ داری قرار دینا زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ بہت اہم موضوع ہے۔ سو فیصد طلبا کا موضوع ہے۔ اس کو سو فیصد طلبا کا موضوع کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ ممکن ہے کہ طلبا میں بہت سے احساسات، خواہشات و مطالبات اور جذبات ایسے ہوں جن کا طالب علمی کی خصوصیات سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہو۔ مثال کے طور پر روزگار کی فکر ہے۔ شاید ایسا کوئی طالب علم نہ ملے جسے روزگار اور اپنے مستقبل کی فکر نہ ہو۔ لیکن طالب علم کی یہ کیفیت اس کی طالب علمی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ کیفیت ہر نوجوان میں ہوتی ہے چاہے طالب علم ہو یا نہ ہو اس کو یہ فکر ہوتی ہے۔ یا مثال کے طور پر شادی کا مسئلہ ہے، البتہ یہ حاضرین کی اکثریت کی دلچسپی کا مسئلہ ہے۔ ہر طالب علم چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، اس کے اندر اس کی فکر اور خواہش ہوتی ہے۔ اس لئے کہ یہ زندگی کا مسئلہ ہے لیکن یہ فکر طالب علمی کا لازمہ نہیں ہے۔ لیکن جس چیز کو ہم 'طلبا کی بیداری' کہتے ہیں اور طالب علموں کے ساتھ ہی دوسرے طبقات میں بھی جو نام رائج ہے وہ 'طلبا کی تحریک' ہے۔ یہ تحریک طالب علموں کے طبقے سے مخصوص ہے۔ یعنی ہر نوجوان سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے ماحول میں قدم رکھنے سے پہلے، نوجوانوں سے تعلق نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کا تعلق یونیورسٹی میں طالب علمی میں گزرنے والے چار سال پانچ سال اور چھے سال کی مدت سے ہے۔ اس مدت سے تعلق رکھتی ہے جو آپ یونیورسٹی میں گزارتے ہیں۔ یہ سامنے موجود حقیقت ہے۔
طلبا کی تحریک بلکہ یہ کہیں کہ 'طلبا کی بیداری' کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایسی چیز بھی نہیں ہے جو ایران سے مخصوص ہو۔ اس لئے کہ جیسا کہ ہم نے کہا، یہ یونیورسٹی کے ماحول سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بیداری کی کچھ خصوصیات ہیں۔ اس میں کچھ محرکات ہوتے ہیں جن کے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان خصوصیات کو سمجھ جائيں تو ان سے، اس ماحول، ملک اور سماج کے لئے ایک اہم مالامال اور سرشار خزانے کے عنوان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کو اچھی طرح نہ سمجھا جا سکے تو ممکن ہے کہ یہ سرمایہ ضائع ہو جائے۔ بالکل اس دولت و ثروت کی طرح جس کی آپ کو اطلاع نہ ہو یا جس کی افادیت سے آپ واقف نہ ہوں۔ اس سے بدتر بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی دولت و ثروت ہے جس کے مالک آپ ہیں اور آپ کو پتہ نہیں ہے لیکن ایک چور اور فریبی کو معلوم ہے کہ یہاں ایک خزانہ پوشیدہ ہے اور اس سے یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ لہذا وہ آتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ دوہرا نقصان ہے!
سب سے پہلے خود طالب علموں کا، دوسرے طالب علموں کے امور کے ذمہ دار عہدیداروں اور یونیورسٹیوں کا اور تیسر ے ملک کے حکام کا پہلا فرض یہ ہے کہ طالب علموں کی اس تحریک یعنی طلبا کی بیداری، یا اس کو جو نام بھی دیں، اس کی شناخت حاصل کریں کہ یہ کیا ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبا کی اس تحریک کا سرچشمہ اور خصوصیات کیا ہیں۔ طالب علموں کی عمر، ان کی توانائی، نوجوانی کی طاقت اور وہ علم و دانش جن سے طالب عالم اس دور میں واقف ہوتا ہے، چاہے وہ علمی و سائنسی معلومات ہوں، سیاسی معلومات ہوں یا سماجی امور کی اطلاعات ہوں، طالب علم کا زندگی کی بندشوں اور روٹی کپڑے کی مشکلات سے آزاد ہونا، اس کو نسبتا آزادی حاصل ہوتی ہے ، کہیں کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، اسی کے ساتھ طلبا کا ایک خاص ماحول میں اکٹھا ہونا، معاشرے کے عام حالات سے ان کا متاثر ہونا اور اس پر ان کا ردعمل، چاہے مثبت ہو یا منفی، یہ بہت ہی اہم اور اسی کے ساتھ ہی طلبا کی مبارک تحریک بیداری کے کلیدی عوامل ہیں۔ اگر ان سے صحیح استفادہ نہ کیا گیا یا غلط استفادہ کیا گیا تو اس کے بہت ہی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ طلبا کے ماحول اور ان کی تحریک یا طلبا کی بیداری کی خصوصیات کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ تقریبا ہر جگہ یکساں ہوتی ہیں۔ ان میں فرق ہر ملک اور ہر قوم کی ثقافت، تاریخ اور بنیادی ڈھانچے کا ہوتا ہے لیکن بہر حال سبھی جگہ طلبا کی تحریک کی بعض باتیں مشترکہ ہوتی ہیں۔
اپنے ملک میں انقلاب سے پہلے، انقلاب کے دوران اور اس کے بعد طلبا کی تحریک کی خصوصیات کے بارے میں، میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
پہلی خصوصیت، مصلحت اندیشی کے بجائے امنگوں کو اہمیت دینا ہے۔ امنگوں سے محبت اور ان سے لگاؤ ہے۔ تلاش معاش اور زندگی کی معمول کی سرگرمیوں میں بعض اوقات انسان کی آنکھوں کے سامنے ایسی رکاوٹیں آ جاتی ہیں جو امنگوں کے حصول کو ناممکن ظاہر کرتی ہیں، یہ بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات امنگیں فراموش کر دی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کے ماحول میں امنگیں نمایاں، قابل فہم اور زندہ ہوتی ہیں اور ان کا حصول ممکن نظر آتا ہے اس لئے ان کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ خود یہ کوشش بہت مبارک ہے۔
دوسری خصوصیت صداقت، پاکیزگی اور خلوص ہے۔ طالب علموں کی تحریک میں دھوکہ، فریب، حیلہ اور وہ غیر انسانی طریقے جو عام طور پر زندگی میں رائج نظر آتے ہیں، بہت کم ہوتے ہیں یا فطری طور پر ہوتے ہی نہیں۔ معمول کی زندگی میں، سیاست، تجارت اور سماجی لین دین میں ہر ایک بولنے میں اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کو کیا ملے گا اور کیا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ وہ کیا پاتا ہے یا کیا کھوتا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کتنا چالاک، کتنا ہوشیار اور کتنا عقلمند ہے یا اس کے برعکس ہے۔ لیکن طالب علموں کی تحریک میں یہ بات نہیں ہے۔ یہاں کوئی بات، اچھی ہونے کی بنا پر، صحیح ہونے کی بنا پر، پرکشش ہونے کی بنا پر حقیقت کی بنیاد پر بیان کی جاتی ہے اور اس کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ ہر طالب علم جو بھی بولتا ہے ایسا ہی ہے۔ نہیں، لیکن اکثر یہی ہوتا ہے۔
تیسری خصوصیت مختلف قسم کی سیاسی، جماعتی اور نسلی وابستگیوں سے آزادی ہے۔ طلبا کی تحریک میں یہ خصوصیت دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ وابستگی بھی وہی مصلحت اندیشی کا ہی ایک حصہ ہے۔ طلبا کی تحریک میں عام طور پر وہ محدودیتیں جو مختلف سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں میں لوگ اپنے لئے وضع کرتے ہیں، نہیں پائی جاتی ہیں اور نوجوانوں میں ان محدودیتوں کو برداشت کرنے کا مادہ بھی نہیں ہوتا۔ لہذا ماضی میں انقلاب سے پہلے کچھ پارٹیاں تھیں جو خاص ضابطے کے ساتھ کام کرتی تھیں لیکن یونیورسٹیوں میں پہنچنے کے بعد یہ ضابطے ان کے ہاتھ سے نکل جاتے تھے۔ ان کے لئے یونیورسٹیوں میں کچھ لوگوں کو رکن بنانا تو ممکن تھا لیکن طالب علموں کے درمیان ان سخت اصول و ضوابط کا نفاذ ممکن نہیں تھا جو عام طور پر دنیا میں سیاسی جماعتوں میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ طالب علم سرانجام ایک مرحلے میں ریسرچ اور تحقیقات تک پہنچتا ہے۔ اس زمانے میں 'تودہ پارٹی' ایک سرگرم پارٹی تھی۔ بہت وسیع تنظیم تھی۔ روسیوں سے رابطے میں تھی بلکہ انہیں کے لئے کام کر رہی تھی۔ لیکن یونیورسٹیوں میں بہت سے جماعتی حقائق کو طالب علموں سے پنہاں رکھنے پر مجبور تھی۔
اس تحریک کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اشخاص پر منحصر نہیں ہوتی ہے۔ یعنی تحریک شریف ٹینیکل یونیورسٹی میں ہے، یہ آج بھی ہے، دس سال پہلے بھی تھی اور دس سال بعد بھی رہے گی۔ لیکن آپ نہ دس سال پہلے یہاں تھے اور نہ ہی دس سال بعد یہاں رہیں گے۔ یہ تحریک ہے لیکن افراد پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق موجودہ ماحول اور فضا سے ہے۔
اس کی پانچویں خصوصیت جو بہت اہم ہے یہ ہے کہ ان باتوں کے مقابلے میں جو فطرت انسانی کی نگاہ میں بری ہیں، جیسے ظلم ، زور زبردستی، امتیاز، بے انصافی، دھوکہ و فریب ، دوغلا پن اور نفاق، یہ تحریک ان باتوں کی مخالف ہوتی ہے۔ ابتدائے انقلاب میں منافقین کے گروہ (ایم کے او) نے انقلابی ماحول سے فائدہ اٹھا کے نوجوانوں اور طالب علموں میں دراندازی کر لی تھی لیکن جب معلوم ہو گیا کہ اس گروہ کے اراکین منافق ہیں تو اکثریت اس سے پلٹ گئی۔ ان کو منافق کیوں کہا؟ اس لئے کہ ان کا دعوی یہ تھا کہ ان کی تنظیم کی بنیاد دینی آئیڈیالوجی پر ہے اور اسی بنیاد پر جدوجہد اور مستقبل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے عمل سے معلوم ہوا کہ ان کے یہاں دینی آئیڈیالوجی ہے ہی نہیں بلکہ ان کی فکر اشتراکی اور مارکسی ہے اور وہ بھی خالص مارکسی بھی نہیں ہے بلکہ ایک مخلوط بکھری ہوئی اشتراکی فکر ہے اور عمل میں ان کی سرگرمیاں اور کوششیں اقتدار پرستی پر استوار ہیں۔ ان کی پوری کوشش اقتدار اور حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے تھی جس کے قیام میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ایک تنظیم اور گروہ کے عنوان سے کوئی کردار نہیں تھا۔ اگر چہ ممکن ہے کہ ان کے بعض افراد کا عوام میں کوئی کردار رہا ہو۔ لہذا چونکہ ان کی منافقت معلوم ہو گئی اور یہ پتہ چل گیا کہ ان کا ظاہر و باطن ایک نہیں ہے، جو وہ بولتے ہیں اور جو ان کے دل میں ہے ان میں مطابقت نہیں ہے، ان کا دعوی اور ان کا کام ایک نہیں ہے، اس لئے طالب علموں نے ان سے منہ موڑ لیا۔
یونیورسٹیوں سے مخصوص اس تحریک کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ اس تحریک میں صرف جذبات کی حکمرانی نہیں ہوتی بلکہ جذبات کے ساتھ ہی منطق، معقولیت، فکر، بصیرت، تعلیم اور سمجھنے کی خواہش اور تحقیق کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ البتہ ان میں کمی و زیادتی بھی ہوتی ہے کبھی کوئی چیز کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے خیال میں طالب علموں کی تحریک یا طالب علموں کی بیداری کی یہ خصوصیات ہیں۔ جو لوگ اہل نظر ہیں وہ جستجو کریں اور دیگر خصوصیات تلاش کریں جو یقینا ہیں لیکن میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔
میرے عزیزو! اس بات کو جان لیجئے کہ طالب علموں کی تحریک نے انقلاب کے لئے بہت کام کیا ہے۔ انقلاب سے پہلے بہت سی عوامی مجاہدتوں میں طلبا کی شرکت نمایاں رہی ہے۔ وہ ان مجاہدتوں میں موجود اور سرگرم رہے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا زیادہ مشاہدہ مشہد سے تعلق رکھتا ہے۔ مشہد میں طلبا کے ماحول میں میں سرگرم تھا۔ تہران آتا تھا تو یہاں بھی یہی تھا۔ مختلف یونیورسٹیوں میں جاتا تھا، طالب علموں کا مجھ سے رابطہ تھا اور میں قریب سے دیکھتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ موجودہ وقت ہمارے ملک کے بہت سے اعلی عہدیدار اس زمانے میں یونیورسٹیوں میں طالب علم تھے جو ہم سے رابطے میں تھے۔ انقلاب کے آغاز سے آج تک یہ کردار ختم نہیں ہوا ہے۔ جو لوگ طالب علموں کے امور سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں میں ذمہ دار عہدوں پر رہے ہیں، اگر اس موضوع میں ان کی دلچسپی ہوتی تو شاید بہت زیادہ فوائد سامنے آتے۔ لیکن اس کے باوجود طالب علموں کی اس تحریک، بیداری اور طالب علمی کے محرکات کے بہت فوائد ہیں جن میں سے چند کا بطور نمونہ میں ذکر کروں گا۔
اس کا ایک نمونہ تہران یونیورسٹی کا واقعہ ہے کہ الحادی گروہوں نے آکے تہران یونیورسٹی پر قبضہ کر لیا۔ اس کے کمروں، اس کے ہالوں اور اس کے مراکز کو انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف سازشوں کے مراکز، اسلحے کے گودام اور جنگ کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے پورے ماحول کو یرغمال بنا لیا تھا، یعنی خوف و وحشت کی ایسی فضا قائم کر دی تھی کہ اس دور کے حکام ہی نہیں، اس وقت عارضی اور عبوری حکومت تھی، اس کے حکام میں اس قسم کے میدانوں میں اترنے کی ہمت اور طاقت و توانائی نہیں تھی، وہ تو اپنی جگہ پر تھے، بہت سے انقلابی افراد کے دلوں پر بھی خوف طاری ہو گیا تھا۔ خود تہران یونیورسٹی کے اندر انھوں نے بہت زیادہ خوف و وحشت کی فضا قائم کر دی تھی۔ میں بھول نہیں سکتا کہ انہیں سخت ترین ایام میں ایک دن میں خود یونیورسٹی میں تھا اور میرا ہفتے وار پروگرام تھا۔ تہران یونیورسٹی کی مسجد میں اس دن معمول کے مطابق میرا پروگرام تھا۔ میں پہنچا تو دیکھا کہ یونیورسٹی بالکل خالی ہے۔ مسجد میں پہنچا تو شاید بیس تیس سے زیادہ لوگ مسجد میں نہیں تھے۔ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو کچھ لوگ آئے اور انھوں نے کہا کہ جناب! جلدی سے یہاں سے چلے جائيں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ معلوم ہوا کہ انھوں نے یونیورسٹی پر قبضہ کر رکھا ہے اور مارنے اور قتل کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کن لوگوں نے استقامت دکھائی؟ خود طلبا نے۔ طالب علموں کی بہت ہی پرجوش اور موثر فعالیت اور سرگرمی کی پہلی علامت اسی معاملے میں ظاہر ہوئی۔ یونیورسٹی میں نیم تعطیل کی کیفیت تھی لیکن طلبا، کچھ خالص انقلابی، زندہ دل اور پرجوش طالب علم آئے، یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور ان لوگوں سے اس کو پاک کر دیا۔ یہ واقعہ جو میں نے عرض کیا انیس سو اناسی کا تھا۔ یہ ایک نمونہ ہے۔
اگر طلبا کے تعلقات و روابط نہ ہوتے جو انقلاب کی برکت سے مستحکم تر ہو گئے تھے تو یہ کام اتنی اچھی طرح اور شفافیت کے ساتھ انجام نہ پاتا۔ اس زمانے میں طلبا انقلاب کے بنیادی شعبوں میں بھی فعال تھے۔ سپاہ پاسداران، تعمیری جہاد اور ملک کے مختلف شعبوں میں (یونیورسٹیوں کے طلبا فعال تھے) اس کے بعد جنگ شروع ہو گئی۔ یہ شہدا جن کا میں نے نام لیا، یہ سب طالب علم تھے۔ اہل علم و تعلیم تھے۔ ان میں سے بعض کی استعداد اور صلاحیتیں بہت اچھی تھیں لیکن انھوں نے اپنے وجود کو انقلاب اور اس کی ضروریات کے لئے وقف کر دیا تھا۔ میں اپنے دوستوں میں ہمیشہ اس جملے کو دہرایا کرتا تھا اور اس وقت آپ کے درمیان کہتا ہوں کہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ کوشش کرے، وقت کی ضرورت کو سمجھے اور اس کو پورا کرے۔ اگر آپ تاریخ کے اس لمحے کی ضرورت کو نہ سمجھے، اس کو پورا نہ کیا، کل سمجھے تو وقت گزر گیا، اب دیر ہو چکی ہے! ایک پروڈکشن لائن کی طرح جو چلتی رہتی ہے، ٹیکنیشیئن، محنت کش، انجینیئر اور ماہرین سب اپنی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ جب یہ پٹی آپ کے سامنے پہنچی تو جو کام آپ کے ذمہ ہے اس کو انجام دیں۔ اگر انجام نہ دیا تو اب وقت گزر گیا، اب وہ آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد جو پروڈکٹ آئے گا وہ دوسرا ہوگا۔ تاریخ، زمانہ اور معاشرے کی ضرورتیں بھی اسی طرح ہیں۔ یہ وہ کام ہے جس کو نوجوان خاص طور یونیورسٹیوں کے طلبا اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ وہ اس کو جان کے اور سمجھ کے اس کے مطابق کام کر سکتے ہیں اس لئے کہ ان کے اندر توانائی ہے، وہ فعال ہیں، ان کی آںکھیں کھلی ہیں، زبان گویا ہے۔ مستقبل کا تعلق بھی انہیں سے ہے۔ وہ اپنے لئے کام کرتے ہیں۔
مستقبل آپ کا ہے۔ آج انھیں نوجوانوں میں سے کچھ لوگ اہم عہدوں پر ہیں، حکومت میں مختلف شعبوں میں خدمت میں مصروف ہیں۔ طالب علمی کے زمانے کی سعی و جدوجہد، طلبا کی تحریک اور طلبا کی بیداری میں سرگرم فعالیت کا قابل افتخار ماضی اور یادیں ان کے ساتھ ہیں۔ یہ طلبا کی تحریک اور بیداری کی برکتیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ آج طالب علم ہیں، اگر اس ماحول میں، اس تحریک میں ان خصوصیات کے ساتھ جن کا میں نے ذکر کیا، اگر یہ خصوصیات نہ ہوں تو یہ کچھ اور چیز ہوگی اور اس کی یہ برکات بھی سامنے نہیں آئيں گی۔ اگر آپ اس تحریک میں ان خصوصیات کے ساتھ کام کریں تو آپ کے انقلاب، آپ کے ملک، آپ کی تاریخ اور خود آپ کے لئے، دنیا میں بھی اورعدل الہی کے روبرو بھی اس کی برکات نظر آئیں گی۔ اس صورت میں آپ بہت زیادہ اور عظیم کام انجام دیں گے۔ میں اس تحریک کو مثبت اور مبارک تحریک سمجھتا ہوں اور مجھے اس سے لگاؤ ہے۔ میں نے اس کے سرچشموں کو قریب سے پہچانا ہے۔ یہ سرچشمے پاک و طاہر ہیں۔ اس کی خصوصیات بھی وہی ہیں جو بیان کی گئیں۔ اگر امنگوں سے لگاؤ کی جگہ امنگوں سے بیزاری لے لے تو پھر یہ بات نہیں ہوگی بلکہ یہ کوئی اور چیز ہو جائے گی۔ اب چاہے اس کی شکل نئی ہو تب بھی اس کا باطن رجعت پسندی، بوسیدگی اور قدامت پرستی پر مبنی ہوگا۔ اس تحریک میں امنگوں کے لئے کام ہونا چاہئے۔ یعنی انصاف، مساوات، معنوی آزادی، سماجی آزادی، سماجی عزت و وقار اور دنیا میں قومی سربلندی کے لئے کام ہونا چاہئے۔ اگر یہ پاکیزگی اور خلوص کی کیفیت، سودے بازی اور رائج سیاسی بازیگری میں تبدیل ہو گئی، جو لوگ زیادہ عمر کے ہو گئے ہیں، وہ اس بازیگری سے اچھی طرح واقف ہیں، لیکن یہ نوجوان جو نئے نئے اس میدان میں اترے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ نئے کام ہیں اور کوئی نہیں سمجھتا، نہیں، یہ آزمائے ہوئے، پرانے حربے ہیں، اقتدار پرست پارٹیوں کے کام ایسے ہی ہوتے ہیں، اگر یہ سودے بازی اور بازیگری آ گئی تو پھر یہ تحریک وہ نہیں رہے گی۔
میں نے بہت سی طلبا تنظیموں کے اراکین سے جو میرے پاس آتے ہیں کہا ہے کہ طالب علموں سے میری محبت اور لگاؤ کی وجہ ان کی صداقت اور پاکیزگی ہے۔ ہر طالب علم میں یہ پاکیزگی اور صداقت محفوظ رہنی چاہئے۔ لیکن اگر فرض کریں کہ یہ کام عملا ممکن نہیں ہے کہ ایک ایک طالب علم میں، یہ صداقت، خلوص، اخلاص اور قلب و روح کی یہ پاکیزگی محفوظ رکھی جائے تو کم سے کم طلبا کی تحریک میں اس کو محفوظ رکھنا چاہئے۔
طلبا کی یہ تحریک اور یہ بیداری نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں، کبھی بھی اتنی ہمہ گیر نہیں رہی کہ یونیورسٹی کے سبھی طلبا اس میں شامل ہوں ۔ یونیورسٹی کے ماحول میں سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض میں فعالیت اور سرگرمی کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں ہمیں اپنا کام کرنے دو، ہمیں اپنی پڑھائی کرنے دو، ہم جلد سے جلد یہ ڈگری لے کے اپنے کام میں مشغول ہونا چاہتے ہیں! میری باتوں کا اطلاق ان پر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بہت اچھے نوجوان ہوں۔ میں ان کی برائی کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں یہ ان کے لئے نہیں ہیں۔ اس بیداری، اس تحریک، اس موومنٹ، طالب علموں کی اس تحریک میں یہ شامل نہیں ہیں۔ یونیورسٹی میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ طالب علمی سے زیادہ نوجوانی کے کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نوجوانی کے کاموں کے چکر میں رہتے ہیں اور وہ بھی 'الّا اللّمم' کے عنوان سے نہیں۔ 'لمم' جو قرآن میں کہا گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ بعض اوقات انسان سے یونہی کوئی کام اتفاقیہ طور پر بغیر توجہ کے سرزد ہو جاتا ہے۔ کون ہے جس سے گناہ اور خطا سرزد نہ ہوتی ہو؟ سوائے ان انسانوں کے جو بہت اعلی درجے پر فائز ہیں۔ بنابریں بعض اوقات اتفاقیہ طور پر کوئی کام ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ممکن ہے کہ کوئی انسان غلطی، غفلت اور جہالت کی وجہ سے کوئی نامناسب حرکت کر بیٹھے۔ اس کا حکم کچھ اور ہے لیکن بعض افراد ہیں کہ یہ حرکت، خطا اور نامناسب اقدام ان کا معمول کا کام ہوتا ہے۔ گویا ان کو ساری فکر اسی کی ہوتی ہے! یہ لوگ بھی میری بات سے تعلق نہیں رکھتے۔ البتہ ماضی اور انقلاب سے پہلے اس قسم کے افراد زیادہ تھے۔ لیکن انقلاب آنے کے بعد اس قسم کے افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ میری بحث ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے سامنے ہدف، امنگ اور احساس ذمہ داری ہے۔ طلبا کی تحریک انہیں افراد سے متعلق ہے۔ ورنہ وہ اگر کبھی کسی مظاہرے میں سامنے بھی آتے ہیں تو ان کی موجودگی مصنوعی، جھوٹی اور غیر حقیقی ہوتی ہے! بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اسی قسم کے افراد جنہیں ان کاموں کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں ہوتی، اجتماع میں بھی آتے ہیں۔ یعنی وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ سنجیدہ امور اور امنگوں سے متعلق کام ایسے نہیں ہیں جن میں اس قسم کے افراد کچھ کر سکیں۔
بنابریں دیکھئے! طالب علموں کی تحریک میں ان خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ مجھے یونیورسٹیوں کی مختلف قسم کی تنظیموں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی ایک حیثیت اور حالت رکھتی ہے۔ میری باتیں، تنظیموں سے بالاتر اور ان تمام لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جن کے اندر جذبات و احساسات پائے جاتے ہیں البتہ وہ جذبات و احساسات جن کے لئے میں نے کہا کہ اس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور بہت ہی اہم عناصر پر استوار ہیں جیسے نوجوانی، پاکیزگی، صداقت، توانائی، اصولوں اور امنگوں سے لگاؤ۔ ان خصوصیات کی حفاظت ضروری ہے۔ البتہ طلبا کی تحریک کے لئے کچھ خطرات بھی ہیں جن سے ڈرنا اور پرہیز کرنا ضروری ہے۔
طلبا کی تحریک کے لئے ایک خطرہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ ہے کہ نا پسندیدہ اور غلط عناصر اس پر قبضہ کرکے اس سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ایک دور میں جب ہم بھی نزدیک سے ان کے کاموں کو دیکھ رہے تھے اور ان سے واقف تھے، بعض لوگ تھے جو یہ چاہتے تھے کہ طلبا کی تحریک ختم ہو جائے! جہاں بھی نوجوانوں کی کوئی تحریک بالخصوص یونیورسٹی طلبا کی تحریک ہوتی تھی، یہ اس سے منھ موڑ لیتے تھے، اس تحریک کو دیکھنا انہیں گوارا نہیں تھا۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئي میدان ہے جہاں یونیورسٹی طلبا اور ملک کے نوجوان بولتے ہیں اور ان کی تحریک فیصلہ کن ہے تو پہلے سینے کے بل، بہت خاموشی اور چپکے سے اس طرح کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے، پھر تھوڑا بلند ہوکے، بہت معمولی سا ظاہر ہوکے اور اس کے بعد کھڑے ہوکے پوری طرح سامنے آکے ، میدان میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی ہیں! اگر کچھ اقتدار پرست، بد نیت اور غلط عناصر جن کا ماضی خراب ہے، طلبا کی تحریک کی طرف آئيں، اس میں شامل ہو جائيں اور اس پر اپنے پنجے گاڑ دیں تو یہ بات خطرناک ہوگی ۔ طلبا کی تنظیموں اور انجمنوں کے اراکین جو میرے پاس آتے ہیں میں نے ان سے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہ خطرناک عناصر کون ہیں؟! چونکہ ممکن ہے کہ یہ تقریر نشر ہو، یہاں آپ کے سامنے نام نہیں لوں گا۔ لیکن میں نے انہیں ان کے نام بھی بتائے ہیں۔ بعض اوقات برے اور بد نیت لوگ پاک اچھے اور صاف نیت کے افراد اور اچھی تحریک سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس پر انسان کا دل کڑھتا ہے۔ اگر اس کا بس چلے تو یہ نہ ہونے دے۔ یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ یونیورسٹی طلبا کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ افراد یونیورسٹیوں کے طلبا کا خیال رکھیں۔ اس سے مقصد فوت ہو جائے گا۔ خود طلبا کو اپنا خیال رکھنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے کہ بری نیت والے افراد اور عناصر، بری نیت والی تنظیمیں، بری نیت رکھنے والے افراد کا کوئی مجموعہ برے ماضی کے مالک اور بدنام عناصر ان کے قریب نہ آ سکیں۔ اگر وہ کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو جائيں خود نیک کام کریں طلبا کی انجمن اور تحریک سے سروکار نہ رکھیں۔
طلبا کی تحریک کے لئے ایک اور خطرہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، امنگوں سے دوری کا ہے۔
میرے عزیزو! دیکھئے! انقلاب سے برسوں پہلے ایک مجرمانہ واقعہ 16 آذر ( مطابق 6 یا 7 دسمبر) کو پیش آیا۔ ابتدائے انقلاب سے ایسا کام کیا جا سکتا تھا کہ سولہ آذر کے واقعے کو فراموش کر دیا جائے. اس لئے کہ بہت زیادہ حوادث رونما ہوئے تھے! لیکن نہیں، ملک کے حکام اور ملکی مسائل میں دلچسپی رکھنے والے چاہتے ہیں کہ اس دن کی یاد زندہ رہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس دن یونیورسٹی میں حق بات کی وجہ سے ایسا واقعہ رونما ہوا کہ بعد میں جلادوں کے محاذ نے نوجوانوں کے اسی ہدف کی وجہ سے، جو ایک اعلی ہدف تھا، ان سے مقابلہ کیا جو تین افراد کے مارے جانے پر منتج ہوا۔ اس دن کا مسئلہ کیا تھا؟ امریکا کی مخالفت۔ کس زمانے میں؟ اس زمانے میں جب امریکی سیاست، امریکی حکومت اور امریکا کے فوجی نیز انٹیلیجنس کے عناصرملک کے تمام شعبوں پر مسلط تھے۔ اس ملک میں آشکارا اور خفیہ طور پر سب کچھ امریکا کے ہاتھ میں تھا۔ آج جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی اس بات پر کہ ایران اسلامی ان کی طرف نہیں جا رہا ہے انگارے چبا رہے ہیں، یہ اسی زمانے کی یاد کی وجہ سے ہے۔ اس لئے کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ کھڑے ہوکے پورے علاقے پر، عرب ملکوں پر ترکی وغیرہ پر فخر کے ساتھ نظر دوڑاتے تھے اور ان پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے تھے۔ اس لئے کہ وہ خود کو اس جگہ کا مالک سمجھتے تھے! اس بات پر بھی توجہ رکھیں: جغرافیائی لحاظ سے آپ کا ملک بہت ہی حساس مرکز میں واقع ہے۔ البتہ اس دور میں سوویت یونین کے وجود کی وجہ سے امریکیوں کے لئے اس کی اہمیت اور زیادہ تھی۔ آج سوویت یونین نہیں ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وسطی ایشیا کے ملک ہیں جو بہت ہی اہم ہیں۔ دوسرے روس ہے جو مغرب اور بالخصوص امریکا کے لئے بہت اہم ہے۔ اس وقت روس زندگی اور موت کے درمیان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر روس جو دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، دنیا کے حساس ترین علاقے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا، طاقت و قدرت حاصل کر لی اور امریکا کے زیر اثر نہ رہا تو امریکا اور دنیا کے یک قطبی ہونے کے لئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ یعنی امریکیوں کے لئے وہی سابق سوویت یونین کی طرح ہو جائے گا۔ لہذا روس بھی اہم ہے۔ بنابریں آج اگر چہ سوویت یونین نہیں ہے، لیکن چونکہ وسطی ایشیا ہے، چونکہ روس ہے، چونکہ اس طرف عراق اور شام جیسے ممالک ہیں جو کسی زمانے میں سوویت یونین کے زیر اثر تھے اور آج امریکی انہیں اپنے تسلط میں لینا چاہتے ہیں، لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کی جغرافیائی اور جیوپولیٹیکل پوزیشن اس خطے میں منفرد اور بہت اہم ہے۔
امریکی دیکھ رہے ہیں۔ یہاں ان کے قدم جمانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حتی ایک معمولی سفارتخانہ، مفادات کا محافظ دفتر بھی نہیں ہے! آج حتی اس ملک میں امریکا کا کوئی کارندہ بھی نہیں ہے۔ ان کے مفادات کا محافظ دفتر سوئزرلینڈ کے سفارتخانہ کے پاس ہے۔ یہاں امریکیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کوشش بھی کی ہے۔ ایک عرصے سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ لیکن ہمارے حکام نے مزاحمت کی ہے اور اجازت نہیں دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ تہران میں مفادات کے محافظ دفتر میں تعینات ہوں۔ دراصل وہ چاہتے ہیں کہ خود کو فروخت کرنے والے عناصر سے رابطے کے لئے تہران کے بیچ میں ایک سیاسی اور انٹیلیجنس کا مرکز قائم کریں۔ یہ ان کا مقصد ہے! آج ان کی برہمی کی ایک وجہ وہ پوزیشن ہے جو انہیں انقلاب سے قبل یہاں حاصل تھی۔ ان حالات میں یونیورسٹی کے طلبا، امریکا کے اس وقت کے نائب صدر کے یہاں آنے پر برہم تھے اور انھوں نے اپنی برہمی کا اظہار سولہ آذر کو اس شکل میں کیا۔ آج اس واقعے کو تقریبا چالیس سال ہو رہے ہیں لیکن 16 آذر کا واقعہ اب بھی زندہ ہے۔
اسلامی انقلاب آیا اور اس نے ملک کا سیاسی نظام بالکل تبدیل کر دیا۔ سیاسی جہت ماضی سے یکسر مختلف ہو گئی۔ ایک خود مختار نظام، ایک دینی اور اسلامی نظام اور ایک سو فیصد عوامی نظام اقتدار میں آیا ہے۔ ایران ان تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا جو امریکا کے تسلط سے نالاں ہیں۔ بہت سی اقوام ہیں، ان کی تعداد کم نہیں ہے، جو ایران کے امریکا مخالف نعروں سے خوش ہوتی ہیں۔ میرے لئے اگر ممکن ہوتا تو ایسے ایسے نام لیتا کہ آپ کو تعجب ہوتا۔ مشہور اور بڑے ممالک ہیں جو اس بات پر کہ یہاں ایک ایسی قوم ہے جو پوری قوت سے امریکا کی تسلط پسندی کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے، خوش ہیں، ان کے اندر خوشی کے جذبات ہیں اور وہ صراحت کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں! اب ان حالات میں کچھ لوگ آئیں اور طالب علم کے عنوان سے سولہ آذر کی امریکا مخالف تحریک کے مقابلے میں کھڑے ہوں یعنی انتہائی کھوکھلے، کمزور، غیر منطقی اور غیر معقول بنیادوں پر امریکا کی طرف جھکاؤ پیدا کریں۔ یہ طلبا کی تحریک سے منھ موڑنا ہے۔ یہ طلبا کی تحریک نہیں ہے۔ بلکہ یہ کوئی اور چیز ہے۔ یہ یونیورسٹی طلبا کی تحریک کے برعکس ہے۔ امریکا کی مخالفت کے مسئلے کو بہت ہی معمولی، کمزور اور بے بنیاد جماعتی رجحانات کے قالب میں پیش کریں تاکہ یہ قضیہ ہی ختم ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی طلبا کی تحریک کو در پیش خطرات میں سے ہے۔ بنابریں طلبا کی تحریک کو در پیش ایک خطرہ، امنگوں سے دوری کا بھی ہے۔ یا مثال کے طور جب ملک میں سماجی انصاف کی بات ہو تو یونیورسٹیوں کے طلبا کو اس کی حمایت کرنا چاہئے۔ سماجی انصاف وہ چیز ہے کہ حتی وہ افراد بھی جو سیاسی وجوہات یا گوناگوں محرکات کے تحت اس بات پر مصر تھے کہ اس کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے وہ بھی اس کو نظر انداز نہ کر سکے اور سماجی انصاف کی بات کرنے پر مجبور ہو گئے۔ دنیا میں سامراجیوں، تسلط پسندوں اور عالمی لٹیروں کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو سماجی انصاف کا مخالف ہو اور اس سے منہ موڑ سکے۔ ملک میں سماجی انصاف کا نعرہ پیش کیا جا رہا ہے، اس نعرے کی حمایت کون کرے؟ کس کو اس بارے میں دوسروں سے زیادہ سوچنا چاہئے؟ اس کے لئے کس کو کام کرنا چاہئے؟ کس کو سماجی انصاف کے نفاذ اور اس کے عملی ہونے کی راہوں کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا چاہئے اور اس بارے میں سیمیناروں اور کانفرنسوں کا اہتمام کرنا چاہئے؟ یہ کام یونیورسٹیوں کے طلبا نہیں کریں گے تو کون کرےگا؟ بنابریں اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ یونیورسٹی طلبا کی تحریک اور طلبا کی بیداری مخالف سمت میں نہ جائے۔ لہذا طلبا کی تحریک کو در پیش خطرات میں سے ایک امنگوں کی فراموشی کا خطرہ ہے۔
طلبا کی تحریک کو در پیش ایک اور خطرہ ان کے معیار کا گر جانا اور سطحی ہو جانا ہے۔ میرے عزیزو! سطحی انداز میں سوچنے سے سختی سے پرہیز کریں۔ عمیق فکر اور گہرائی کے ساتھ سوچنا یونیورسٹی کے طالب علم کی خصوصیت ہے۔ جو بات بھی سنیں، اس پر غور و فکر کریں۔ اسلام میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ "تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ سبعین سنۃ" ایک لمحے اور ایک گھنٹے کی فکر برسوں کی عبادت سے بہتر ہے، اس لئے کہ اگر آپ نے فکر کی تو آپ کی عبادت بھی معنی و مفہوم کی حامل ہو جائے گی، آپ کی زندگی با معنی ہو جائے گی، آپ کی مجاہدت با معنی ہو جائے گی۔ آپ اپنے دوستوں کو پہچانتے ہیں اور دشمنوں کو بھی پہچانتے ہیں۔ فرض کریں کہ کسی محاذ پر کچھ لوگ ایسے آ جائیں جو اپنے محاذ اور دشمن کے محاذ کا فرق نہ سمجھ سکیں۔ حیران و پریشان اپنے ہی گرد گھومتے رہیں۔ کبھی ادھر فائرنگ کریں کبھی ادھر فائرنگ کریں، کبھی اوپر کی طرف فائرنگ کریں اور کبھی اپنے ہی اوپر فائرنگ کر لیں! دیکھئے اگر فکر نہ ہو تو انسان اس طرح ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ شور و غل مچاکے، ہلڑ ہنگامہ کرکے اور جھوٹے نیز بے بنیاد رنگا رنگ نعرے لگاکے طلبا کی انجمنوں اور ان کی تحریک کو اس سمت میں لانا چاہتے ہیں۔ یہ طلبا کی تحریک کے لئے خطرناک ہے۔ سوچنا چاہئے، غور و فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر کے ساتھ صحیح انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر اس نے غلط انتخاب بھی کر لیا تو چونکہ صاحب فکر ہے اس لئے اس سے آسانی سے بات کی جا سکتی ہے۔ جو شخص اہل فکر نہیں ہے، وہ جو بھی انتخاب کر لے، اس کے انتخاب میں اگر غلطی ہو تو اس سے منطقی بات نہیں کی جا سکتی۔ وہ اپنی نادانی، جہالت اور تعصب میں گرفتار ہے، لیکن اگر کوئی اہل فکر ہو اور اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو کوئی خیرخواہ اس سے بات کرکے اس کو بتا سکتا ہے کہ اس سے خطا ہوئی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے۔ سطحی سوچ نہیں ہونی چاہئے۔ ہر سلوگن، ہر نعرے اور ہر بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر سوچنا اور فکر کرنا چاہئے۔ تمام معاملات میں فکر بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ معقول اور عقلمند انسانوں سے فکر کی توقع رکھی جاتی ہے۔
یونیورسٹی طلبا کی تحریک کو در پیش ایک اور خطرہ پارٹیوں اور گروہوں کے دام فریب میں آنے کا ہے۔ اس بارے میں میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے۔ ہوشیار رہنا چاہئے، مختلف پارٹیوں اور گروہوں کے خطرناک آکٹوپس سے بچنا چاہئے، ان کے دام فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ اس لئے کہ اگر ان کے دام فریب ميں آ گئے تو وہ اس آزاد فکر رکھنے والے مجموعے اور تحریک کی مثبت خصوصیات سلب کر لیں گے اور اگر یہ ہو گیا تو پھر دشمنان انقلاب کے اختیار میں چلے جائيں گے۔ یہ اتنی خطرناک چیز ہوگی کہ زندگی، سرمایہ اور مستقبل سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف حسرت رہ جائے گی۔
میری تقریر تھوڑی طولانی ہو گئی۔ آخر میں میں صرف یہ سفارش کروں گا کہ آپ حضرات نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں۔ نہج البلاغہ بہت زیادہ بیداری اور ہوشیاری پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے اور اس پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اپنے جلسوں میں نہج البلاغہ اور امیر المومنین صلوات اللہ و سلامہ علیہ کے فرمودات کی بات کریں۔ اگر خداوند عالم نے توفیق عطا کی اور ایک قدم آگے بڑھے تو پھر صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کریں جو بظاہر صرف دعاؤں کی کتاب ہے لیکن نہج البلاغہ کی طرح یہ بھی درس، سبق، حکمت اور کامیاب زندگی کی رہنمائیوں کی کتاب ہے۔ بہت سی باتیں کہنے سے رہ گئیں لیکن چونکہ دوپہر کا وقت ہے اور زیادہ وقت بھی نہیں بچا ہے اور میں آپ کے سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں اس لئے اپنی بات یہیں پر ختم کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1 اکتوبر 1999 کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطبوں میں امام خمینی کی شخصیت کا جائزہ لیا اور تین اہم خصوصیات کو بیان کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے معروضی حالات پر تفیصیلی بحث کی۔
نماز جمعہ کے خطبوں کا اردو ترجمہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پہلی آذر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق بائیس نومبر انیس سو اٹھانوے کو حفظ و قرائت قرآن کریم کے پندرہویں مقابلے کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا۔ آپ نے تلاوت کلام پاک کی برکتوں کا ذکر کیا اور الفاظ قرآن اور مفاہیم کلام پاک پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مختلف شعبوں میں ملت ایران کی ترقی و کامیابی اور عالمی سامراج کے تسلط سے آزادی کو قرآن پر عمل آوری کا ثمرہ قرار دیا۔ آپ نے شاہ کے طاغوتی دور میں قرآن کی تعلیم کے سلسلے میں بے توجہی اور اسلامی انقلاب کے بعد اس میدان میں ہونے والی پیش رفت کی جانب اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھبیس آبان تیرہ سو ستتر مطابق سترہ نومبر انیس سو اٹھانوے کو عید بعثت کے موقع پر ملک کے اعلی حکام اور کارکنوں سے ملاقات میں بعثت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ایران کے اسلامی انقلاب میں اسلامی تعلیمات کے اثرات کی نشاندہی کی۔
تیرہ آبان اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کا اہم دن ہے۔ اس دن ایرانی طلبہ نے تہران میں واقع امریکی سفارت خانے پر جو ایران کے خلاف جاسوسی کی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل ہو چکا تھا قبضہ کر لیاتھا۔ ایرانی طلبہ کے اس زیرکانہ اور دانشمندانہ اقدام سے ملک بہت بڑے خطرے سے محفوظ ہو گیا۔ اس دن کو ایران میں سامراج کے خلاف جد و جہد کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دو آذر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق تیئیس نومبر انیس سو اٹھانوے کو فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت اور ایران میں منائے جانے والے یوم پاسدار کے موقع پر اپنے خطاب میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے اخلاص، توکل بر خدا اور موقع شناسی کو آپ کی تحریک کی کامیابی کی تین اہم وجوہات قرار دیا اور فرمایا کہ یہ تینوں خصوصیات امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں بھی موجود تھیں لہذا ایران کا اسلامی انقلاب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ آپ نے اپنے خطاب میں عالمی سامراج کے مالی، فوجی اور تشہیراتی حربوں کا بھی تجزیہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس مہر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق اکیس اکتوبر انیس سو اٹھانوے عیسوی کو شہدا کے خاندانوں اور عوامی طبقات کے اجتماع سے خطاب میں ماہ رجب کی آمد اور اس مہینے کی برکتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی نظام کی تشکیل کے ثمرات کی جانب اشارہ کیا اور اس نظام کی تشکیل سے معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو ہمہ گیر قرار دیا۔ آپ نے ماہرین کی کونسل کے مجوزہ انتخابات اور عوام کے حق رائے دہی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھبیس مہر تیرہ سو ستتر ہجری شمسی مطابق اٹھارہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو سید الشہدا فوجی ڈویژن کی مارننگ اسمبلی سے خطاب میں فوج کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ملک اور قوم کے تعلق سے فوج کے فرائض بیان کئے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت پر قصیدہ گو شعرا اور منقبت خوانوں نے انیس جمادی الثانی مطابق گیارہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب نے محمد و آل محمد علیھم السلام کے قصیدے پڑھنے والوں کی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے مدح کے اشعار کے تعلق سے اہم ہدایات دیں۔
بسم اللہَ الرّحمن الرّحيمالحمد للَّہ ربّ العالمين والصّلاۃ والسّلام على البشير النذير والسّراج المنير سيّدنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على آلہ الاطيبين الطاھرين و علىالخيرۃ من اصحابہ المنتجبينمسلمانوں کی سب سے بڑی سالانہ ملاقات کی خوشخبری کے ساتھ حج کے ایام آ گئے ہیں، اور بجا ہوگا کہ اشتیاق سے لبریز لاکھوں دل، جنہیں ان ایام میں اللہ تعالی کے فیض قربت سے استفادے کا موقع حاصل ہوگا، مسلسل جوش و خروش اور اپنے آپ کو تیار کرنے کے ہیجان میں رہیں، اور حج کے دسیوں لاکھ خواہشمند مسلمان، جن کا نام اس سال، اس موقع سے استفادہ کرنے والوں (حج سے مشرف هونے والوں) میں نہیں ہے، سعادت حاصل کرنے والوں کے ہر دن اور ہر لمحے کو یاد کرتے ہوئے اور ان کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرتے ہوئے اپنے دل و دماغ کو معطر کریں، اور تمام صاحبان دل مسلمان، حج کے ایام کو کسی نہ کسی طرح حج اور اس کے جلال و جمال کی نشانیوں کے ساتھ گزاریں۔ہر سال حج کے مناسک، ایک اہم واقعہ ہوتے ہیں اور بجا ہوگا کہ ان ایام میں پورے عالم اسلام کے لوگوں کے افکار، توجہ، غور و فکر اور احساسات کا اصلی مرکز یہی مناسک ہوں اور ہر کوئی اپنی معنوی، فکری اور سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے ان کے بارے میں کسی نہ کسی طرح غور و فکر کرے اور اسی ماحول میں پہنچنے کی کوشش کرے۔ بہت ہی واضح سی بات ہے کہ جن افراد کو حج سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے وہ اس ذمہ داری اور توقع کے مرکز میں ہیں اور چونکہ ان کے جسم، جان، افکار اور کوششیں حج اور اس کی برکتوں اور اثرات سے وابستہ ہیں لہذا بہتر ہے کہ وہ اس سے معنوی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔اگرچہ حج کی برکتیں، حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہیں اور لایزال رحمت کی یہ بارش، انسان کے دل اور افکار کی خلوتوں سے لے کر سیاست اور معاشرے، مسلمانوں کے ملی اقتدار اور مسلم اقوام کے درمیان تعاون کے میدان تک کو بارور اور زندگی کو اشتیاق سے شرابور کر دیتی ہے لیکن شاید کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور اپنی آنکھوں کو حقائق کی جانب کھولنے اور سوچنے سمجھنے کی خداداد صلاحیت سے استفادہ کرنے پر مائل شخص کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ، بے نظیر معرفت اور شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتا اور کوئی بھی دوسرا دینی موقع حج میں حاصل ہونے والے شناخت کے اتنے سارے مواقع کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا۔یہ معرفت، کچھ باتوں کی شناخت سے عبارت ہے؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں:ایک فرد کی حیثیت سے اپنی شناخت، اسلامی امت کے عظیم مجموعے کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، اس امت واحدہ کے نمونے کی شناخت، خدا کی عظمت و رحمت کی شناخت اور دشمن کی شناخت۔ایک فرد کی حیثيت سے اپنی شناخت، اپنے وجود کے بارے میں غور و فکر کرنے اور اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کی شناخت کرنے کے معنی میں۔جس جگہ مادی تشخص اور مال، عہدہ، نام، زیور اور لباس اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور انسان فرق و امتیاز کے ان اسباب سے علیحدہ ہوکر دوسرے لاکھوں انسانوں کے ساتھ طواف، سعی، نماز، افاضے اور وقوف کرتا ہے اور امیر اور غریب، حاکم اور رعیت، عالم اور جاہل، سیاہ اور سفید سب کے سب ایک لباس میں اور ایک انداز میں خدا کی جانب رخ کرتے ہیں، اس کی جانب دست نیاز بڑھاتے ہیں اور اپنے آپ کو جمال، عظمت، اقتدار اور رحمت کے مرکز میں پاتے ہیں، اس جگہ ہر انسان غور و فکر کرکے خداوند متعال کے مقابل اپنی کمزوری اور تہیدستی اور خدا سے تقرب کے سائے میں اپنی بلندی، اقتدار اور عزت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے، اپنے کمزور وجود کے بارے میں باطل اور غرور انگیز توہم کو دور پھینک سکتا ہے اور خودپسندی و نخوت کے شیشے کو چور چور کر سکتا ہے جو اس کی سب سے بری عادات اور اطوار کا سبب ہے۔ دوسری جانب وہ عظمت کے سرچشمے سے رابطے کی حلاوت کو چکھ سکتا ہے اور اس سے متصل ہو جانے نیز اپنے اندرونی بتوں سے دوری اختیار کرنے کو آزما سکتا ہے۔ یہ بنیادی شناخت، جو تمام عبادتوں کا جوہر اور اولیائے خدا کی دعا و مناجات کا مضمون ہے، انسان کو پاک و پاکیزہ بناتی ہے اور اسے اگلی شناخت کے لیے آمادہ اور کمال کی تمام راہیں طے کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ عام زندگی میں، دنیوی بکھیڑے، مادی جدوجہد کے لیے ضرورت سے زیادہ سرگرمیاں اور انسانوں کی روزمرہ کے زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والے جھنجٹ دل کو غافل بنا دیتے ہیں، اسے اس واضح و روشن معرفت سے باز رکھتے ہیں، باطل وہم و گمان کے جالوں میں پھنسا دیتے ہیں اور اس کے دل کو تاریکی اور ظلمت کی جانب کھینچ لے جاتے ہیں؛ حج ان تمام بیماریوں اور مسائل کا شافی علاج ہے۔ امت اسلامی کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، ان تمام حاجیوں حاجیوں، مسلمان اقوام اور اسلامی سرزمینوں کو دیکھنے کے مترادف ہے جنہوں نے اپنے لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف کے لیے روانہ کیا ہے۔ تمام حاجیوں پر نگاہ، اس عظيم اسلامی امت پر نگاہ ہے جو آج پوری دنیا میں دسیوں اقوام اور کروڑوں انسانوں سے مل کر تشکیل پائی ہے اور زندگی اور سماجی فلاح و بہبود کے اہم ترین مادی اور معنوی وسائل سے بہرہ مند ہے۔ نیز پوری انسانیت اور صنعتی تمدن اپنے تمام تر مادی وسعت کے ساتھ، اس کے اور اس کے بے پناہ وسائل و ذخائر نیز اس کی منڈیوں اور ثقافتی و علمی ورثے کے محتاج ہیں اور اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔اس عظیم حقیقت کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنے آپ کی شناخت، حاجی کو اپنے بھائیوں اور اقرباء کے ساتھ حقیقی اور جذباتی رشتوں سے متصل کرتی ہے اور جدائی اور تفرقے کے سحر کو باطل کر دیتی ہے جو برسوں سے کل کے استعمار اور آج کے سامراج کے ہاتھوں سے رنگ و نسل، زبان، مذہب اور قومیت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔طبقاتی دنیا کے سرغنہ یعنی وہ سیاستداں، جنہوں نے دنیا کو ہمیشہ طاقتور اور کمزور یا سامراجی اور پسماندہ جیسے دو طبقوں میں تقسیم کرنے اور پسماندہ اقوام کے خلاف طاقت اور اقتدار کے مرکز کو اپنے درمیان تقسیم کیے رکھنے کی کوشش کی ہے، گزشتہ دو صدیوں سے لے کر اب تک اسلامی اتحاد سے خوفزدہ رہے ہیں اور انہوں نے اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں! انہیں لوگوں نے جنہوں نے موجودہ عشرے میں بالکان کے مسلمانوں کے قتل عام یا یورپی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویے اور ناانصافی کے ذریعے یا ان باتوں کے سلسلے میں لاپرواہ رہ کر پورے یورپ کو عیسائي بنانے کا عزم ظاہر کیا اور عالم اسلام کے اتحاد کو مختلف قسم کے اہانت آمیز ناموں سے پکارا اور تبلیغ اور عمل کے ذریعے اس میں رکاوٹیں ڈالیں۔فرد فرد میں اس احساس کی تقویت کہ وہ ایک عظيم مجموعے کا جزو ہے اور اس کی صحیح ہدایت کو تفرقہ ڈالنے والے تمام ہتھکنڈوں پر غلبہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ کہ اس قومی اور مذہبی تشخص کو اسلامی امت کے مختلف میدانوں میں باقی رہنا چاہیے، اتحاد و یکجہتی کے فائدوں میں سے ہے اور اس پورے مجموعے کو بہرہ مند کرتا ہے اور اسلامی امت کے اتحاد میں پوشیدہ عزت و اقتدار، اس کے تمام اراکین اور اجزا کو حاصل ہوتا ہے۔حج میں طواف، سعی، نماز جماعت اور تمام اجتماعی عبادتیں اور مناسک، حاجی کو یہی سبق دیتے ہیں اور اسے اس کی روح کی گہرائیوں تک میں راسخ کر دیتے ہیں۔ اس امت واحدہ کے ایک نمونے کی شناخت کا مطلب ہے، اسلامی اتحاد کے عملی جامہ پہننے کی آرزو کی راہ میں ایک عملی قدم اور عالمی سیاست کے میدان میں ایک متحدہ اسلامی طاقت کا ظہور۔دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف زبانوں اور رنگوں کے ساتھ آنے والے حاجیوں کے جم غفیر کو دیکھنے سے مسلمان کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ذاتی، قومی اور ملی سرحدوں سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کا اسلامی فریضہ اس کے برادرانہ رویے کو ان کے ساتھ میل جول، ہمزبانی اور یکجہتی کی راہ پر آگے بڑھاتا ہے، اقوام کی خاص خبروں کو پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے اور دشمن کی تشہیراتی سازشوں کو جو ہمیشہ اور اس وقت ہمیشہ سے زیادہ حقائق کو تبدیل کرنے، جھوٹی خبریں تیار کرنے اور افواہیں پھیلانے میں مشغول ہے، ناکام بنا دیتا ہے اور علاقائیت، زبان اور اسی قسم کے خیالی فاصلوں کو ختم کر دیتا ہے۔ایک قوم کی کامیابی و کامرانی کی داستان سنا کر دوسری اقوام میں امید کی روح پھونک دیتا ہے اور ایک ملک کے تجربے کی تشریح کرکے ایک دوسرے ملک کو تجربہ کار بناتا ہے۔ افراد اور اقوام کے درمیان سے اکیلے پن اور تنہائی کے احساس اور ان کی نظروں سے دشمن کے رعب و دبدبے کو ختم کرتا ہے۔ ایک ملک کے اہم مصائب کو دوسروں سے بیان کرتا ہے اور انہیں ان کے حل کے لیے ترغیب دلاتا ہے۔حج کے ایام میں حاجیوں کا ایک جگہ پر قیام خصوصا عرفات اور مشعر میں وقوف اور منیٰ میں شب بسری یہ سب اس مفید اور کارساز شناخت کے بھرپور مواقع ہیں۔حج میں خداوند متعال کی عظمت و رحمت کی شناخت، اس گھر کی تعمیر پر غور کرنے کے مترادف ہے کہ جو خانۂ خدا ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کا بھی گھر ہے ؛ انَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكََّۃ مُبَارَكًا وَ ھُدًى لِّلْعَلَمِينَ.(1) (بلاشبہ (کعبہ) لوگوں کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے جو مکے میں ہے۔ یہ تمام عالمین کے لیے مبارک اور (باعث) رحمت ہے۔)اسی طرح یہ، وہ جگہ ہے جہاں کا رخ حاجت مند انسان کرتا ہے، اور وہ مقام بھی ہے جہاں دین الہی کی عظمت جلوہ افروز ہوتی ہے۔ یہ شکوہ و جلال، سادگی و عظمت کا ایک نمونہ، اولین صدائے توحید کی یادگار اور اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کا مقام بھی ہے، اور وہ جگہ بھی ہے جہاں قدم قدم پر صدر اسلام کے ان مجاہدین کے نقوش پا موجود ہیں جنہوں نے اس جگہ پر عالم غربت میں جہاد کیا، مظلومیت کے ساتھ یہاں سے ہجرت کی اور بڑے ہی مقتدرانہ اور فاتحانہ انداز میں یہاں واپس لوٹے اور اسے عربوں کی جاہلیت کی نشانیوں سے پاک کر دیا۔ اسی طرح یہ جگہ، خدا کے حضور گڑگڑانے والوں کے انفاس، عبادت کرنے والوں کے سجدوں کے نشانوں اور خدا کی مدح و ثنا کرنے والوں کے حاجت مند ہاتھوں کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ ابتدا میں خورشید اسلام کے طلوع اور آخر میں مہدی موعود کے ظہور کا مقام بھی ہے، مضطرب دلوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور تھک چکی روحوں کو امید عطا کرنے والا سرچشمہ بھی ہے۔فریضۂ حج کا وجوب اور اس کے مناسک کی ترتیب، عظمت کی علامت بھی ہے اور رحمت کی آیت بھی۔ اسی شناخت کے ذریعے ہی مسجدالحرام میں کعبۂ مکرمہ کا مشاہدہ کرتے ہی دل متغیر ہو جاتے ہیں، بڑی تیزی کے ساتھ صراط مستقیم سے ملحق ہو جاتے ہیں اور انسان تبدیل ہو جاتے ہیں۔ دشمن کی شناخت، ان تمام شناختوں کا نتیجہ اور ان کا تتمہ ہے۔ اس کے بغیر مسلمان کا دل اور ذہن، بغیر کسی حفاظت والے خزانے کی مانند ہے جو رہزنوں، دھوکے بازوں اور لٹیروں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہے۔ حج کے اعمال میں رمی جمرات، دشمن کی شناخت اور اس سے مقابلے کا مظہر ہے اور پیغمبر معظم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کے موقع پر مشرکین سے برائت و بیزاری کی آواز بلند کی اور حج کے دوران برائت کی آیتوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی آواز میں سنوایا۔ اگر کسی دن عالم اسلام اور اسلامی امت، جری دشمن کے وجود سے نجات حاصل کرلے اور یہ بات ممکن ہو سکے تو برائت کا فلسفہ بھی باقی نہیں رہے گا تاہم موجودہ دشمنوں اور دشمنیوں کی موجودگی میں دشمن کی جانب سے غفلت اور برائت کے سلسلے میں لاپرواہی بہت بڑی اور نقصان دہ غلطی ہوگی۔ اگر وہ قدیمی شناخت حاصل ہو جائے تو عالم اسلام کے دشمن بھی پہچانے جائيں گے۔ ہر وہ واقعہ یا شخص، یا حکومت و نظام کہ جو مسلمانوں کو ان کے اسلامی تشخص سے بیگانہ کردے یا انہیں بکھراؤ اور پراکندگی کی راہ پر ڈال دے یا انہیں اپنی اسلامی عزت و عظمت کے حصول کی جانب سے لاپرواہ یا مایوس کرے، وہ دشمنانہ کام کرے گا اور اگر وہ خود دشمن نہیں ہے تو دشمن کا آلہ کار ہے۔قرآن مجید میں شیطان کو برائی، شر اور انحطاط پیدا کرنے والی ایسی طاقتوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو انبیاء کے مخالف محاذ پر کھڑی ہیں۔وَكَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَياطِينَ الاِْنسِ وَالْجِنِّ.(2) (اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنات میں سے شیطانوں کو ہر نبی کے لیے دشمن بنایا۔) پورے قرآن مجید میں شیطان کے ذکر اور اس کی نشانیوں کو دہرایا گيا ہے اور نزول وحی کے پورے عرصے کے دوران شیطان کا نام لیا گيا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں کبھی بھی دشمن کے ذکر اور اس کی علامتوں کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔آج شیطان کی، جو وہی سامراج کا سیاسی محاذ ہے، پوری کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی جانب سے مایوس اور گرانقدر علم و ثقافت کے ذخیرے کے سلسلے میں لاپروا بنا دیا جائے۔ ہر وہ بات اور واقعہ جو مسلمانان عالم میں امید پیدا کرے اور انہیں اسلام کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر کے لیے ترغیب دلائے، سامراج کی نظر میں بہت بڑا دشمن اور قابل نفرت ہے۔ اسلامی ایران کے ساتھ بڑے شیطان کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل اور ایک بڑی آبادی نیز لامتناہی مادی و معنوی دولت و ثروت کے ساتھ ایک وسیع و عریض ملک کا انتظام بخوبی چلائے جانے سے مسلمانوں کو اسلامی عزت و عظمت کی نوید مل رہی ہے اور ان کے دلوں میں امید کے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ ایران میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کو انیس برس گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں پوری دنیا نے مسلم اقوام کے رویے میں امید کی علامتیں دیکھیں اور اب بھی دیکھ رہی ہیں اور جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا اور اس عظیم موج کے مقابلے میں سامراجی دنیا کی سازشوں کو شکست ہوتی گئی اور اس امید میں مزید اضافہ ہوتا گيا ہے۔ فلسطینیوں کی بیداری اور غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں اسلامی نعروں کے ساتھ ان کے حریت پسندانہ جہاد کے آغاز کے سبب یورپ میں مسلمان اقوام کی بیداری اور یورپ والوں کے ہاتھوں یا ان کی حامیانہ خاموشی کے سبب بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے پیش آنے والے خونریز المیے کے باوجود، ایک مسلمان بوسنیائی ملک کی تشکیل، ترکی اور الجزائر میں مغربی جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے مطابق اسلامی حاکمیت پر ایمان رکھنے والے افراد کا برسراقتدار آنا، البتہ دونوں ہی ملکوں میں بغاوت، غیر قانونی طاقتوں کی مداخلت اور اسلامی اقتدار کے عالمی دشمنوں کی عداوت کے سبب ان کی کامیابی ادھوری رہ گئی- سوڈان میں اسلامی بنیادوں پر حکومت کی تشکیل، کہ جو غیر ملکی سازشوں کے باوجود بحمد اللہ بدستور اسلامی اقتدار کی راہ پر گامزن ہے، ایسے بہت سے مسلمان ممالک میں اسلامی نعروں کا احیا، جہاں یہ نعرے طاق نسیاں کی زینت بن چکے تھےاور ایسی ہی دوسری متعدد مثالیں یہ سب کی سب پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ پر ایران میں اسلامی جمہوریہ کی پیدائش کے گہرے اور روز افزوں اثرات کی نشانیاں ہیں۔اسی وجہ سے اسلامی ایران سے سامراج کی دشمنی روز بروز زیادہ سخت اور کینہ آمیز ہوتی جا رہی ہے۔ فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی سازشوں کی مسلسل ناکامی کے بعد سامراج نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جو اس سے پہلے بھی ایران اسلامی کے خلاف سرگرم رہا ہے۔ یہ محاذ، ایک تشہیراتی جنگ کا محاذ ہے؛ اور اس کا مقصد ایرانی قوم اور حکومت پر الزام تراشی کرنا اور اس کے نتیجے میں مسلمان اقوام کے دلوں میں روشن امید کے چراغوں کو خاموش کرنا ہے!اس تشہیراتی جنگ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایرانی قوم، انقلاب کے سلسلے میں اپنی عظیم تحریک، اس کے نعروں اور اسلام و قرآن کی حاکمیت سے پشیمان ہو چکی ہے اور ملک کے حکام نے اسلام اور انقلاب سے منہ موڑ لیا ہے! مثال کے طور پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ایرانی حکومت، امریکی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ملک کے حکام کی جانب سے اس دعوے کی بار بار تردید اور اسلام، انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کی پابندی کے سلسلے میں ان کی مسلسل تاکید، اس بات میں رکاوٹ نہیں ہے کہ سامراج خصوصا امریکی سامراج کے تشہیراتی ادارے حتی سیاسی حکام، زبانوں سے اور مخلتف طریقوں سے اپنے دعوے کو دہراتے رہیں اور تبصروں، خبروں نیز عالمی رپورٹوں خصوصا عالم اسلام کی سطح پر پہلے سے زیادہ اس دعوے کی تکرار کرتے رہیں۔حج میں دشمن کی شناخت کا مطلب ان طریقوں اور ان کے محرکات کی شناخت، اور برائت کا مطلب دشمن کی سازش کا پردہ چاک کرنا اور اس سے بیزاری کا اظہار کرنا ہے۔ایرانی قوم اور حکومت نے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم الشان قیادت میں اپنے عظیم انقلاب کے ذریعے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اسلام و ایران کی عظمت کا پرچم لہرایا ہے اور اپنی عزت، قومی خودمختاری اور تاریخی حیات کو واپس حاصل کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایرانی قوم کو روز افزوں برائیوں، علمی و اخلاقی پستی، سیاسی آمریت اور امریکہ پر انحصار سے نجات حاصل ہوئی اور اس نے حیات اور تعمیر کے نشاط کو دوبارہ حاصل کیا۔ اسے اغیار کے پٹھو، نااہل، خیانت کار، بدکار، آمر اور ظالم مہروں سے نجات اور ایک عوامی حکومت، ہمدرد، ماہر، مومن اور امین حکام حاصل ہوئے۔ اس نے اپنے ملک کا اختیار اور اس کے قومی اور خداداد ذخائر کو، جنہیں اغیار لوٹ رہے تھے، اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے اندر موجود ماہر افرادی قوت کو، جو خیانت کار اور پٹھو بادشاہوں کی کمزوری اور بدعنوانی کے سبب برسوں تک عضو معطل بنی رہی تھی، زندہ کیا اور علم و عمل کے تمام میدانوں میں دو صدیوں کے پچھڑے پن کی تلافی کے لیے بڑے بڑے قدم اٹھائے۔ مستقبل کے لیے بھی اس نے اپنی بلند ہمتی، عزم مصمم اور روشن افکار کو اپنے انیس سالہ تجربے کے ساتھ، مشعل راہ بنا لیا ہے۔ایرانیوں اور ایران پر اسلام، اسلامی انقلاب اور اس کے عظیم قائد امام خمینی کا حق زندگی کا حق ہے اور ہماری قوم و حکومت اس حقیقت کو نہ تو کبھی فراموش کرے گی اور نہ ہی اس واضح راستے اور صراط مستقیم سے پیچھے ہٹے گی۔امریکی حکومت نے ابتدائی برسوں ہی سے، جب اس نے تقریبا پچاس برس قبل ایران کے سیاسی پلیٹ فارم پر قدم رکھا، ایران اور ایرانیوں کے ساتھ خیانت اور جفاکاری کی۔ بدعنوان اور غیر عوامی پہلوی حکومت کی حمایت کی۔ پٹھو، کمزور اور غلام ذہنیت والی حکومتوں کو اقتدار میں پہنچایا۔ ہماری قوم پر اپنے ارادوں کو مسلط کیا۔ ہمارے قومی ذخائر کی لوٹ مار کی۔ تیل اور اسلحوں کے زیاں بار سودوں کے ذریعے اس قوم کی بے پایاں دولت و ثروت کو لوٹا۔ ایران کی مسلح افواج کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ شاہ کی سکریٹ سروس اور اس کے ایذائیں پہنچانے والے افراد کو تربیت دی۔ ایران اور عربوں سمیت بہت سی مسلم اقوام کے درمیان اختلاف ڈالا۔ ایران میں برائیوں اور بے راہ روی کو ہوا دی۔ مختلف مراحل میں اسلامی تحریک کی سرکوبی کے لیے شاہ کی حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کی رہنمائی کی اور جب ظلمت و کفر و طاغوت کے اس محاذ کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا تو اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے ابتدائی ایام سے ہی ایران اور اس کی انقلابی قوم کے خلاف مختلف قسم کی دشمنیاں، حملے، سازشیں اور معاندانہ اقدام شروع کر دیئے۔ آٹھ سالہ جنگ میں عراقی حکومت کی بھرپور مدد سے لے کر ایران کے مکمل اقتصادی محاصرے کے لیے سرگرمیوں، خیانت کار اور فراری عوامل کی مدد، اس سے متعلق تمام تشہیراتی اداروں میں مستقل پروپیگنڈوں، علاقائي اختلافات میں اشتعال انگیزی، ایران اور اس کے ہمسایوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں، سی آئی اے کے ایجنٹوں کے توسط سے ایرانی حکومت کا تختہ پلٹنے اور ایران میں دہشتگردانہ کارروائیوں، ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان اقتصادی سمجھوتوں پردستخط کو روکنے کی جی توڑ کوششوں اور تمام ممکنہ محاذوں اور تمام شعبوں میں ایران کے خلاف موذیانہ اور دھمکی آمیز کارروائیوں تک ہر طرح کے معاندانہ اقدامات کیے گئے۔یہ ایران اور ایرانیوں کے ساتھ امریکی حکومت کی دشمنیوں کی طویل فہرست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ البتہ سبھی جانتے ہیں اور امریکی حکومت کے سرغنہ خود سب سے بہتر اور بڑی تلخی کے ساتھ جانتے ہیں کہ امریکی حکومت کو ان میں سے زیادہ تر میدانوں میں شکست ہوئی ہے اور وہ ناکام ہو کر الگ تھلگ ہو چکی ہے۔ ایرانی قوم خدائی امداد اور اسلام و انقلاب کی برکت سے حاصل ہونے والے قوت و عزت کے ساتھ ان میں سے بیشتر موقعوں پر اپنے دشمن کو شکست اور ناکامی کا تلخ مزہ چکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ان واضح حقائق کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت، اس دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے جو مسلسل شکستوں کے سبب کینے سے لبریز دل کے ساتھ بدستور ایران اور ایرانیوں پر وار کرنے کی کوشش میں ہے اور کس طرح ایرانی قوم اور حکومت اس دشمن کے زہر آگیں تبسم کے فریب میں آ سکتی ہے جس کے ہاتھ میں آج بھی زہر میں بجھا ہوا خنجر موجود ہے؟اسلامی جمہوریہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ خارجہ پالیسی میں عزت، حکمت اور مصلحت جیسے تین اصولوں پر مبنی مساوی تعلقات کا خواہاں ہے اور اس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان تعلقات میں ملک کے مادی اور معنوی مفادات، ایران کی عظیم الشان قوم کی مصلحت اور عزت کی حفاظت اور دنیا کے سیاسی ماحول میں امن و امان کا تحفظ اس کا اصل معیار اور رہنما اصول ہے۔ہمسایوں اور یورپی ملکوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک واضح اور ٹھوس دلیل ہے اور مسلمان ممالک کے ساتھ برادرانہ مذاکرات کے لیے ہماری دائمی کوشش، جن میں سے بعض کے بہترین نتائج کا بحمد اللہ ہم مشاہدہ بھی کر رہے ہیں، دنیا کے لوگوں کے سامنے ہے؛ تاہم ان سب کے باوجود دشمن کی شناخت اور اس کے مقابلے میں ہوشیاری اور مزاحمت کو بھی ایرانی قوم نے اپنا دائمی لائحۂ عمل بنا رکھا ہے اور وہ شیاطین کے فریب میں نہیں آئي ہے اور ان شاء اللہ آگے بھی نہیں آئے گی۔ایرانی قوم، صیہونی دشمن کو جس نے فلسطین کی اسلامی سرزمین میں ایک غاصب حکومت قائم کر دی ہے، کسی بھی صورت میں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی اس غاصب حکومت کے خاتمے اور خود فلسطینی ملک کے عوام کے ذریعے ایک حکومت کی تشکیل کی ضرورت کے اپنے عقیدے کو کبھی بھی پنہاں نہیں کرے گی۔ اسی طرح وہ امریکہ کو، جو شیطان بزرگ اور سامراجی فتنوں کا سرغنہ ہے، جب تک اپنی موجودہ روش پر باقی رہے گا، اپنا دشمن سمجھتی رہے گی اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گی۔پورے عالم اسلام کے محترم بھائیو اور بہنو اور عزیز ایرانی حجاج کرام! خداوند عالم سے مدد مانگ کر معرفت کو بیان کردہ وسعت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے کہ جو حج کا سب سے بڑا ثمرہ ہے اور مذکورہ میدانوں میں نئی شناخت حاصل کرکے اپنے ملک واپس لوٹئے اور اسے مستقبل کے لیے اپنی کوششوں اور جد و جہد کی بنیاد قرار دیجئے۔ اس بار خاص طور سے کوسوو کے مسلمانوں کے آلام ایک دوسرے سے بیان کیجئے جو بلقان کے علاقوں کی خونیں داستان کا تسلسل اور بوسنیا و ہرزے گووینا جیسا ہی ایک دوسرا تجربہ ہے۔ کوسوو کے لوگوں کی کامیابی اور نجات کے لیے دعا اور ان کی مدد کے لیے اقدام کیجئے۔ اسی طرح دیگر مصیبت زدہ اسلامی علاقوں کے مسلمان عوام کے لیے راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کیجئے، ان کے لیے دعا کیجئے اور مسلمانوں کے امور کی اصلاح کے لیے خداوند قادر و رحیم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو جائیے۔امید کہ آپ سبھی حج مقبول اور اس کے معنوی، اخلاقی اور سیاسی ثمرات کے ساتھ اپنےگھروں کو لوٹیں گے۔ والسّلام على بقيۃاللَّہ فى ارضہ و عجّلاللَّہ فرجہ۔والسّلام عليكم و رحمۃاللّہ و بركاتہ على الحسينى الخامنہ اى تین ذي الحجۃالحرام 1418 ہجری قمری مطابق بارہ فروردين 1377 ہجری شمسی
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 9 بہمن سنہ 1376 ہجری شمسی مطابق 29جنووری سنہ 1998 عیسوی کو عید سعید فطر کے موقعے پر ملک کے سویلین اور فوجی عہدیداروں سے خطاب میں عید کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 26 دی سنہ 1376 ہجری شمسی مطابق 16 جنوری سنہ 1998 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطبوں میں اہم ترین موضوعات پر سیر حاصل بحث کی۔ آپ نے توبہ و استغار کے خصوصیات کا ذکر کیا اور ماہ رمضان المبارک کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران امریکہ تعلقات کے سلسلے میں انتہائي اہم نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دلیلوں سے ثابت کیا کہ امریکہ کے سلسلے میں ایران کا موقف بالکل درست ہے اور ایران اپنے اسی موقف کی بنیاد پر مسلسل پیشرفت کر رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 24 مہر سن 1376 ہجری شمسی مطابق 16 اکتوبر 1997 عیسوی کو دار الحکومت تہران کے قریب واقع کرج کے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنی تقریر میں اسلامی انقلاب کے لئے کرج کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے تمام علمی و معاشی شعبوں میں جانفشانی کی ضرورت پر زور دیا اور اسے دنیا میں سامراجی طاقتوں کے سامنے بے نیازی او مضبوطی کا راز قرار دیا۔ آپ نے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران میں معاشی بد حالی سے متعلق پروپیگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے اس فریب سے محفوظ رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد فاتح امیدوار کو حاصل ہونے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی جاتی ہے۔ ایک آئینی تقریب میں قائد انقلاب اسلامی صدر جمہوریہ کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کرتے ہیں۔ چنانچہ صدر سید محمد خاتمی کی انتخابات میں کامیابی کے بعد بارہ مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق تین اگست سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو اس تقریب کا انعقاد ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس تقریب سے خطاب میں اہم ترین ملکی، علاقائي اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی راہ و روش کے بارے میں اہم نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نو مرداد سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق اکتیس جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو جناب علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے دوسرے دور صدارت کے اختتام پر جناب رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے اپنے خطاب میں حکومت کی کاوشوں کو سراہا۔ آپ نے اس حکومت کے افراد کی خصوصیات کو آئندہ حکومتوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔
پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں کے اجلاس سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی فرقوں کے اشتراکات اور خاص طور پر پیغمبر اسلام کی ذات اقدس کے محور پر اتحاد بین مسلمین کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس تیر سنہ تیرہ سو چھہتر ہجری شمسی مطابق سولہ جولائي سنہ انیس سو ستانوے عیسوی کو محکمہ پولیس کے اہلکاروں اور کمانڈروں سے ملاقات میں اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام میں پولیس کو خاص کردار اور خصوصیات کا حامل قرار دیا۔ اس ملاقات میں کچھ پولیس کمانڈروں نے بھی تقریر کی اور محکمے کی کارکردگی اور پیشرفت کی تفصیلات بیان کیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ؛ سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین، الھداۃ المھدیین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صلّ علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
مسلمین عالم، بالخصوص ایران اسلامی کے مومن، مجاہد، باشرف اور عزیز عوام، آپ نمازیوں، خصوصا شہیدوں کے پسماندگان، فداکاروں، دفاع وطن میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے عزیز 'جانبازوں'، جنگی قیدی کی حیثیت سے دشمن کی جیلوں میں ایک عرصہ گزار نے کے بعد آزاد ہوکے وطن کی آغوش میں واپس آنے والے 'حریت پسندوں'، جنگ میں لاپتہ ہو جانے والے مجاہدین اور ان کے خاندان والوں کو عید الفطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
عید الفطر اور عید الاضحی کے بارے میں جو کچھ پایا جاتا ہے یعنی جو( آیات و روایات پائی جاتی ہیں)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طہارت، پاکیزگی اور تزکئے کا دن ہے۔
یہ دو سورے جو نماز عید میں پڑھے جاتے ہیں، ان میں سے ایک میں خداوند عالم فرماتا ہے کہ قد افلح من تزکّی (1) یعنی جس نے خود کو پاکیزہ بنا لیا اور اپنے دامن اور روح و دل کو آلودگیوں سے پاک کر لیا، اس نے فلاح پا لی۔ فلاح یعنی میدان زندگی میں کامیابی اور مقصد خلقت کا حصول۔
دوسری رکعت کے سورے میں فرماتا ہے کہ قد افلح من زکّیھا(2) بعینہ وہی مضمون ہے۔ یعنی جو اپنی روح کا تزکیہ کر سکا اور اس کو پاک بنا سکا، اس نے فلاح اور نجات حاصل کر لی۔ دونوں سوروں میں تزکئے، طہارت اور پاکیزگی کی بات کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس دن ایک مالی واجب بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ زکات فطرہ کی ادائیگی ہے۔ زکات وہ مالی طہارت ہے جو انسان کو پاکیزہ کرتی ہے۔ خذ من اموالھم صدقۃ تطھّرھم و تزکّیھم بھا(3) اس واجب (کی ادائیگی) اور مالی صدقے کا لوگوں سے لینا، پستی و رذالت، حرص و طمع، بخل اور دوسری برائیوں سے ان کی روح کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے۔
بنابریں میرے عزیزو! بھائیو اور بہنو! عزیز نمازیو! عیدالفطر پاکیزگی اور طہارت کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس لئے ہو کہ آپ نے ایک مہینہ روزہ رکھا ہے، ریاضت کی ہے اور خود کو آلودگیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس لئے بھی ہو کہ اس دن آپ نے میدان عبادت میں اجتماعی طور پر عبادت کی ہے۔ بہرحال، مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کو ایک مہینہ روزہ رکھنے کے بعد، عید الفطر کے دن طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی تطہیر اور تزکیہ کیا۔ اگر روزہ صحیح رکھا ہو اور نماز عید صحیح ادا کی ہو، اور یقینا ایسا ہی ہے، تو اس طہارت، اس پاکدامنی اور روح کی اس پاکیزگی کی قدر کیجئے! یہی پاکیزگی انسان کو نجات دلاتی ہے۔ جو چیز انسان کو (مصیبتوں میں) گرفتار کرتی ہے وہ آلودگی، شہوت، غضب، حرص و طمع ، بخل اور دیگر اخلاقی برائیوں سے حاصل ہونے والی آلودگی ہے۔ افراد بشر نے انھیں اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے دنیا کو تاریک کیا، روئے زمین کو آلودہ کیا اور خدا کی نعمتوں کے سلسلے میں ناشکری کی ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں، جو نظام الہی اور حکومت قرآنی ہے، لوگ دوسرے نظاموں کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح اپنے لئے طہارت اور پاکیزگی کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اس کی قدر کریں۔ آج دنیائے انسانیت کو آپ کے پیغام تطہیر و تزکیہ کی ضرورت ہے۔
یہ ظلم، زور زبردستی اور امتیازی سلوک جو عالمی سطح پر پایا جاتا ہے، بہت سے ملکوں میں انسانوں کو جس تیرہ بختی کا سامنا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں نوجوانوں کی سرگردانی، عورتوں اور مردوں کے ناجائز تعلقات، شہوانی آلودگی، سیاسی برائياں اور مالی بدعنوانیاں، یہ سب اس لئے ہے کہ لوگوں نے اپنی تطہیر اور تزکیہ نہیں کیا۔ قرآن تزکئے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کے مقدس پیغمبر انسانوں کی تطہیر کرتے ہیں۔ نماز سے، زکات سے، روزے سے اور عید الفطر سے تطہیر ہوتی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ موقع ہر ایک کو دستیاب ہے۔
میرے عزیز نوجوانو! قلب و روح کی نورانیت اور پاکیزگی کے دور سے گزرنے والے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! آپ دوسروں سے زیادہ اس طہارت کی قدر کریں اور اس کی حفاظت وپاسداری کریں۔ آپ کا ملک خدا کے فضل اور اسی طہارت کی مدد سے ترقی کرے گا، آزاد رہے گا، پیشرفت کرے گا، اس کی ویرانیاں دور ہوں گی، تفریق، پریشانیاں اور زندگی کی گوناگوں مشکلات ختم ہوں گی۔
سب کو خدا کی بارگاہ کی طرف آگے بڑھنا چاہئے۔ خدا کی طرف دست دعا دراز کرنا چاہئے۔ اس سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ اپنے دامن کو پاک رکھنے اور برائیوں سے پرہیز کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو لوگ مالی امور سے سروکار رکھتے ہیں، ان کو مالی بدعنوانیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ در پیش رہتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، ان کے سیاسی اور سماجی برائیوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جو لوگ شہوتوں سے دوچار رہتے ہیں انھیں جنسی اور شہوانی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے ماتحت ہوتے ہیں، ان کے ظلم و ستم میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جن کے ہاتھ میں کوئی کام ہوتا ہے، ان کے لئے اپنے کام میں خیانت کے ارتکاب کا خطرہ رہتا ہے۔ سب اپنا خیال رکھیں۔ سب اپنے اعمال کا خیال رکھیں۔ یہ احتیاط اور توجہ ہی تقوی ہے جس کا نماز عید الفطر میں ہمیں خود کو اور اپنے سامعین کو سفارش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پالنے والے! ہم سب کو تقوی، طہارت، تزکئے، اپنے فرائض کی ادائیگی اور صراط مستیم طے کرنے کی توفیق عنایت فرما۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و العصر ان الانسان لفی خسر الّا الّذین آمنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر (4)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین؛ الھداۃ المھدییّن المعصومین۔ سیّما علی امیر المومنین و صدیّقۃ الطّاھرۃ سیّدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سبطی الرّحمۃ و امامی الھدی و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی و جعفربن محمد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی آئمّۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔
اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
عالم اسلام میں یہ بات عیاں ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو اٹھارہ سال گزرنے کے بعد ایسی حالت میں کہ اس انقلاب کے دشمن اور اس کے خلاف سازشیں تیار کرنے والے یہ توقع رکھتے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اس انقلاب کی یاد کم ہو جائے گی اور پھر اس کو فراموش کر دیا جائے گا، لیکن ان کے اس خیال اور آرزو کے بر خلاف، تاریخ کے اس بے نظیر انقلاب پر توجہ بڑھ رہی ہے اور ملکوں میں اسلامی بیداری عمیق تر ہو رہی ہے جو خود اسلام اور انقلاب کا ایک معجزہ ہے۔
البتہ عالمی سطح پر پائی جانے والی اس توجہ میں پہلا کردار ایرانی قوم کا ہے۔ میں اپنے لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ خدا کے شکرانے اور اپنے عزیز عوام کے شکریئے کے طور پر یہ بات عرض کروں کہ دشمن کی پوری کوشش یہ رہی ہے کہ عوام کو انقلاب کے میدان سے باہر نکال دے۔ لیکن آپ کا جواب ایسا تھا کہ اس انقلاب کے بعد گزرنے والے ان برسوں میں جن میدانوں میں عوام کی موجودگی نمایاں ہونی چاہئے تھی، ان مں آپ نے بھر پور شراکت سے عالمی سامراج کو ٹھوس، محکم اور دنداں شکن جواب دیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعے، یوم القدس کے عظیم مظاہروں میں آپ کی شرکت تھی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ یوم القدس کے اعلان کے اٹھارویں سال میں عوام کی شرکت سترہویں سال سے زیادہ رہی اور سترہویں سال میں سولہویں سال سے زیادہ تھی۔ یہ کیسی تحریک، کیسا اہتمام اور اس عظیم قوم پر خداوند عالم کا کیسا لطف و کرم ہے!
آپ کے اجتماعات، عید الفطر پر میدان عبادت میں آپ کا یہ اجتماع بے نظیر ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی نماز عید الفطر پوری اسلامی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں کہیں بھی مذہبی اور اسلامی رسومات میں اتنے زیادہ نوجوان، اتنے ذوق و شوق کے ساتھ شرکت نہیں کرتے۔
میرے عزیزو! یہ بھی جان لیجئے کہ اس انقلاب اور میدان میں آپ نوجوانوں کی بھرپور موجودگی کی برکت سے پوری اسلامی دنیا میں، دین اور دینی رسومات میں نوجوانوں کی دلچسپی پندرہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھی ہے۔
کل بائیس بہمن ( مطابق گیارہ فروری، یوم آزادی) ہے؛ ایک بار پھر تجزیہ نگاروں، مبصرین اور دیکھنے والوں کی آنکھیں، انقلاب اور ایرانی قوم کی قوت و طاقت کا مشاہدہ کریں گی۔ البتہ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ ریڈیو پر دوسری طرح بولتے ہیں۔ لیکن خود جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر انقلاب، اس قوم اور یوم القدس کے عظیم اجتماع کو دشمنی اور عداوت کی آنکھوں سے نہ دیکھتے اور ان کے دل بغض و کینے اور دشمنی سے پر نہ ہوتے تو بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں یہ اعلان نہ کیا جاتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم القدس کے پروگراموں کے لئے کچھ لوگوں کو بسوں سے لایا گیا۔ جب ایرانی قوم یہ باتیں سنتی ہے تو انقلاب کے خلاف عالمی پروپیگنڈوں کی حقیقت اس پر اور عیاں ہو جاتی ہے۔ یوم القدس کا دسیوں لاکھ کا یہ مجمع، چند بسوں کے مسافروں کا مجمع تھا؟! حکومت نے کچھ لوگوں کو جمع کیا تھا؟! دیکھئے ان کے دل بغض و کینے سے کس طرح پر ہیں۔ اگر نہ دیکھیں، غصے سے نہ تلملائیں تو یہ رد عمل نہ دکھائيں۔ یہ جھوٹی خبریں، آپ کی بھرپور شرکت سے ان کی تلملاہٹ اور بغض کا ردعمل ہے۔ خدا کے فضل، نصرت الہی اور خدا کی عنایت سے کل ایک بار پھر اس انقلاب کی نسبت بغض سے بھری ان کی آنکھیں اور کینے سے پر ان کے دل تلملائیں گے اور ان پر لرزہ طاری ہوگا۔ لیکن انقلاب اور ایران کی انقلابی قوم سے دنیا کی اقوام کی محبت اور اس بیداری کے ساتھ ہی دشمن کی سازشیں بھی روز بروز بڑھی ہیں، مگر بے اثر ہیں۔ دشمن کی سازشوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے فضل سے دشمن کی سازشیں ان کا مقصد پورا نہیں کر سکی ہیں۔ لیکن بہر حال وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کی ایک سازش اسلامی ملکوں میں اختلاف ڈالنا ہے۔ ایک سازش بہت سی حکومتوں کو چھوٹی اور غیر اہم باتوں میں الجھا کے عظیم اور اہم چیزوں کی طرف سے غافل کر دینا ہے۔ ایک سازش اسلامی ملکوں میں رنجش پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کے بہانے تراشنا ہے، تاکہ صیہونیوں کے تعلق سے، جو اسلامی دنیا کے حقیقی دشمن ہیں، عالم اسلام کی گہری نفرت سے مسلمانوں کے ذہنوں کو ہٹا سکیں۔ یہ بات صرف ہمارے خطے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی دنیا میں ہر جگہ یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے خطے میں اس سازش میں زیادہ شدت ہے۔
انقلاب کے پہلے دن سے ہی سامراج کے پروپیگنڈہ اداروں اور سیاسی کھلاڑیوں نے خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے ہاتھوں اپنے اسلحے بیچ سکیں۔ تاکہ وہاں اپنے فوجیوں کی تعیناتی جاری رہنے کو یقینی بنا سکیں۔ میں نہیں جانتا کہ کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ان ملکوں کے دل اور ذہن بیدار ہوں اور یہ سمجھیں کہ امریکا ان کی بھلائی نہیں چاہتا! یہ سمجھیں کہ امریکا اور پوری دنیا میں ان کے صیہونی ڈھنڈورچی، جو ان ملکوں میں اپنی مد نظر ذہنیت بنانا چاہتے ہیں، ان کی نیت یہ ہے کہ خلیج فارس میں آئيں، یہاں اپنی فوج رکھیں، اپنے ناجائز اقتصادی مفادات پورے کریں اور اگر ہو سکے تو اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم پر دباؤ ڈالیں۔
حکومت، عوام اور حکام بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران پڑوسی ملکوں کے تعلق سے جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ ایران نے ابتدائے انقلاب سے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ انقلاب کو آٹھارہ سال ہو رہے ہیں، ہم نے اب تک کس پر حملہ کیا ہے؟ ہم نے پڑوسیوں کی کس سرحد پر فائرنگ کی ہے؟ ہم پر گولیوں کی بارش ہوئی ہے۔ ہم نے اپنے دفاع کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا ہے۔
اگر چہ ایران ایک بڑا ملک ہے اور ایرانی قوم طاقتور ہے، سب جانتے ہیں اور سمجھ چکے ہیں کہ ایران کا کوئی بھی پڑوسی ملک دوسروں کی مدد سے بھی، اس عظیم قوم اور وسیع اور طاقتور ملک پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ڈال سکتا اور جو بھی آگے بڑھ کے جارحیت کرے گا منہ کی کھائے گا، اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت، قوم اور مسلح افواج نے کسی بھی قسم کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ اہداف رکھے ہیں نہ رکھتی ہیں اور آئندہ بھی نہیں رکھیں گی۔ توسیع پسندی ہمارے نظریات کے خلاف ہے۔ ہماری اسلامی سیاست میں توسیع پسندی اور جارحیت جیسی چیزوں کے لئے جو طاغوت سے تعلق رکھتی ہیں، کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ہم اپنی اور اپنے خطے کی سلامتی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
سب اس بات پر توجہ رکھیں کہ خلیج فارس بہت حساس علاقہ ہے۔ خیال رکھیں کہ اس خطے کے باہر سے جو دشمن ان ملکوں کے دوست بن کے خطے میں آتے ہیں، اس علاقے کے امن و سلامتی کو ختم نہ کر دیں! سب اس بات پر توجہ رکھیں۔ اگر خدا نخواستہ اس خطے میں بدامنی پیدا ہوئی تو سب سے زیادہ نقصان انھیں کو پہنچے گا، جو اس بدامنی کا باعث بنیں گے اور اس کے اسباب فراہم کریں گے۔ سب سے زیادہ نقصان ان ملکوں کو پہنچے گا، جنہوں نے اپنی دولت، اپنا ملک اور اپنی سرزمین، بیرونی جارحین کے اختیار میں دی ہوگی۔
البتہ ہماری دعا ہے کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو اور خدا کے فضل سے ان شاء اللہ پیدا نہیں ہوگی؛ لیکن اگر خدانخواستہ اس بیرونی طاقت نے جس کے فوجی خلیج فارس میں موجود ہیں، دیوانگی کی اور بغیر سوچے سمجھے کوئی حرکت کی تو سب سے پہلے یہ آگ انھیں ملکوں کو دامنگیر ہوگی، جنھوں نے مذکورہ طاقت کے فوجیوں کے غیر قانونی طور پر یہاں آنے اور رہنے کے اسباب فراہم کئے ہیں۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایرانی قوم تعمیر کے میدان میں پوری تن دہی کے ساتھ محنت اور کوشش کر رہی ہے۔ خدا کے فضل سے حکومت، قوم، ملک کے حکام، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ سبھی وسط مدتی اور طویل المیعاد منصوبوں کے ساتھ پوری توجہ سے اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ قوم ایک زندہ دل قوم ہے۔ یہ ملک ایک زندہ ملک ہے۔ دنیا کی سبھی زندہ اقوام ایسی ہی ہیں کہ اپنے کام اور امور کو تدریجی طور پر چند سال میں منظم کرتی ہیں اور یہ ملک بھی اپنے امور کو مںظم کرنے میں مصروف ہے۔
میں اپنی عزیز قوم سے عرض کرتا ہوں کہ اپنی اس شراکت کو قائم رکھیں تاکہ اس کی عزت، اقتدار اور اس کی مادی و معنوی قوت محفوظ رہے۔ یہ اتحاد جو الحمد للہ آپ کے درمیان پایا جاتا ہے اور دشمن اس کو ختم نہیں کر سکا ہے، اس کی حفاظت کریں تاکہ آپ کی عزت، اقتدار، آبرو اور حیثیت نیز دنیا میں اور دیگر اقوام پر آپ کا اثرانداز ہونا اسی قوت، شدت اورعظمت کے ساتھ باقی رہے۔
ان شاء اللہ ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی پاکیزہ روح آپ سے راضی ہو۔ شہیدوں کی ارواح طیبہ بھی آپ سے راضی ہوں۔ خدا کے فضل سے حضرت بقیۃ اللہ (امام زمانہ) ارواحنا فداہ کی دعائيں آپ کے شامل حال ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انّا اعطیناک الکوثر فصلّ لربّک و انحر۔ انّ شانئک ھو الابتر (5)
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- سورہ اعلی، آیت نمبر 14
2- سورہ شمس، آیت نمبر 9
3- سورہ توبہ، آیت نمبر 103
4- سورہ عصر، آیات 1 الی 4
5-سورہ کوثر، آیات 1 الی 3
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 11 مارچ 1997 عیسوی کو ہویزہ کے شہیدوں کے قبرستان 'گلزار شہدا' میں اپنے خطاب میں شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کیا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراق کی جارح بعثی حکومت کی فوجی یلغار کے مقابلے میں ایرانی مجاہدین کی جاں نثاری کی قدردانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر چہ دشمن امریکا، مغرب اور مشرق پر انحصار کرتا تھا اور سب مادی لحاظ سے اس کی مدد کر رہے تھے لیکن معنوی لحاظ سے دشمن کے ہاتھ خالی تھے۔ ہماری قوم کے ہاتھ معنوی لحاظ سے خالی نہیں تھے۔ اس کے قلب عشق و ایمان سے مملو تھے اور وہ کامیاب ہوئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ خوزستان کے دورے میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کیا۔ 20 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 10 مارچ 1997 عیسوی کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نقطہ نگاہ سے عورتوں کے حقوق بیان کئے اور جاہلانہ رسومات سے دور رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ معاشرے میں عورت کے کلیدی تعمیری کردار کا جائزہ لیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے عورتوں کو اسلام میں دی گئی آزادی کی جانب توجہ مبذول کرائی اور خود خواتین پر زور دیا کہ وہ حقوق نسواں کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 10 فروری 1997 عیسوی کو عید الفطر کے دن ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں عید کی مبارکباد پیش کی اور اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے عید کے معنی و مفہوم سے بحث کی اور اس کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 18 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق 7 فروری 1997 کو فضائیہ کے جوانوں اور افسران سے خطاب میں فضائیہ کے تاریخی فیصلے کی تعریف کی جو اسلامی انقلاب کی فتح سے تین دن قبل یعنی آٹھ فروری 1979 کو فضائیہ نے کیا اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بیعت کا اعلان کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 شہریور 1375 ہجری شمسی مطابق 18 ستمبر 1996 کو شہر ارومیہ میں خواتین کے اجتماع سے خطاب میں معاشرے کے اندر مختلف طرح کے حالات میں خواتین کے موثر کردار پر روشنی ڈالی ساتھ ہی خواتین کے تعلق سے کچھ اہم ہدایات دیں۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ مغربی آذربائیجان کے دورے کے دوران شہر ارومیہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اس خطاب میں صوبہ آذربائیجان کے عوام میں موجود اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تعریف کی اور مختلف ادوار میں اس صوبے کے عوام کی خدمات کا ذکر کیا۔
یونیورسٹیوں میں ولی فقیہ کے نمائندہ دفاتر کے سربراہوں سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیمی مراکز میں اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کی ترویج کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں ان نمائندہ دفاتر کے کردار کی افادیت بیان کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 29 اگست 1996 کو سرکاری عہدیداروں اور ملازمین کے اجتماع سے خطاب میں فرائض منصبی اور عوامی خدمات پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28 اگست 1996 کو صدر رفسنجانی اور ان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے انجام پانے والے کاموں سے عوام کو مطلع کئے جانے پر زور دیا اور ساتھ ہی حکومت کو اہم سفارشات کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستائیسویں محمد رسول اللہ ڈویژن کے کمانڈروں سے خطاب میں انتہائی کلیدی نکات کا جائزہ لیتے ہوئے خواص کہے جانے والے طبقے کے مختلف ادوار کے فرائض اور ان کے موقف کی فیصلہ کن حیثیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی کے مہمانوں اور مختلف عوامی طبقات سے خطاب میں امام خمینی کی شخصیت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ اس موقع پر امام خمینی کے روضے پر کثیر تعداد میں عقیدتمند جمع ہوئے اور قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 'ولایت' سے موسوم عظیم پیمانے کی فوجی مشقوں میں شرکت کرنے والے فوجیوں سے خطاب میں دفاعی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یوم مسلح افواج کے موقع پر فوج کے کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ہمہ جہتی ترقی کی تعریف کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 23 فروردین 1375 ہجری شمسی مطابق 11 اپریل 1996 عیسوی کو قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے عہدیداروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں قومی نشریاتی ادارے کی خدمات کی قدردانی کی اور اس ادارے کی کلیدی حیثیت کو بیان کیا۔