قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 22 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 13 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔ نماز عید کے خطبوں میں قائد انقلاب اسلامی نے اس عظیم دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اپنے خطاب میں رمضان المبارک کے انتہائی معنوی ایام کی خصوصیات کا تذکرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی پر تنقید کی اور اسے مختلف مسائل میں دوہری پالیسیاں اختیار کرنے والا ادارہ قرار دیا۔ آپ نے حج کے ایام کے قریب آنے کی مناسبت سے بھی گفتگو کی اور سعودی عرب کی جانب سے ایرانی حجاج کرام کے لئے پیدا کی جانے والی مشکلات کی سمت اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 22 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 13 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو عید الفطر کے موقعے پر صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 26 دی سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 16 جنوری سنہ 1994 عیسوی کو یوم پاسدار کی مناسبت سے پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے ہزاروں ارکان اور پولیس کے خصوصی دستوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے دن تین شعبان کو ایران میں یوم پاسدار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر اپنے خطب میں قائد انقلاب اسلامی نے امام حسین علیہ السلام کی عظیم تحریک کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے خود پسندی، میں، ذاتی، جماعتی یا قومی مفاد سے سخت اجتناب حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی پہلی خصوصیت ہے۔ اس میں جو کام انجام دیتے ہیں، اس میں ہمارے اور آپ کے اندر جتنا اخلاص ہوگا، اس کام کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ مرکز اخلاص سے جتنا دور ہوں گے اور خود پسندی، خود پرستی، اپنے لئے کام کرنے، اپنی فکر میں رہنے اور ذاتی و قومیتی مفادات وغیرہ کے جتنا قریب ہوں گے اتنا ہی دوسرے گروہ سے قریب ہوں گے۔ اس اخلاص مطلق اور اس خود پرستی مطلق میں بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اس طرف سے ہٹ کے جتنا اس طرف جائیں گے کام کی اہمیت اتنی ہی کم ہوگی اور اس کی برکت بھی اتنی ہی کم ہوگی۔ اس کی بقا بھی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ یہ اس مسئلے کی خاصیت ہے۔ یہ جنس جتنی کم خالص ہوگی ، ملاوٹ جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی جلدی خراب ہوگی۔ اگر خالص ہو تو کبھی خراب نہیں ہوگی۔ سامنے کی چیزوں سے اس کی مثال دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سونا جتنا خالص اتنا ہی پائیدار ہوگا۔ اس میں زنگ نہیں لگے گا۔ لیکن اگر اس میں ملاوٹ ہو تو جتنا لوہا اور تانبا اور دوسری کم قیمت دھاتیں اس میں ملی ہوں گی اتنی ہی جلد یہ خراب ہوگا۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 6 دی سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 27 دسمبر سنہ 1993 عیسوی کو امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب میں حضرت علی کی ذات والا صفات کو مسلمانوں ہی نہیں تمام انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل قرار دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دینی علوم کے مرکز اور یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دونوں کلیدی تعلیمی اداروں کے مابین تعمیری تعاون کو یقینی بنانے کے لئے کوششیں انجام دی گئيں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں بھی اس عظیم دن کی پوری دنیا میں پھیلی امت مسلمہ، عزیز ایرانی قوم، حاضرین محترم اور ملک کے زحمت کش حکام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یوم بعثت کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے کہ مجھ جیسے لوگ اس کی تشریح کر سکیں۔ لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کی زندگی میں بعثت کی تاثیر ایسا نکتہ ہے کہ جس کے بارے میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔
بعثت کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا کہ ایک خلاء تھا اور انسانیت کو بعثت کی شدید ضرورت تھی۔ خداوند عالم نے اپنی حکمت بالغہ سے، اس عظیم واقعے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا کہ اس دور میں جو باتیں رائج تھیں ان سے آلودہ ہوئے بغیر اس دور کی دنیا میں بھی پہچانا جائے اور تاریخ میں بھی باقی رہے۔ یہ خود ایک اہم نکتہ ہے۔ ممکن تھا کہ فرض کریں کہ آخری پیغمبر کی بعثت اس دور کے روم میں ہوتی، اس دور کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی۔
بعثت کے زمانے میں دنیا میں عظیم تمدن موجود تھے۔ ایسی اقوام تھیں کہ جو انسانی علوم و فلسفے اور مدنیت کی اطلاعات سے بہرہ مند تھیں۔
بعثت ان ملکوں میں اور ان علاقوں میں ہو سکتی تھی۔ مگر خداوند عالم اس بعثت کو جو تاریخ بشریت میں ہمیشہ باقی رہنے والی تھی، ان جگہوں پر نہیں لے گیا۔ اس بعثت کو اس جگہ نہیں لے گیا، جہاں اس فکر اور اس دعوت میں بیرونی عناصر داخل ہو سکتے تھے۔ اس دور کے مغربی ممالک ایسے علاقے تھے جو عظیم تمدن کے مالک تھے۔ پیغمبروں کے ساتھ ان کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مدنیت کے مالک تھے۔ انہیں میں سے شہر انطاکیہ کے لوگ تھے۔ سورہ یاسین میں خداوند عالم نے وہاں تین پیغمبروں کو بھیجنے کا ذکر کیا ہے اور سر انجام اس دیار کے لوگوں کی ناسپاسی ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ تاریخ نے بھی ان اقوام کے واقعات بیان کئے ہیں۔ آخری پیغمبر کو وہاں مبعوث نہیں کیا۔
جزیرۃ العرب میں انسانی علوم نہیں تھے۔ شرک تھا اور شرک آلود رسومات تھیں اور وہ بھی پست ترین سطح پر۔ لہذا آپ قرآن میں بھی ملاحظہ فرماتے ہیں کہ شرک کے خلاف سخت جدوجہد ہوئی ہے۔ سورہ اخلاص جس نے لم یلد ولم یولد کو اتنا واضح اور نمایا ں کیا ہے۔ چار آیتوں کے اس چھوٹے سے سورے میں لم یلد لم یولد قلب میں واقع ہے اور لم یکن لہ کفوا احد نمایاں اور آشکارا ہے تاکہ شرک ذہنوں سے دور کر دیا جائے اور پیام خدا سے مخلوط نہ ہو۔ اسلام میں ہر شرک آلود کام مسترد کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھیں تو اسلام خالص شکل میں منظر عام پر آيا اور اکناف و اطراف عالم میں خالص شکل میں منتقل ہوا اور پھیلا۔ بنابریں جہاں بھی گیا، مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو چیلنج کیا اور ان کے مقابلے میں اپنے نمایاں ہونے کا ثبوت دیا۔ یہاں تک کہ اس کی تبلیغ کرنے والوں کا خلوص ختم ہو گیا تو تبلیغ کا خلوص بھی ختم ہو گیا۔ یہ بعثت، بشریت کے لئے ہمشیہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ بعثت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت ہے۔ یعنی جب بھی عالم اور زندگی بشر معنویت سے خالی ہو جائے تو وہی معارف اور اصول جن کی قرآن کریم بات کرتا ہے، آکر اس خلاء کو پر کر سکتے ہیں۔ اسلامی معارف و اصول کی کیفیت ایسی ہے اور اس قانونی مجموعے میں ایسی قوت ہے کہ تمام حالات میں معنوی خلاء کو پر کر سکتا ہے اور بشریت کو معنوی فضا میں زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کر سکتا ہے۔
آج بھی انہیں حالات میں سے ایک حالت ہے۔ ملکوں اور اقوام میں کسی دعوت کے موثر اور مقبول ہونے کی شرط کیا ہے؟ پہلی شرط دعوت کا منطقی اور معقول ہونا ہے۔ ہر وہ بات جو اسلام کو اس کی معقولیت اور منطقی پہلو سے الگ کرے، اسلام کے رشد اور نشر و اشاعت کو نقصان پہنچائے گی۔ جو لوگ اسلامی مسائل کے بارے میں بولتے ہیں اور اظہار رائے کرتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں۔ اسلام عقلی اصولوں پر استوار ہے۔ اسلام ایسا دین ہے کہ عقل سلیم اس کو سمجھتی ہے۔ اس کو درک کرتی ہے۔ اس کو پسند کرتی ہے اور قبول کرتی ہے۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر اسلامی حکم کے ساتھ ایک عقلی دلیل بھی موجود ہونی چاہئے۔ صبح کی نماز دو رکعت کیوں ہے؟ کیا اس کے لئے عقلی دلیل کی ضرورت ہے؟ نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کسی بھی عقل میں کوئی بات آ گئی تو وہ اسلام میں بھی ضرور نظر آئے۔ یہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات، اسلام سے جس کا رابطہ قابل قبول ہے اور اہل علم و اہل فن مانتے ہیں کہ یہ اسلام سے مربوط ہے، ہر علمی اور عاقلانہ ماحول میں قابل پیشکش ہے۔ نماز کو دنیا کے مادی ترین فرد کو بھی سمجھایا جا سکتا ہے، بتایا جا سکتا ہے کہ نماز کیا ہے اور اسلام نے نماز کیوں واجب کی ہے۔ انیسویں صدی کا جو مغرب کی بے دینی کی صدی ہے ایک مغربی مفکر جو بہت معروف ہے لیکن میں اس کا نام لینا نہیں چاہتا، کہتا ہے کہ نماز میں بہت بڑا راز نہفتہ ہے جی ہاں اگر اس میں عظیم راز نہ نہفتہ ہوتا تو مادہ پرستی کے اس ماحول میں ایک مفکر اس کے بارے میں یہ نہ کہتا۔ اہل انصاف، اہل علم، صاحبان عقل اور صاحبان منطق و استدلال، تمام اسلامی تعلیمات کو سمجھ سکتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔
معقول اور منطقی ہونا اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اگر کچھ لوگ اسلام کو اس خصوصیت سے الگ کرنے کی کوشش کریں، یا اپنے پروپیگنڈوں میں کہیں کہ یہ علم اور عقل کا مخالف دین ہے یا عمل میں ایسی باتوں کو اسلام سے منسوب کریں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اس قابل نہ ہو کہ عقل سلیم اس کی تصدیق اور تائید کر سکے، تو یہ باتیں یقینی طور پر اسلام کی اشاعت کو نقصان پہنچائیں گی، ان سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ بنابریں معقول اور منطقی ہونا ایسی خصوصیات میں سے ہے جو اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسلام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ معنوی اور خدائی دین ہے۔ عیسائیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں آخرت کے پہلو دنیاوی پہلوؤں پر غالب ہیں، اسلام ایسا نہیں ہے۔ اسلام دنیا کو بھی آخرت کا جز سمجھتا ہے۔ یہی آپ کی زندگی، آپ کی تجارت، آپ کا پڑھنا، آپ کا ملازمت کرنا، آپ کے سیاسی امور، یہ سب آخرت کا جز ہیں۔ دنیا بھی آخرت کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس طرز فکر کے ساتھ آپ اچھی نیت سے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ نیکی ہے جو آخرت میں تقرب خدا اور معنوی درجات تک پہنچائے گی اور اگر خدا نخواستہ بری نیت یا خود پسندی کی نیت سے کوئی کام انجام دیا تو یہ بات زوال، پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوگی ۔
اسلام اس طرح کی تعلیمات کا حامل دین ہے۔ ہماری پوری زندگی، ہماری تمام دنیاوی کوششیں، آخرت کا حصہ ہیں۔ دنیا و آخرت ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ برائی اس میں ہے کہ روزمرہ کی زندگی سے مربوط یہ مادی کوشش، بری نیت سے انجام دی جائے۔ وہ دنیا جس کو مذموم کہا جاتا ہے یہی ہے۔ مگر یہ عالم اس عالم سے الگ نہیں ہے۔ یہ عالم اس عالم آخرت کی کھیتی ہے۔ کھیتی یعنی کیا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فصل کھیت کے بجائے کسی دوسری جگہ حاصل کی جائے؟ یہ تعبیر انتہائی وحدت، ہم آہنگی اور دونوں کے ایک ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ایک معنوی دین بھی ہے۔ اسلام میں دلوں کو خدا کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ نیتیں خدا کے لئے ہونی چاہئیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت اور اس کے عام ہونے کا ایک سبب ہے۔
آج دنیا میں جس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور خود دنیا کے عوام اس کا احساس کرتے ہیں، خاص طور پر مغرب میں، معنویت کی کمی اور روحانیت کا خلاء ہے۔ مادیات میں غرق ہو گئے ہیں، معنویات سے دور ہیں اور خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خواہشات کی خصوصیت یہ ہے کہ ابتدائے امر میں تو یہ خواہش ہوتی ہیں لیکن جاری رہنے کی صورت میں عالم جہنم بن جاتی ہیں۔ جب کسی فرد یا قوم کی زندگی میں خواہشات غالب آ جائیں تو وہ زندگی جہنم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی خواہشات کی خاصیت ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا مل جائے جو زیادہ عرصے تک خواہشات میں غرق رہنے کے بعد بھی خوش ہو۔ ایسے کسی شخص کو خدا نے پیدا نہیں کیا ہے۔ آپ جائیں، دیکھیں، تحقیق کریں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ ایک مسلمہ اور واضح بات ہے۔ خواہشات کے نرغے میں باقی رہنا انسان کے لئے جہنم کی زندگی بن جاتا ہے۔ یہ وہی جہنم ہے کہ جس میں آج مغرب کے کچھ متمول لوگ مبتلا ہیں اور جو متمول نہیں ہیں وہ غربت، لاچاری اور دوسری برائیوں کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ البتہ ان میں مستثنی افراد بھی ہیں۔ ہر طبقے میں یقینا مستثنی لوگ مل جائیں گے۔ وہاں اچھے انسان بھی ہیں لیکن عمومی حالت یہی ہے۔
آج کی دنیا اس بعثت کی محتاج ہے۔ ایران اسلامی میں ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت بھی دوسری حکومتوں کی طرح ہو۔ کچھ دن اس خاندان نے اور کچھ دن دوسرے خاندان نے حکومت کی اور اب مسلمین اور مومنین حکومت کر رہے ہیں۔ ہمارا قضیہ یہ نہیں ہے۔ ہمارا قضیہ ایک پیغام سے عبارت ہے۔ ایک بعثت کا قضیہ ہے۔ ہم دنیا والوں کے سامنے نئی بات پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے۔ یہ نئی بات اور نیا پیغام جس کا پہلا اثر خود ہماری زندگی میں اور ہمارے ملک میں نظر آنا چاہئے، دنیا میں ایک نیا راستہ پیش کرتا ہے۔ اس کو اسلامی جمہوریہ کے کارکن فراموش نہ کریں۔ یہ وہ نظام ہے جو اس لئے آیا ہے کہ بشریت کو بعثت کی حقیقت سے روشناس کرائے۔ یہ نظام گمراہ نظاموں، حکومتوں اور معاشروں سے کچھ سیکھنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم بہت برے ہوں، ہم میں بہت نقائص ہوں، اس پیغام کو پہنچانے کے لئے ہم بہت چھوٹے ہوں، مگر یہ پیغام نجات انسانیت کا پیغام ہے۔ اس پر سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ اس پیغام میں اپنے مزاج کے مطابق رد و بدل کریں، اس میں کچھ کمی بیشی کر دیں۔ نہیں' یہ پیغام پوری بشریت کے لئے ہے اور انسان اس کا محتاج ہے۔ ہم بشریت کے طرفدار ہیں۔ ہم بشریت کے دشمن نہیں ہیں۔ ہم دنیا کی تمام اقوام کے علم، پیشرفت اور آرام و آسائش کے طرفدار ہیں۔ ہمیں پتہ ہے ان کی تکلیف کیا ہے۔ انہیں معنویت کی ضرورت ہے اور معنویت یہاں ہے۔ البتہ معنویت مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اگر مسلط کی جائے تو دوسروں پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ ہم اس کو صرف پیش کرتے ہیں۔
یہاں دو نکات ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ ایک نکتے پر ہم اور آپ، اس نظام کے تمام حکام توجہ دیں! نکتہ یہ ہے کہ ہمیں صرف منتظم اور حاکم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ دنیا میں نئی فکر پیش کرنے والے کی حیثیت سے اس طرح عمل کرنا چاہئے اور اپنی رفتار و کردار کو پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھالنا چاہئے اور اس فکر کی خود مختاری اور اس کی خالص شکل کی حفاظت کرنی چاہئے۔
اس میں ایک نکتے کا تعلق دنیا کے عوام سے ہے۔ سامراج کے ذرائع ابلاغ عامہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو جارح اور دنیا کے تمام نظاموں کا قلع قمع کرنے پر آمادہ نظام کی حیثیت سے متعارف کرائیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں جو جس طرح چاہے زندگی گزارے۔ ہم صرف وہ چیز پیش کرتے ہیں جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ امیرالمومنین علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ طبیب دوار بطبہ قد احکم مراحمہ و احمی مواسمہ ہمارے پاس بشریت کے آج کے مسائل کی دوا موجود ہے۔ جو نہ چاہے نہ لے۔ ہم کسی سے لڑتے تو نہیں ہیں۔ اگر انسان آج تشخص کے بحران سے دوچار ہے، معنویت کے فقدان میں گرفتار ہے، انسانی روایات کی بے حرمتی سے تکلیف میں ہے کہ باپ بیٹے پر رحم نہیں کرتا، بیٹا باپ کا احترام نہیں کرتا، ماضی کی روایات کا پاس نہیں کرتے، اپنی ذاتی اقدار کے علاوہ دیگر اقدار کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، تو یہ ایک المیہ ہے۔ آج مغربی اقوام اس بحران سے دوچار ہیں اور اس کا علاج اسلام کے پاس ہے۔ اگر آج دنیا میں دولت مندوں کی دولت روز بروز بڑھ رہی ہے اور کچھ افراد اور کمپنیاں افسانوی انداز میں اربوں کما رہی ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو راتوں کو سڑکوں کے کنارے کارٹون بچھا کر سوتے ہیں تو یہ مغرب کی مشکلات ہیں۔ اگر شادی کرنے کی ہزاروں سفارشات، اور خاندان کی تشکیل کے تمام تر تشہیرات کے باوجود مغربی ملکوں میں خاندانی بنیادیں روز بروز کمزور سے کمزورتر ہوتی جا رہی ہیں، اگر لڑکے اور لڑکیاں موجودہ صورتحال پر راضی نہیں ہیں، جو لوگ خود اس جرم میں شریک ہیں وہ بھی تکلیف محسوس کر رہے ہیں، خاندان کی بنیادیں متزلزل ہیں اور بچے پریشان ہیں، اگر نفسیاتی بحران نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تویہ کس لئے ہے؟ اتنی زیادہ خودکشی کی وارداتیں کس لئے؟ گذشتہ چند مہینوں یا تقریبا ایک سال کے اندر امریکا میں جہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علم و دولت کی چوٹی پر پہنچ چکے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صرف انہیں چیزوں کی اہمیت ہے، کئ افراد قتل کر دیئے گئے۔ اب وہ کتے بلی سے محبت اور ہمدردی کے اظہار کے لئے ہیلی کاپٹر لیکے بیابانوں میں اپنے گمشدہ کو تلاش کریں، کیا اندھے ہیں؟ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟ ایک شخص ریل کے ڈبے میں داخل ہوتا ہے اور مشین گن سے فائرنگ کرکے کئی افراد کو قتل کر دیتا ہے۔ اس ڈبے سے نکلتا ہے تو دوسرے ڈبے میں جاتا ہے وہاں بھی کئی افراد کو قتل کرتا ہے۔ اگر بشریت ان بیماریوں میں مبتلا ہے اور علاج نظر نہیں آتا تو ہم کہتے ہیں علاج یہاں ہمارے پاس ہے۔ علاج اسلام ہے۔ علاج آج کی دنیا میں بعثت کی تجدید ہے۔ آج آپ ہراول دستہ ہیں۔ ایرانی قوم ہراول دستہ ہے۔ اس کو عمل کرنا چاہئے اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔
اب وہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایران کا سب سے جھگڑا ہے۔ ایران کو سب پر اعتراض ہے۔ نہیں، ایران کو صرف مستکبر حکومتوں کی جاسوسی کی تنظیموں پر اعتراض ہے جو ان ملکوں کے گھناؤنے ترین مراکز میں شامل ہیں۔ ہمیں ان پر اعتراض ہے جو یہ پروپیگنڈے تیار کرتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، ان غیر ملکی نشریات کے پروپیگنڈے کون ترتیب دیتا ہے؟ مثلا یہی بی بی سی کے پروپیگنڈے کون تیار کرتا ہے؟ برطانوی انٹیلیجنس کی تنظیم اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور یہ پروپیگنڈے تیار کرتی ہے۔ ہم ایک ملک اور قوم ہیں اور ہمارا ایک پیغام ہے۔ ہم طاقت و توانائی اور قابل فخر ماضی رکھتے ہیں۔ ہمارا ماضی بھی درخشاں تھا اور حال بھی درخشاں ہے۔ آج کے دور میں امام خمینی جیسی ہستی ہمارے درمیان تھی اور ایسی کوئی شخصیت نہ آج کے دور میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی ماضی قریب میں نظر آتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں کہ جنہوں نے اپنی عظمت کا اعتراف ساری دنیا سے کروایا ہے۔ ایسی مائیں، ایسے باپ، ایسے خاندان ہیں اور ایسے سائنسداں ہیں کہ ہمیں کسی کی محتاجی نہیں ہے۔ کسی سے خوف بھی نہیں ہے۔ کسی سے بھی۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس ملک کے پیچھے جائیں۔ یا کسی جگہ کو فتح کریں، کسی جگہ کو مسمار کریں۔ کسی جگہ دھماکہ کریں۔ یہ انسانیت مخالف نظاموں کا کام ہے۔ یہ ان حکومتوں کا کام ہے جو آج اس طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ یہ ہمارے کام نہیں ہیں۔
ہمارا پیغام اسلام ہے۔ اسلام پھیلنے کے عوامل میں سے ایک، جیسا کہ میں نے عرض کیا، نرمی ہے۔ ما کان رفق فی شئ الا ذاتہ یعنی نرم ہونا، ہموار ہونا، نرمی کا مطلب سستی نہیں ہے۔ نرمی کا مطلب کمزور ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ناہموار نہ ہونا ہے، جگر خراش نہ ہونا ہے۔ آپ کسی سخت چیز پر جیسے فولاد پر ماریں تو آپ کے ہاتھوں میں درد کا احساس ہوگا، چبھن کا احساس ہوگا۔ نرمی کا مطلب یہ ہے کہ ہموار ہو، کسی چیز پر ہاتھ پھیریں تو ممکن ہے کہ آپ کے ہاتھوں پر خراش آ جائے زخم آ جائیں حالانکہ وہ چیز ممکن ہے کہ فولادی نہ ہو، لکڑی کا ایک ٹکڑا ہو۔ ممکن ہے لکڑی اس طرح کاٹی جائے کہ ناہموار ہو۔ بعض لوگ ناحق، غیر مدلل، بے معنی بات اس طح کرتے ہیں کہ سب کو نشتر کی سی چبھن کا احساس ہونے لگتا ہے اور ممکن ہے کہ کوئی بامعنی، قوی اور صحیح فکر کو اس طرح بیان کرے کہ کسی بوجھ کا احساس نہ ہو، بات بالکل آسان لگے۔ اسلام کی یہی خصوصیت ہے۔ قرآن کی یہی خصوصیت ہے۔
ہمارے لئے بعثت کا سب سے اہم درس یہی ہونا چاہئے۔ بھائیو اور بہنو' درس قرآن یہ ہونا چاہئے کہ ہم ایک نیا پیغام پہنچانے والے ہیں اور ہم خود اس نئی بات کی حفاظت کریں۔ دوسرے یہ کہ ہمارے پاس جو ہے اس کی انسانوں کو اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ زندگی کی خوبیوں سے محروم اور نابلد ہیں۔ ان چیزوں کو جو ہمارے پاس ہیں، دنیا کے ان مفکرین کی باتوں سے مخلوط نہ کریں جنہوں نے اپنے عوام کے لئے زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔
تیسرے یہ کہ دوسروں کی بڑی بڑی باتوں سے مرعوب نہ ہوں۔ ہمارے پاس منطق ہے۔ ہمارے پاس حقانیت کا پیغام ہے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز صحیح نہیں ہوئی تو سمجھ لیجئے کہ اس کا صحیح ہونا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے صحیح مالک کے پاس جائیں تا کہ وہ اسے صحیح کرے۔ منطقی، مستحکم اور قوی بات۔ یہ وہی مشعل ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روشن کی ہے۔ اس مشعل نے اس دور کی دنیا کو روشن کیا، اس دور میں تہذیبوں کی، ایک تہذیب کی نہیں متعدد تہذیبوں کی بنیاد رکھی۔ آج بھی یہ شمع ایسا ہی کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس دور میں بھی دنیا کے پاس نئی چیزیں تھیں۔ علم تھا، پیشرفت تھی۔ انطاکیہ تھا، روم تھا، یونان تھا، ایران تھا، ہگمتانہ تھا، پرسپولیس تھا، اس دور میں بھی دنیا علم سے بالکل ہی خالی نہیں تھی۔ لیکن جب یہ مشعل روشن ہوئی، جب یہ سورج نکلا تو تمام شمعوں کی روشنیاں ماند پڑ گئیں اور یہ نور سب پر غالب آ گیا۔ لیظھرہ علی الدین کلہ اسلام فطری طور پر معنویت کے غلبے کے لئے آیا تھا۔ جب سورج نکلے تو آپ ایک ہزار شمعیں اس کے سامنے رکھہ دیں، روشنی نہیں دیں گی۔ بعثت اسی طلوع اور غلبے کا نام ہے۔ یہ وہی مشعل ہے، وہی چراغ ہے، وہی سورج ہے۔ اس کی قدر کریں۔ بعثت کو اپنے وجود میں اپنی زندگی میں شمع فروزاں کی مانند روشن رکھیں۔ خدا سے نصرت طلب کریں، یقینا خدا مدد کرے گا۔
پالنے والے ہمیں امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعاؤں کا مستحق قرار دے۔ ہمیں اپنی رحمت اور ہدایت عنایت فرما۔ ہمارے قلب، ہمارے جسم، ہمارے عمل، ہماری زبان اور ہماری فکر کو نورانی کر دے۔ ہمیں اور ہماری ذریت کو اسلام سے زندہ رکھ اور اسلام پر ہی موت دے۔ ہمارے امام خمینی کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ اس عید کو پوری دنیا کے تمام مومنین و مومنات کے لئے مبارک کر۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 30 آبان سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 21 نومبر سنہ 1993 عیسوی کو ہفتہ رضاکار فورس کی مناسبت سے بسیج (عوامی رضاکار فورس) کے کمانڈروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 12 آبان سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 3 نومبر سنہ 1993 عیسوی کو عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے طلباء کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں چار نومبر کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالی اور اس دن رونما ہونے والے اہم ترین واقعات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 7 مہر سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 29 ستمبر سنہ 1993 عیسوی کو پاسداران انقلاب اسلامی کی چھاونی انصار الحسین میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقعے پر خطاب میں پاسداران انقلاب فورس کے اخلاص عمل کا ذکر کیا۔ آپ نے اس مسلح فورس کے دنیا میں عدیم المثال خوبیوں کا حامل قراردیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 25 شہریور سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 16 ستمبر سنہ 1993 عیسوی کو پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے جوانوں اور عہدیداروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ خطاب میں آپ نے ملت ایران کو دنیا میں ممتاز مقام کی حامل قوم اور پاسداران انقلاب فورس کو اس قوم کی چنندہ جماعت سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام کے خلاف دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی مشترکہ سازشوں کے بارے میں گفتگو کی اور ان تمام سازشوں کا سامنا کرنے میں ملت ایران کی کامیابی کو اہم پیغام قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین پر خاص طور سے روشنی ڈالی اور اس تعلق سے عرب حکمرانوں کی کارکردگی پر نکتہ چینی کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 3 شہریور سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 25 اگست سنہ 1993 عیسوی کو صدر ہاشمی رفسنجانی کے دوسرے دور صدارت کے آغاز کے موقعے پر صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں حکومت اور عہدیداروں کے فرائض پر گفتگو کی۔ آپ نے اس خطاب میں عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ مجریہ کے بھرپور تعاون کو لازمی قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 شہریور سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 4 اگست سنہ 1993 عیسوی کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ملک کے حکام اور مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں اسلام کی دونوں عظیم الشان ہستیوں سے ملنے والی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اس خطاب میں اتحاد بین المسلمین پر خاص تاکید فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیغمبر اکرم کی مجاہدانہ زندگی اور انتہائی دشوار اور ناسازگار حالات میں تبلیغ دین کے لئے آپ کی مساعی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ظاہر ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام یہ نہیں تھا کہ پوری دنیا کی اصلاح کریں۔ نہیں بلکہ آپ کا کام یہ تھا کہ یہ صحیح اور عملی نمونہ وحی سے حاصل کرکے انسان تک پہنچا دیتے تا کہ انسان زندگی میں اس کی پابندی کرے اور ہر لمحہ اس سے استفادہ کرے۔ اب یہ کہ کس نے عمل کیا اور کس نے ضائع کر دیا، یہ دوسری بحث ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج انشاء اللہ ایرانی قوم کے لئے ایک مبارک دن ہے۔ ہمارے عزیز، محترم اور با لیاقت صدر کی حکومت اور ذمہ داری کا دوسرا دور درحقیقت عالمی حالات اور دشمنوں کی کوششوں اور ان کے اہداف کے پیش نظر ایک بڑی نعمت الہی ہے۔ البتہ مجھے پہلے اپنے عزیز عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہی تھے جو میدان میں آئے، انتخاب میں بھرپور شرکت کی اور الیکشن صحیح طور پر انجام پایا۔
ہم اس الیکشن اور اس بات پر خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جناب ہاشمی رفسنجانی نے الحمد للہ یہ ذمہ داری سنبھالی ہے۔ مجریہ پر ہماری تاکید کی وجہ ملک کی بقا و پیشرفت میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ ملک چلانے کے بنیادی امور کا کم سے کم نصف حصہ مجریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر پالیسیوں، منصوبوں اور پروگراموں کو پچاس فیصد سمجھیں تو امور مملکت کا کم سے کم پچاس فیصد حصہ اس مدیر سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذمے منتظمہ ہے۔ کوئی بھی شعبہ چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، چاہے جتنی وسعت رکھتا ہو اگر اس کا سربراہ اس کو چلانے کی ضروری صلاحیت رکھتا ہے تو انسان مطمئن رہتا ہے کہ سارے کام ٹھیک طور پر انجام پائیں گے۔
میری نظرمیں کسی بھی سربراہ میں تین باتیں ہونی چاہئیں۔ اول یہ کہ خود اس عمل اور کام کے لئے تیار ہو۔ سستی، کاہلی، لاپرواہی اور کام کو تقدیر کے سپرد کرکے بیٹھ جانا، پہلی بلا ہے جو کسی بھی مدیر کو ضروری شرائط سے عاری کر سکتی ہے۔ کام میں سنجیدہ ہونا، کام میں سست نہ ہونا، کام، اقدام اور اس فریضے کی انجام دہی میں جو قبول کیا ہے، ذمہ داری کا احساس بہت اہم ہے۔ بنابریں اگر ملک کے کسی شعبے میں کوئی یہ احساس کرے کہ اس کام کے لئے ضروری صلاحیت اس کے اندر نہیں ہے تو معلوم نہیں ہے کہ اس کو قبول کرنا جائز ہوگا یا نہیں۔ کیونکہ اس کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ قبول کرے اور عہد کرے کہ اس کام کو انجام دے گا جو بغیر صلاحیت اور لیاقت کے ممکن نہیں ہے۔ مدیر اور سربراہ کے بارے میں یہ پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا ملک کے بنیادی منصوبوں اور پالیسیوں کے مطابق آمادگی، استعداد اور کام انجام دینے کا عہد ہے۔ اگر کسی مسئلے میں ملک کی پالیسی معین ہے تو اجرائی امور کی ذمہ داری قبول کرنے والے کو اسی ہدف کے ساتھ اس میں میں آگے بڑھنا ہے۔ چاہے خود اس نے مکمل طور پر اس پالیسی کی تائید نہ کی ہو، اگر چہ کسی پالیسی کا نفاذ کرنے والا اگر اس کو قبول نہ کرتا ہو تو معلوم نہیں ہے کہ اس کو کس حد تک صحیح انجام دے گا، لیکن جو چیز لازم ہے اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ مدیر، سربراہ اور وزیر جس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے، کام کو اسی پالیسی کے تحت انجام دے جو پالیسی ساز نے تیار کی ہے۔ یہ بھی وہ نکتہ ہے جو انتظامی اور کا دوسرا اہم ستون ہے۔
تیسرا ستون، طہارت و تقوی کی حفاظت ہے۔ عمل میں پاکیزگی کی حفاظت ہے۔ غیر شرعی، غیر مسلمہ اور غیر اخلاقی اہداف سے احتناب ہے۔ یہ تیسری صلاحیت ہے۔ اچھا مدیر وہ ہے کہ جو بھی کام قبول کرے، صحیح اخلاقی اصولوں کی پابندی کے ساتھ اس کو انجام دے۔ اسلامی نظام میں جس چیز کی سختی سے محالفت کی جاتی ہے وہ بدعنوانی ہے۔ اسلامی نظام میں برے اور غلط نظریئے کی اتنی شدید مخالفت نہیں ہوتی جتنی کہ غیر اخلاقی عمل اور خدا نخواستہ بدعنوانی پھیلنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ تعمیر نو کے اس دور میں، ملک کے حکام، عہدیداروں، دوسرے اور تیسرے درجے کے ذمہ داروں سے لیکر نچلی سطح تک سبھی افراد کو جس چیز کا خیال رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اس دور میں بدعنوانی پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ بہت سنجیدہ ہے۔ بدعنوانی خود تو نہیں کہے گی میں بدعنوانی ہوں بدعنوان شخص، جو دوسروں کو بھی بدعنوانی کی طرف لے جاتا ہے، مالی بدعنوانی کی طرف، کام کی بدعنوانی کی طرف، غیرقانونی اور ناجائز طور پر کام چھوڑ دینے کی طرف لے جانا چاہتا ہے، لوگوں میں لغزش پیدا کرتا ہے، اکساتا ہے، وہ شروع میں ہی تو نہیں کہتا کہ میں تم لوگوں کو بدعنوانی میں مبتلا کرنے کے لئے آیا ہوں پہلے وہ ایک جواز کے ساتھ اور ایک چھوٹی سی شکل میں اس میدان میں اترتا ہے۔ انسان ہے، اس کے قدموں میں لغزش پیدا سکتی ہے۔ لغزش کا امکان اس کے اندر بہت ہے لہذا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔
مجریہ پر ہمارے بھروسے اور پروردگار عالم کے اتنے شکر کی وجہ یہ ہے کہ امور مملکت ایک جانے پہچانے اور تجربے کار شخص کے ہاتھ میں ہیں۔ میں جھتیس سال، تقریبا چالیس سال سے انہیں نزدیک سے جانتا ہوں۔ مختلف میدانوں میں ایک ساتھ رہے ہیں۔ ایک ساتھ کام کیا ہے اور ہم فکر رہے ہیں۔ چالیس سال کا امتحان کسی انسان پر اعتماد کے لئے کافی ہے۔ اس تمام عرصے میں میں نے انہیں راہ خدا میں، راہ حقیقت میں، کلمہ دین کی سرافرازی کی راہ اور اسلامی اہداف کو آگے بڑھانے کی راہ میں پایا ہے۔ اس راہ سے الگ اور ہٹتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
ہماری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ ایک اعلی عہدیدار میں یہ کردار پایا جاتا ہے۔ شرکائے کار بھی جہاں بھی ہیں، اسی خصوصیت کے مالک ہیں۔ البتہ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کئی برسوں کے دوران مجریہ کے کام کا جو تجربہ مجھے حاصل ہوا ہے، اس سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک مدیر اگر یہ چاہے کہ جہاں تک اس کا دائرہ کار ہے ماحول پاک اور صحتمند رہے تو انجام کار میں موثر نچلی ترین سطح تک کا خیال رکھے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے یہاں ایک اچھا وزیر متعین کر دیا ہے، اب ہمارا کام ختم ہو گیا۔ نہیں؛ اس وزیر کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے معاون اچھے ہوں۔ اچھے عہدیداروں کا تعین کرے۔ مختلف شعبوں کے انچارج اچھے ہوں۔ البتہ کام جتنا بڑا ہوگا معیار اتنا ہی اعلا ہوگا۔ اعلا سطح کے عہدیدار سے جو توقع ہے وہ دوسرے درجے کے عہدیدار سے نہیں ہے لیکن اچھائی، سالم ہونا، کام کی شناخت، کام کرنے میں دلچسپی، تقوی و پاکیزگی ہر سطح کے لوگوں میں ہونی چاہئے۔
میں نے ملک کے حکام سے مختلف جگہوں پر بارہا عرض کیا ہے کہ کسی دور افتادہ گاوں یا شہر کے لوگ، نظام کو مقامی حاکم یا پولیس چوکی کے انچارج یا متعلقہ عہدیدار کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں صدر مملکت، وزیر، نائب وزیر سب کچھ وہی ہے جس سے انہیں سروکار ہے۔ اگر وہ صحیح ہو، امین ہو، لوگوں کا ہمدرد ہو، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کا پورا نظام اسی طرح ہے۔ اگر خدانخواستہ غلط ہوا تو لوگ اسی سے حکومت کو پرکھیں گے اور اس کو روکا نہیں جا سکتا۔
انشاء اللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ حکومت ہمارے ملک اور ایرانی قوم کو مبارک ثابت ہوگی۔ اس حکومت کے آغاز میں تاکید کے ساتھ میری سفارش یہ ہے کہ شرکائے کار کا انتخاب بہت اہم ہے۔ البتہ وزیروں کی سطح پر کافی دقت نظری سے کام لیا جاتا ہے۔ صدر مملکت بھی اور پارلیمنٹ بھی، بہت اچھی طرح تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے مگر اسی پر اکتفا نہ ہو۔ میں ان محترم وزیروں سے جو مختلف شعبوں کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں یا سنبھالیں گے، عرض کرتا ہوں کہ اپنے شعبے میں، ہر معاون، ہر مدیر، ہر انچارج کا انتخاب، الہی معیاروں کے مطابق کریں۔ ماہر، لائق، پاک اور ایک مدیر کے لئے ضروری ہے کہ ان صفات سے آراستہ ہو۔
دوسرا مسئلہ پالیسیوں اور منصوبوں کا ہے۔ اقتصادی پالیسیوں کے تعلق سے میں صرف ایک جملہ عرض کروں گا، الحمد للہ ہماری محترم حکومت نے پہلا منصوبہ آخر تک پہنچایا اور بہت جلد دوسرا منصوبہ، ایک سال یا اس سے کم مدت میں شروع کرے گی، اسلامی نظام میں بنیاد، عوام کی آسائش اور سماجی انصاف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے ہمار نمایاں فرق یہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اساس اقتصادی ترقی، اقتصادی پیشرفت اور پیداوار نیز دولت میں اضافہ ہے۔ جو زیادہ اور اچھی مصنوعات اور دولت پیدا کرے وہ آگے ہے۔ وہاں اس کی پرواہ نہیں ہے کہ امتیاز اور دوری پیدا ہو جائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کو لوگوں کی آمدنیوں میں فاصلہ بڑھ جانے اور عوام کے ایک بڑے حصے کے آسائش سے محروم ہو جانے کی پرواہ نہیں ہوتی۔ حتی سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی تقسیم کا سسٹم بھی خراب اور ناقابل قبول ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کہتا ہے یہ بات بے معنی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ دولت جمع کرو تا کہ اسے تم سے لیکر تقسیم کر دیں۔ یہ بیکار بات ہے۔ اس طرح ترقی نہیں ہوگی اسلامی نظام اس طرح نہیں ہے۔ اسلامی نظام دولت مند معاشرہ چاہتا ہے، غریب اور پسماندہ معاشرے پر یقین نہیں رکھتا۔ اقتصادی ترقی کا قائل ہے لیکن اقتصادی ترقی سماجی انصاف اور عوام کی آسائش کے لئے چاہتا ہے۔ اس نظام میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی غریب نہیں ہونا چاہئے، محروم نہیں ہونا چاہئے، عام رفاہی وسائل سے استفادے میں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ جس نے خود جو وسائل حاصل کئے ہیں وہ اس کے ہیں۔ لیکن جو چیز عمومی ہے جیسے مواقع اور امکانات، یہ پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کوئی سرکاری حکام کے سہارے اور خدا نخواستہ، غلط روشوں اور چالوں سے کام لیکر مراعات حاصل کر لے اور افسانوی انداز میں ترقی کرے اور پھر کہے جناب یہ دولت میں نے خود کمائی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ چیز نہیں ہے۔ جس دولت کی بنیاد صحیح نہیں ہے وہ ناجائز ہے۔
سوشلسٹ نظام سے ہمارا اتنا ہی فرق ہے۔ سوشلسٹ نظام عوام سے مواقع سلب کر لیتا ہے۔ کام، پیداوار، دولت، پیداوار کے وسائل، سرمائے اور پیداوار کے اہم منابع سب حکومت کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ یہ غلط انداز ہے۔ اسلام میں یہ چیزنہیں ہے۔ نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ وہ بھی غلط ہے اور یہ بھی غلط ہے۔ اسلامی اقتصادی نظام صحیح ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی اقتصادی نظام کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں جو بھی مصلحت ہو ویسا عمل کیا جائے۔ جی نہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا نظریہ بھی یہ نہیں تھا۔ میں نے خود ایک بار ان سے پوچھا تھا۔
اسلام کی اپنی خاص روش ہے۔ جامع اقتصادی مسائل میں اسلام کا اپنا ایک راستہ ہے۔ ملک کی کلی اقتصادی پالیسی کی بنیاد، عوام کی آسائش اور سماجی انصاف پر استوار ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ کوئی زیادہ استعداد اور زیادہ کوشش سے اپنے لئے زیادہ سہولیات اور وسائل جمع کر لے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن معاشرے میں کوئی غریب نہیں ہونا چاہئے۔ منصوبہ سازی کرنے والوں کا ہدف یہ ہونا چاہئے۔ ملک کا پلاننگ اور منصوبہ ساز ادارہ، اس کلی سیاست کی بنیاد پر منصوبے تیارکرے۔
ثقافتی شعبوں میں بھی عرض کروں گا کہ یہ ہمیں سے مخصوص نہیں ہے۔ دنیا کی تمام زندہ اقوام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اس بات کی اجازت دے دی کہ اس کی قومی ثقافت، بیرونی ثقافتی یلغار میں پامال ہو جائے تو وہ قوم ختم ہو جائے گی۔ غالب قوم وہ ہے جس کی ثقافت غالب ہو۔ ثقافتی غلبہ اپنے ساتھ اقتصادی، سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی، ہر طرح کا غلبہ لاتا ہے۔
دنیا کے طاقتور ممالک کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں اپنی زبان رائج کریں۔ کیونکہ زبان ثقافت منتقل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے جو لباس، آداب، دین، عقائد اور سماجی نظریات سب کچھ منتقل کرتی ہے۔ آج عالمی طاقتیں حتی فوجی طاقت کے ذریعے اپنی ثقافت منتقل کرنا اور پھیلانا چاہتی ہیں۔ امریکی اپنی حکومت، اقتصادی اور سماجی نظام کے لئے جن روشوں کے قائل ہیں، ان کے ذریعے یہاں وہاں دنیا میں ہر جگہ لشکر کشی کرتے ہیں۔ یعنی اغیار کی ثقافتی یلغار یہاں بھی پہنچتی ہے مگر دوسرے ناموں سے جیسے انسانی حقوق وغیرہ۔ کوئی نہیں ہے جو امریکیوں سے پوچھے کہ دنیا میں کہاں سیاہ فاموں کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا ہے جو تم کرتے ہو؟ دنیا میں کہاں کئی سو افراد کو، عورتوں، مردوں اور بچوں کو ایک عمارت میں آگ لگا کر جلا کر مار ڈالتے ہیں؟ جہاں یہ ہو وہاں اعتراض کرو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ امریکا میں یہ کام ہوا ہے ۔ دوسری جگہ ہمیں ایسا کوئی کام نظر نہیں آیا۔ صیہونی بھی دنیا کے وحشی ترین انسان ہیں اور امریکیوں کی حمایت سے یہ کام کرتے ہیں۔
ثقافتی شعبے میں ملک کی پالیسی قومی ثقافت کی حفاظت اور اس سے مکمل اور شدید وابستگی پر استوار ہونی چاہئے۔ البتہ قومی ثقافت کا اہم ترین رکن اسلام ہے۔ ہم ایرانی عوام اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری ثقافت، زبان، آداب و رسوم، لباس سب کچھ ایک ہزار تین سو پچاس سال پہلے ہی اسلام سے آمیختہ ہو چکا ہے۔ شاید دنیا کی کوئی اور قوم اسلام سے اس طرح آمیختہ نہیں ہوئی ہے جس طرح ہم ہوئے ہیں۔ اسلام اور اسلامی آداب و ثقافت ہماری قومی ثقافت کا جز ہے۔ یہاںقومی اسلامی کے مقابلے پر نہیں بلکہ عین اسلامی ہے۔
قومی ثقافت یعنی اپنی تہذیب۔ اپنی ثقافت کی حفاظت ہونی چاہئے۔ البتہ اپنی ثقافت دیگر ثقافتوں سے بھی کچھ چیزیں اخذ کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اطلبو العلم و لو بالصین یہ بھی ثقافت ہے۔ یہ کہ دنیا میں ہر طرف جاکے اچھی چیزیں لائی جائیں یہ بھی جزو ثقافت ہے۔ اس کی بھی حفاظت ہونی چاہئے۔ لیکن جو ہمارے جسم کے لئے ضروری ہے اس کو تلاش کریں، جسم کو دیں نہ کہ ہم وہاں جاکے گر جائیں اور دوسرے آکے جو مصلحت سمجھیں ہمارے جسم میں انجیکٹ کریں۔ ایک مرے ہوئے اور بے ہوش انسان کی طرح، یہ اقتصاد، یہ ثقافت، یہ خود مختاری کی سیاست جو اسلامی جمہوری نظام کی سیاست کی بنیاد ہے، ہمارا اصلی نعرہ ہے۔ مکمل خودمختاری ہرلحاظ سے۔ یعنی کسی کی زور زبردستی قبول نہ کرنا۔ عالمی مسائل کو اپنے معیاروں کے مطابق حل کرنا اور اس راہ پر چلنا۔
مسئلہ فلسطین کو ہم اپنے معیاروں کے مطابق حل کریں گے اور اسی بنیاد پر فیصلے اور اقدام کریں گے اور دنیا کی کسی بھی طاقت کے تابع نہیں ہوں گے۔ بلقان کے مسئلے میں بھی اسی طرح عمل کریں گے۔ مسئلہ افغانستان میں بھی، آٹھ سالہ جنگ کے دوران، تمام پریشانیوں اور تنگ دستیوں کے باوجود ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اپنے اسلامی نظریئے کی اساس پر اس مسئلے میں عمل کیا۔ اگر یہ سیاست مدنظر ہو اور وہ انتظامی روش ہو تو امور مملکت اچھی طرج انجام پائیں گے۔ مگر پہلی شرط بے مثال قوم کا وجود ہے جس پر ملک کے حکام اعتماد کر سکتے ہیں۔ یہ قوم بہت عظیم اور بہت اچھی ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے اس قوم کو خوب پہنچانا تھا۔ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ جس نے آپ کی طرح اس قوم کی خصوصیات کو پہچانا ہو۔ جس طرح قرآن میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرمایا ہے کہ یومن باللہ و یومن بالمومنین امام اس قوم پر ایمان رکھتے تھے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ حضرت ولی عصر اروحنا فداہ کی عنایات اس حکومت، ہمارے صدر محترم، زحمت کش حکام، عظیم الشان قوم اور ہمارے بزرگوں کے شامل رہیں گی۔ بفضل پروردگار یہ قوم اس مقام تک پہنچے جو اس کے شایان شان ہے اور جس کا اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 6 مرداد سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 28 جولائی سنہ 1993 عیسوی کو حمزہ 21 چھاونی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقعے پر اپنے خطاب میں ایران کی مسلح فورسز کے اہم کردار اور ممتاز پوزیشن کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ اس قوم کی خود مختاری کا دفاع کر رہے ہیں کہ جو خودمختاری کے لئے اپنی لیاقت ثابت کر چکی ہے۔ آپ اس ملک کی سرحدوں اور عظمت کا دفاع کر رہے ہیں کہ تاریخ میں جب بھی فاسد طاقت برسراقتدار نہیں رہی اور اس کو موقع ملا ہے تو اس نے دنیا میں ایک عظیم انسانی ذمہ داری پوری کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھبیس تیر تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق سولہ جولائی انیس سو ترانوے عیسوی کو پولیس کیڈٹ یونیورسٹی میں جلسہ تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام میں پولیس فورس کے کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے پولیس فورس کو امین قرار دیا اور فرائض کی درست انجام دہی کی ضرورت پر تاکید کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 تیر سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 14 جولائی سنہ 1993 عیسوی کو وزارت تعلیم و تربیت، معذور افراد کی نگہداشت کرنے والے ادارے اور سوشل سیکورٹی کے محکمے کے کارکنوں سے خطاب میں اسلامی انقلاب سے رونما ہونے والے تغیرات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 تیر سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 14 جولائی سنہ 1993 عیسوی کو وزارت تعلیم و تربیت، معذور افراد کی نگہداشت کرنے والے ادارے اور سوشل سیکورٹی کے محکمے کے کارکنوں سے خطاب میں اسلامی انقلاب سے رونما ہونے والے تغیرات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس خرداد تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق آٹھ جون انیس سو ترانوے عیسوی کو عید غدیر کے موقع پر ملک کے سول اور دفاعی شعبوں کے اعلی حکام سے ملاقات میں عید غدیر کی اہمیت کو بیان کیا اور اس عید سے ملنے والے درس کا ادراک اور اس پر عمل کرنے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 6-3-1372 ہجری شمسی مطابق 26-5-1993 عیسوی کو عازمین حج کے نام تاریخی پیغام جاری فرمایا۔ آپ نے اپنے اس پیغام میں مناسک و اعمال حج کے رموز بیان کئے اور ان اعمال سے کما حقہ استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس پیغام میں عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے سیاسی و سماجی حالات کا مختصر جائزہ پیش کیا اور مختلف ملکوں میں مسلمان بھائیوں کے خلاف سامراجی سازشوں کی نشاندہی فرمائی۔ آپ نے الجزائر، سوڈان، مصر، عراق، فلسطین، بوسنیا اور کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے سد باب کے طریقوں کی جانب اشارہ کیا۔ تفصیلی پیغام مندرجہ ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ علی رسولہ الامین وعلی آلہ المیامین و اصحابہ المنتجبین والسلام علی جمیع عباد اللہ الصالحین۔ قال اللہ الحکیم ؛ واذا بوانا لابراھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شیئا للطائفین والقائمین والرکع السجود ۔ ایک بار پھر خدا کے ارادہ نافذ نے مومنین کو مرکز توحید، بارگاہ رحمت و فضل ربوبیت، کعبہ قلوب اور قبلہ جان مسلمین عالم کے مرکز میں جمع کیا ہے اور واذن فی الناس بالحج کی آواز مسلمان بھائیوں کے فطری اور مسلط کردہ خلاؤں پر غالب آئی ہے اور ان دلوں کو جو ایمان، عشق اور یکساں احتیاج کے ساتھ دھڑکتے ہیں، وحدت مسلمین اور مرکز توحید کی طرف کھینچ لائی ہے۔ طویل برسوں تک جہل وعناد کے ہاتھوں نے کوشش کی کہ عظیم اسلامی خانوادے کو اس مرکز میں بھی ان کی اعتقادی بنیادوں اور باہمی ایمانی تعلق اور محبت سے دور کر دے۔ مگر دوسری طرف ہر سال فریضہ حج اس قدیمی خانوادے کو وحدت اور توحید کا درس دیتا ہے اور ہرسال نئے شگوفے، پہلے سے زیادہ تجدید بہار ایمان، حیات دینی اور انس ومحبت اسلامی کی نوید دیتے ہیں اور دشمن کی کوششوں کو باطل کر دیتے ہیں۔ یہ معجزہ حج ہے کہ ان تنازعات اور لڑائیوں کے باوجود جن کے سبب مسلمان حکومتیں بارہا ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوئی ہیں، مسلمان اقوام کے ایمانی، فکری اور محبت و مہربانی کے رشتے ہرگز منقطع نہیں ہوئے اور ایک دوسرے سے ان اقوام کا تعلق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اگرچہ حج کے راز و رمز اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں گفتگو میں بیان کیا جائے، مگر ان کے درمیان ہر رمز شناس آنکھ پہلی نگاہ میں ہی تین نمایاں خصوصیات کو دیکھ لیتی ہے۔ پہلی یہ ہے کہ حج واحد فریضہ الہی ہے کہ خدا وند عالم جس کی ادائیگی کے لئے، تمام ان مسلمانوں کو جو استطاعت رکھتے ہیں، پوری دنیا سے گھروں اور عبادتخانوں کی خلوت سے نکال کر ایک خاص جگہ طلب کرتا ہے اور معینہ ایام میں، گوناگوں سعی وکوشش، حرکت وسکون اور قیام و قعود میں انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا اللہ ان اللہ غفور الرحیم دوسرے یہ کہ اسی اجتماعی اور آشکارا سعی و کوشش میں ذکر خدا کی برترین منزل مقصود یعنی قلبی اور روحانی کام کو پہچنواتا ہے۔ ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمت الانعام تیسرے یہ کہ اس کے روشن اور واضح منظر نامے میں ایک موحد انسان کی زندگی کی اجمالی تصویر پیش کرتا ہے اور عمل میں مسلمانوں کو بامقصد زندگی کے راز کا درس دیتا ہے۔ میقات میں پہنچنے، احرام باندھنے، لبیک کہنے، حالت احرام میں جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں انہیں ترک کرنے سے لیکر خانہ کعبہ کے گرد طواف، صفا و مروہ کے درمیان سعی، میدان عرفات اور مشعر میں رکنے، ذکر خدا مناجات اور وہاں کے آداب و اعمال، منی میں پہنچنے، قربانی کرنے، رمی جمرات، سرمنڈوانے یا بال ترشوانے اور پھر دوبارہ خانہ کعبہ میں واپس آکر طواف اور سعی تک، سب کے سب میدان توحید اور زندگی کی سعی میں اور اللہ کے محور کے گرد طواف کے لئے، مسلمانوں کے بامقصد اور معرفت آمیز اجتماعی اعمال کے واضح اور موثر درس ہیں۔ حج کے آئینے میں زندگی، مستقل تحریک اور مستقل پلٹ کے خدا کی جانب جانا ہے۔ حج وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا تعمیری عملی درس ہے کہ اگر ہم ہوش میں ہوں تو عملی میدان میں ہمارے سامنے زندگی کی روشن راہ و رسم پیش کرتا ہے۔ یہ ہمہ گیر اجتماع ہر سال ہوتا ہے تاکہ مسلمان، اس ماحول میں، وحدت، ایک دوسرے کو سمجھنے اور ذکر خدا کے سائے میں زندگی کے راستے اور جہت سے واقفیت حاصل کریں اور پھر اپنی سرزمین اور اپنے عزیزوں میں واپس جائیں۔ بعد کے برسوں میں دوسرا گروہ اور پھر کوئی گروہ آئے- جائے، سیکھے، ذخیرہ کرے، بولے، عمل کرے، سنے اور تدبر کرے اور سرانجام پوری امت وہ حاصل کر لے جو خدا چاہتا ہے اور دین نے سیکھایا ہے۔امت اسلامیہ کی زندگی پر نظر دوڑانا، اقوام، نسلوں اور قبیلوں سے ماوراء ہوکر دیکھنا، اپنے وجود کی گہرائیوں پر نظر ڈالنا اور راستہ، جہت اور طرز زندگی اس طرح اپنانا جو مناسب ہے اور یہ سب ذکر خدا کے سائے میں۔ یہ وہ فیاض اور لازوال سرچشمہ معرفت ہے جو ہرسال حج میں لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، حرم امن الہی میں جاری ہوتا ہے اور جو لوگ اپنے دل و دماغ کے ظرف کو کھول دیتے ہیں انہیں یہ سیراب کرتا ہے۔ماضی میں بھی یہ کوشش ہوئی ہے اور آج بھی یہ کوشش ہو رہی ہے کہ حج کو ایک انفرادی فریضہ، جس میں ہرایک صرف اپنی عبادت اور خدا سے دعا میں مصروف ہو، قرار دیا جائے۔ ان غفلت زدہ لوگوں کو چھوڑ دیں جو اس کو ایک تجارتی اور سیاحتی سفر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حج ان نمایاں خصوصیات کے ساتھ جو کسی دوسرے اسلامی فریضے میں ایک ساتھ نہیں پائی جا سکتیں، ان کی بے روشنی اور خطابین نگاہوں اور ان کی تنگ نظری کی بینش سے بہت بالاتر ہے۔ ہمارے زمانے میں جس عظیم ہستی نے حج کو پردہ اوہام سے باہر نکالا اور مسلمانوں کے اذہان اور عمل میں اس کے رازوں کو اجاگر کیا، وہ ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) تھے۔ آپ نے حج ابراہیمی کی آواز دی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی۔ آپ نے ایک بار پھر اذن فی الناس بالحج کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی۔ حج ابراہیمی وہی محمدی حج ہے کہ جس میں توحید اور اتحاد کی سمت بڑھنا، تمام شعائر اور اعمال میں سرمشق ہے۔ یہ وہ حج ہے جو برکت و ہدایت کا سرچشمہ اور امت واحدہ کے قیام اور حیات کا بنیادی ستون ہے۔ یہ حج ذکر خدا سے سرشار اور فوائد سے سے مملو ہے۔ یہ وہ حج ہے کہ جس میں مسلم اقوام ہمہ گیر امت محمدی اور اس میں اپنے وجود کو لمس کرتی ہیں اور اقوام کی قربت اور برادری کا احساس کرکے، کمزوری، عاجزی اور ناتوانی کے احساس سے رہائی پاتی ہیں۔ حج ابراہیمی وہ حج ہے کہ جس میں مسلمین تفرقے سے نکل کے اجتماعیت کی طرف بڑھیں اور کعبے کا، جو توحید کی یادگار اور شرک و بت پرستی سے نفرت اور برائت کی علامت ہے، اس میں جو مفاہیم اور رمز ہیں ان کی معرفت کے ساتھ اس کا طواف کریں، اعمال حج کے ظاہر سے ان کے باطن اور روح تک پہنچیں اور اس سے اپنی زندگی کے لئے اور امت اسلامیہ کی زندگی کے لئے توشہ حاصل کریں۔ اس وقت میں، خدا کی رحمت و ہدایت کی امید اور دنیا بھر سے آنے والے آپ مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے حج کے قبول اور پر ثمر ہونے کی دعا کے ساتھ اعمال حج پر تدبر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چند مفید باتوں کی جانب تمام مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ یاد دہانی کے طور پر عرض کرتا ہوں:1- پہلی بات توحید کے تعلق سے ہے جو حج کی روح اور بیشتر مناسک و اعمال حج کی بنیاد ہے۔ توحید کا مطلب، عمیق قرآنی مفہوم کے ساتھ، اللہ پر توجہ، اس کی طرف بڑھنا اور تمام بتوں اور شیطانی طاقتوں کی نفی اور ان کا رد کرنا ہے۔ ان شیطانی طاقتوں میں سب سے زیادہ خطرناک، خود اس کے باطن میں نفس امارہ اور گمراہی و پستی کی طرف لے جانے والی ہوا و ہوس ہے اور معاشرے اور دنیا کی سطح پر فتنہ انگیز اور فسادی استکباری طاقتیں ہیں جنہوں نے آج مسلمانوں کی زندگی پر پنجے گاڑ رکھے ہیں اور شیطانی روشوں سے کام لیکر بہت سی مسلم اقوام کے جسم و روح کو اپنی پالیسیوں سے مجروح کر رکھا ہے۔ حج میں برائت کا اعلان، ان طاقتوں سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ہر دیکھنے والی آنکھ اور عبرت آمیز نگاہ اسلامی معاشروں میں ان طاقتوں کے تسلط کا یا تسلط جمانے کی کوشش کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ ان میں سے بعض ملکوں میں، سیاست، اقتصاد، بین الاقوامی روابط، دنیا کے واقعات پر موقف، سب، تسلط پسند طاقتوں کے، جن میں سر فہرست امریکا ہے، زیر اثر ہے۔ ان ملکوں میں برائیوں، فحاشی اور حرام کاموں کا عام ہونا ان طاقتوں کی شیطانی پالیسیوں کےنفوذ کا نتیجہ ہے۔ حج اس کے اعمال اور توحیدی شعائر، حج کرنے والے ہر مسلمان کے لئے ضروری اور لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ ان تمام باتوں سے برائت اور بیزاری کا اظہار کرے اور یہ ان شیطانی باتوں کی نفی میں اسلامی ارادے کی تکمیل اور تمام اسلامی معاشروں میں توحید اور اسلام کی حاکمیت کی راہ میں پہلا قدم ہے ۔2- دوسری بات کا تعلق مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی سے ہے جو اعمال حج کا دوسرا نمایاں مفہوم ہے۔ اسلامی ملکوں میں یورپی استعمار کی آمد کے آغاز سے سامراجیوں کی ایک پالیسی مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش رہی ہے۔ کبھی فرقہ وارانہ اختلافات کا حربہ استعمال کیا اور کبھی قومیت اور دوسری باتوں کو ہوا دی۔ افسوس کہ منادیان وحدت اور مصلحین کی فریادوں کے باوجود دشمن کا یہ حربہ اب بھی امت اسلامیہ کے پیکر پر کسی حد تک وار اور زخم لگا رہا ہے۔ شیعہ وسنی، عرب و عجم، ایشیائی و افریقی اختلافات کو ہوا دینا، عرب، تورانی اور ایرانی نیشنلزم کو اٹھانے کا آغاز اگر چہ غیروں کے ذریعے ہوا ہے مگر افسوس آج بہت سے اپنے، کج فہمی کی بناء پر یا غیروں کی شہہ پر وہ کام کر رہے ہیں جو دشمن چاہتا ہے۔ یہ انحراف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بعض مسلم حکومتیں پیسے خرچ کرکے، اسلامی مذاہب اور مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ ڈالتی ہیں اور بعض عالم نما افراد، صراحت کے ساتھ بعض اسلامی فرقوں کے تاریخ اسلام میں جن کے درخشاں کارنامے ہیں، کافر ہونے کا فتوا صادر کرتے ہیں۔ مناسب ہے کہ مسلم اقوام ان کاموں کے پلید محرکات کو پہچانیں، ان کے پیچھے بڑے شیطان اور اس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کو دیکھیں اور خیانت کاروں کو بے نقاب کریں۔3-ایک اہم نکتہ جو تمام مسلمانوں کو جاننا، اس سے مقابلہ کرنا اور اس کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کرنا چاہئے، یہ ہے کہ آج تقریبا دنیا میں ہرجگہ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استکباری طاقتوں کی جانب سے سخت اور سازشی مہم جاری ہے۔ اگرچہ خود یہ مہم نئی نہیں ہے اور اس کی نشانیاں، یورپی سامراج کی تاریخ میں نمایاں ہیں، لیکن اس کے طریقوں کا متنوع ہونا، اس کا آشکارا ہونا اور بعض معاملات میں درندگی کے ہمراہ ہونا ایسی چیز ہے جس کی ابتک کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اس (جدید) دور کی پیداوار ہے۔ عالم اسلام کے موجودہ حالات پر ایک نظرڈالنے سے اس نئی صورتحال یعنی اسلام کے خلاف مہم کے شدید ہونے کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ وجہ مسلمانوں میں بیداری پھیلنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ ایک دو عشرے کے دوران عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں حتی غیر اسلامی ملکوں میں، مسلمانوں نے، حقیقی اور عمیق تحریک شروع کی ہے جس کو تجدید حیات اسلام کی تحریک کا نام دینا چاہئے۔ آج یہ نوجوان اور تعلیم یافتہ نسل، زمانے کے علوم سے بہرہ مند ہے۔ جس نے کل کے سامراجیوں اور آج استکباریوں کی توقع کے برخلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نہیں کیا ہے بلکہ پر جوش ایمان کے ساتھ، انسانی علوم سے فائدہ اٹھاکر پہلے سے زیادہ تیز بیں اور گہری نظر رکھنے والی ہو گئی ہے۔ اسلا کا رخ کیا ہے اور اپنے گم کردہ کو اس میں تلاش کر رہی ہے۔ ایران میں اسلامی جہوری نظام کا قیام اور اس کا روز افزوں استحکام اس مضبوط اور جوان تحریک کا نقطہ عروج ہے جس نے بذات خود مسلمانوں کی بیداری کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو استکبار کو جو اقوام کے عقائد اور مقدسات کی مخالفت کو آشکارا کرنے سے پرہیز کرتا رہا ہے ، مجبور کر رہی ہے کہ اسلام کی مخالفت میں آشکارا طور پر تمام ممکن روشوں سے اور بعض اوقات تشدد اور درندگی کے ساتھ میدان میں آئے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ایسے متعدد سربراہوں اور سیاستدانوں کو پہچانا جاسکتا ہے جنہوں نے اپنے بیانات میں کم سے کم ایک بار صراحت کے ساتھ اسلامی ایمان پھیلنے کو بڑا خطرہ قرار دیکر اس کے مقابلے کو ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایمان اور اسلامی عمل کی جانب مسلمان نوجوانوں کے رجحان میں جتنی وسعت آئی دشمنی اور گھبراہٹ کی عکاسی کرنے والے ان کے بیانات واضح تر ہوتے گئے اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ بعض اسلامی ملکوں کے سربراہ اور سیاستداں بھی، جو ہمیشہ اسلام سے دشمنی کو نفاق کے پردے میں چھپاتے رہے ہیں، اپنے امریکی اور یورپی آقاؤں کی پیروی میں کھلے عام اسلام کے خطرے کا راگ الاپ رہے ہیں اور جن لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں ان کے مقدس ایمان کو اپنے لئے خطرہ بتاتے ہیں۔ عالمی سطح پر اسلامی بیدار کے خلاف مہم کی مختلف شکلیں ہیں۔ الجزائر میں عوام کی اکثریت، مکمل طور پر جمہوری انتخابات میں اسلامی محاذ کو ووٹ دیتی ہیں۔ تشدد آمیز بغاوت کے ذریعے انتخابات کو منسوخ کرکے منتخب ہونے والوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور عوام کو کچل دیا جاتا ہے اور پھر امریکا اور یورپ کی استکباری طاقتیں سکون کا سانس لیتی ہیں اور بغاوت کرنے والوں کی حمایت کرکے اس میں اپنے خفیہ ہاتھ کو آشکارا کردیتی ہیں۔ سوڈان میں اسلامی جماعتیں عوام کی مکمل حمایت سے حکومت میں پہنچتی ہیں تو انواع و اقسام کی اشتعال انگیزی شروع کردی جاتی ہے اور اندر اور سرحدوں کے باہر سے مستقل انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ فلسطین اور لبنان میں فلسطینی مسلمانوں کو غاصب صیہونی انتہائی وحشیانہ انداز میں کچلتے ہیں اور انہیں ایذائیں دیتے ہیں اور امریکا ان درندہ صفت وحشی قاتلوں کی مدد کرتا ہے اور ان مظلوم مسلمانوں اور اپنا دفاع کرنے والے لبنانیوں پر دہشتگردی کا الزام لگاتا ہے۔ جنوبی عراق میں، عراقی عوام اسلامی جذبات اور نعروں کے ساتھ بعثی حکومت کے خلاف جد وجہد شروع کرتے ہیں تو بعثی حکومت ان پر انتہائی وحشیانہ انداز میں حملے کرتی ہے اور امریکا اور مغرب جنہوں نے دیگر معاملات میں صدام کے خلاف طاقت سے نمٹنے کے ارادے کا آشکارا اظہار کیا تھا، اپنی خاموشی سے اس کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہندوستان کشمیر میں، جاہل اور متعصب ہندو، حکومت کی چشم پوشی اور بعض اوقات اس کی مدد سے مسلمانوں کی جان اور ناموس پر حملے کرتے ہیں اور اس پر امریکا اور مغرب کی جانب سے مسکراہٹ اور بے اعتنائی کا اظہار ہوتا ہے۔ مصر میں اس ملک کی فاسد اور نالائق حکومت روشنفکر مسلمانوں کے ساتھ تشدد کرتی ہے اور امریکا اس وابستہ اور حقیر حکومت کو مالی امداد اور سیکیورٹی ایڈ دیتا ہے۔ تاجکستان میں مسلمان عوام کی اکثریت اسلام کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتی ہے، کمیونسٹ باقیات اسے سختی سے کچلتی ہیں۔ بہت سے لوگ بے گھر اور بے وطن ہوجاتے ہیں اور مغرب سابق سوویت کمیونسٹوں کی واپسی کی تمام تر تشویشوں کے باوجود اس کاوائی کو غنیمت سمجھتا ہے اور اسلام اور کمیونزم کے درمیان آشکارا طور پر اسلام کی دشمنی کا انتخاب کرتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں اسلام اور مسلم جماعتوں کی توہین کی جاتی ہے، ان پر الزامات لگائے جاتےہیں اور خواتین کے حجاب جیسے اسلامی احکام کی پابندی کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ حجاب پر پابند کی شکل میں اور مرتد مصنف کے ذریعے اسلام کی آشکارا توہین کی یورپی حکومتوں کے سربراہ مسلسل آشکارا حمایت کرتے ہیں حتی بدنام زمانہ برطانوی حکومت کا سربراہ، جس کا ماضی برائیوں سے بھرا ہوا ہے، اس ذلیل اور زرخرید مصنف سے ملاقات کرتا ہے۔ سب سے بدتر بوسنیا میں مسلمانوں کی ایسی نسل کشی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے کہ نسل پرست سرب اور حال ہی میں کروٹ بھی ان کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ سربیا کی حکومت کے وسائل اور اسلحے اور غیر ملکی امداد کے سہارے، بوسنیا کے مسلمانوں یعنی وہاں کے اصلی باشندوں کو وحشیانہ ترین ظلم وستم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کا قتل عام کر رہے ہیں، امریکا اور مغرب نے نہ صرف یہ کہ مظلوم کی کوئی مدد نہیں کی، سربوں کے وحشیانہ جرائم کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ سلامتی کونسل کے حربے سے کام لیکر، مظلوم مسلمانوں تک اسلحہ پہنچنے کی روک تھام کی اور اقوام متحدہ کی افواج بھیج کر ان کا محاصرہ مکمل کر دیا۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ بوسنیا کے المیے میں براہ راست امریکا اور یورپی حکومتیں ذمہ دار اور قصووار ہیں۔ اس ایک سال کے عرصے میں کچھ جھوٹے وعدے اور کھوکھلی باتیں کی ہیں لیکن بوسنیا کے ہزاروں قتل ہونے والے مظلوموں میں سے ایک کے قتل کو بھی نہیں روکا ہے اور اس سے بڑھ کر، ان کی اپنے دفاع کی توانائی کی بھی روک تھام کی ہے۔ یہ ہمارے زمانے میں اسلام اور مسلمین سے امریکا اور مغرب کی دشمنی کی اجمالی تصویر ہے۔ نہ التماس، نہ جھکنا اور نہ ہی مذاکرات، جس کی بعض سادہ لوحی کے ساتھ مسلمانوں کو تجویز پیش کرتےہیں، ان میں سے کوئی بھی راستہ، مسلمانوں کی مشکلات حل کر سکتا ہے نہ انہیں نجات دلا سکتا ہے۔ اس کا صرف ایک علاج ہے اور بس۔ وہ ہے، مسلمانوں کا اتحاد، اسلام اور اسلامی اصول واقدار کی پابندی، دباؤ کے مقابلے میں استقامت اور طویل مدت میں دشمن پر عرصہ حیات تنگ کر دینا۔ آج اسلامی دنیا کی نگاہیں، تمام اسلامی ملکوں کے رضاکار غیرت مند نوجوانوں پر ہیں کہ مرکز اسلام کا دفاع کریں اور اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔4- ایک اور اہم نکتہ جس پر تاکید ہونی چاہئے، یہ ہے کہ استکبار اپنی تمام شیطانی چالوں، طاقت، سیاسی حربوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کام لیکر اسلامی بیداری اور اسلام کی جانب رجحان کی تحریک کو روکنے میں کامیاب ہوا ہے نہ ہوگا۔ مختلف ملکوں میں اسلامی تحریک منجملہ ایران میں مقدس اسلامی جہموری نظام کے خلاف، امریکا، دیگر استکباری ملکوں اور ان کے علاقائی زرخریدوں کی ہمہ گیر سیاسی، سیکیورٹی اور سب سے بڑھ کر تشہیراتی مہم میں اتنی زیادہ وسعت آئی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس درمیان علاقے میں امریکا کی ناجائز اولاد، صیہونی حکومت نے انتہائی رذالت اور خباثت آمیز کردار ادا کیا ہے جس کی اس سے توقع بھی تھی۔ عام اور مادی اندازوں کے مطابق ان تمام ہمہ گیر کوششوں کے نتیجے میں جو مستکبرانہ بغض و عناد کے ساتھ انجام دی جا رہی ہیں، اسلامی ملکوں میں اسلامی تحریک کو کمزور اور ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن اس کے بالکل برعکس، جیسا کہ سب دیکھ رہے ہیں، یہ تحریک روز بروز محکم تر اور وسیع تر ہوئی ہے۔ اس وقت بہت سے ایسے اسلامی ملکوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ جس طرح دو سال قبل الجزائر میں ہوا اسی طرح ان کے ہاں بھی انتخابات کرائے جائیں تو، اسلامی جماعتیں اور اسلامی سرگرمیوں میں مصروف افراد ان ملکوں میں عوام کی اکثریت کا ووٹ حاصل کریں گے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ ان میں اکثر ملکوں میں اسلامی جماعتوں، حتی اسلامی سرگرمیوں میں مصروف افراد کی تشہیرات اور سیاسی مظاہروں پر بھی پابندی ہے۔ انہیں حالیہ برسوں میں، مقبوضہ فلسطین کی سرزمینوں میں، عوام کی اسلامی جد وجہد نے جن کا مرکز مساجد ہیں، صیہونیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ انہیں برسوں میں لبنان کی اسلامی جہادی جماعتوں نے، پارلمانی انتخابات اور عوامی پوزیشنوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی دور میں اسلامی جمہوریہ ایران نے جس کے بارے میں کچھ لوگ سادہ لوحی کے ساتھ توقع کر رہے تھے کہ، ناکام ہوجائے گا یا اپنے اصول و اقدار سے چشم پوشی کرلے گا، اپنے انقلابی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے، غیر متوقع رفتار کے ساتھ پیشرفت کی ہے۔ میں عالم اسلام کے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے عرض کرتا ہوں کہ آپ کو بدبین اور مستقبل سے ناامید کرنا دشمن کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ کافی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنے دل تک نا امیدی کو نہ پہنچنے دے۔ کوئی بھی چیز ہمیں نا امید ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر دشمن اس الہی تحریک کو ختم کرنے پر قادر ہوتا تو کم سے کم اس کے فروغ کو روک سکتا، مگر آپ سب دیکھ رہے ہیں وہ یہ بھی نہ کرسکا۔ الہی سنتیں اور زمینی حقائق نئی اسلامی تحریک کے روشن مستقبل کی نوید دیتی ہیں اور قرآن بارہا فرماتا ہے والعاقبۃ للمتقین 5- جدید اور عالمی تشہیرات یقینا استکبار کا کارآمد ترین حربہ ہے۔ آج ایسے اخبارات و جرائد اور صوتی و تصویری ذرائع ابلاغ عامہ کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جنہوں نے اپنی کوششیں اسلام کی دشمنی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ زرخرید ماہرین، ایسی خبروں، مضامین اور تبصرے و تجزیئے میں مصروف ہیں جن کا مقصد مخاطبین کو گمراہ کرنا اور اسلامی تحریک نیز اسلامی شخصیات کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ اسلامی جہموریہ ایران انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک بغیر کسی وقفے کے ان معاندانہ تشہیرات کی آماجگاہ رہا ہے۔ مگر کہنا چاہئے کہ فطرت و ضرورت پر استوار حقیقی اسلامی تحریک کے مقابلے میں یہ حربہ بھی کا میاب نہیں رہا اور دشمن کا مقصد پورا نہ کر سکا۔ پیغمبروں کے اس وارث کی ملکوتی شبیہ بگاڑنے کے لئے، ان تمام جھوٹے پروپیگنڈوں اور غلط باتوں کی تشہیر کے باوجود، پوری اسلامی دنیا میں امام (خمینی) طاب ثراہ کی اسلامی دعوت کا عام ہونا، آپ کی فکر، نام اور رہنمائیوں کا ہر جگہ پہنچنا اور دنیا کے مشرق و مغرب میں آپ کی تصاویر کا آویزاں ہونا ہمارے اس دعوے کی روشن ترین دلیل ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ مسلم اقوام کی فکر کی سلامتی اور استحکام کا ایک اہم عامل، علمائے کرام، روشنفکر حضرات، مصنفین، فنکاروں اور آگاہ و فعال نوجوانوں کی جانب سے حقائق کا بیان ہونا ہے۔ اس سلسلے میں سبھی بالخصوص راسخ العقیدہ علمائے دین کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن نے آج تک ہمیشہ، ایران اسلامی پر الزامات عائد کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی الزامات دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ تعصب اور فکری جمود کا الزام، جس کو بنیاد پرستی کا نام دیتے ہیں، دہشتگردی کا الزام، انسانی حقوق کو اہمیت نہ دینے کا الزام، ڈیموکریسی کی مخالفت کا الزام، خواتین کے حقوق سے بے اعتنائی کا الزام، صلح کی مخالفت اور جنگ کی طرفداری کا الزام، تھوڑا سا انصاف، ان الزمات کے بے بنیاد ہونے اور الزام لگانے والوں کی بے شرمی سے واقفیت کے لئے کافی ہے۔ ایران اسلامی پر ڈیموکریسی کی مخالفت کا الزام ایسی حالت میں لگایا جاتا ہے کہ عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پچاس دن بعد سے اس کے چودہ مہینے کے اندر دو ریفرنڈم انجام پائے جن میں سے ایک میں ایرانی عوام نے ملک کے سیاسی نظام کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ کا انتخاب کیا اور دوسرے میں ملک کے آئین کو منظوری دی۔ اس کے علاوہ آئین ساز اسمبلی کے اراکین، صدر جمہوریہ اور پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اراکین کے انتخاب کے لئے، تین الیکشن ہوئے اور اب تک صدر اور اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے لئے، ہمیشہ قانونی مدت میں آزاد انتخابات ہوئے ہیں جن میں عوام نے بھر پور شرکت کی ہے۔ ایران اسلامی پر دہشتگردی کا الزام وہ لوگ لگا رہے ہیں جنہوں نے دہشتگرد صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ حمایت کی ہے۔ ایران کے انقلاب مخالف دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی کی ہے، اور ان کے زرخریدوں نے سیکڑوں بار ایران کے اندر بم کے دھماکے کئے ہیں، ہزاروں عام لوگوں، انقلابیوں، بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں کا قتل عام کیا ہے۔ ایران پر صلح کی مخالفت کا الزام وہ لگاتے ہیں، جنہوں نے بعثی عراقی حکومت کو ورغلاکر ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی اور اس پورے عرصے میں، اس حکومت کو انواع و اقسام کی امداد دیتے رہے جو ایران پر حملے کی وجہ سے ان کی پسندیدہ ترین حکومت تھی۔ خواتین کے حقوق کی پامالی کا الزام وہ لگاتے ہیں کہ جو ایرانی خواتین کی اعلا شان و منزلت کو جو شرعی حدود میں رہتے ہوئے اور اسلامی حجاب کے ساتھ، ملک کی اعلاترین سرگرمیوں میں مصروف ہیں، پسند نہیں کرتے اور مغربی معاشروں میں عورت اور مرد کے روابط پر حکمفرما پستی اور عورتوں کے بزدلانہ استحصال و استفادے کو عورت کی سماجی زندگی کا بہترین معیار بتاتے ہیں۔ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام وہ لگاتے ہیں جنہوں نے خود حیرت انگیز اور بدترین شکل میں انسانی حقوق کو پامال کیا یا اس پامالی کے اسباب فراہم کئے ہیں۔ آج بوسنیا میں جس طرح انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں کیا نئی دنیا میں انسانی حقوق کبھی اس طرح پامال ہوئے ہیں؟ کیا فلسطینی قوم کے انسانی حقوق کی پامالی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا چار لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کو انسانی حقوق کی نام نہاد طرفدار دنیا کی آنکھوں کے سامنے، ان کے گھر اور وطن سے باہر نکال دینا ، چشم پوشی کے قابل ہے؟ کیا خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے کا امریکا کا اقدام، امریکا کے سیاہ فاموں کے ساتھ ناانصافی، الجزائر میں فوجی بغاوت کرنے والوں کی حمایت یا مصر کی فاسد حکومت کی طرفداری یا امریکا میں کچھ لوگوں کو زندہ جلا کے مار دینا اور اسی قسم کے دیگر واقعات، انسانیت کی توہین اور انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے؟ کیا وہ حکومتیں جو اس طرح نڈر ہوکر انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہیں یا اپنی حوصلہ افزا خاموشی سے انسانی حقوق کو پامال کرنے کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں، واقعی جیسا کہ وہ دعوا کرتی ہیں ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ناراض ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی حکام اور دیگر الزام لگانے والے جنہوں نے اس پرانے اور زنگ آلود تشہیراتی حربے کے ذریعے، نیا ہنگامہ شروع کر رکھا ہے، اچھی طرح جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جو بات انہیں پسند نہیں ہے، وہ یہ نہیں ہے بلکہ دوسری چیزیں ہیں اور سیاسی مصلحتیں انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ صراحت کے ساتھ ان کا اعلان کریں۔ اگرچہ ان کی پالیسیاں تیار کرنے والوں اور مصنفین کے بیانات کے تحلیل و تجزیئے سے ان کا مقصود آشکارا ہو جاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جو باتیں امریکا اور دیگر مستکبرین کی ناراضگی کا سبب ہیں وہ یہ ہیں: اول دین کا سیاست سے الگ نہ ہونا اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد۔ دوسرے اس نظام کی سیاسی خود مختاری یعنی سپر طاقتوں کی زور زبردستی کو نہ تسلیم کرنا۔ تیسرے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے واضح راہ حل کا اعلان جو اس بات پر مشتمل ہے کہ غاصب صیہونی حکومت ختم ہو، فلسطینیوں پر مشتمل فلسطینی حکومت قائم ہو اور فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی امن و آشتی کے ساتھ رہیں۔ چوتھے تمام اسلامی تحریکوں کی سیاسی و اخلاقی حمایت اور دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں پر دباؤ ڈالے جانے کی مخالفت۔ پانچویں اسلام، قرآناور پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ وآلہ و سلم ) اور دیگر انبیائے الہی کے مقام و مرتبے کا دفاع اور ان مقدس ہستیوں کی توہین کا مقابلہ، جیسا کہ شیطانی آیات کے مرتد اور واجب القتل مصنف کے معاملے میں دیکھا گیا۔ چھٹے اسلامی اتحاد، اسلامی حکومتوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعاون اور عظیم امت اسلامیہ کے قالب میں مسلم اقوام کے اقتدار کے استحکام کی کوشش۔ ساتویں اس مغربی ثقافت کی جس کو مغربی حکومتیں تنگ نظری اور تعصب کی بناء پر، دنیا کی تمام اقوام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں، نفی اور اسے مسترد کرنا اور مسلمان ملکوں میں اسلامی ثقافت کے احیاء پر اصرار۔ آٹھویں جنسی بے راہ روی کی مخالفت کہ بعض مغربی حکومتوں بالخصوص امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے اس کی انتہائی انحرافی اور بے شرمانہ ترین شکل کو سرکاری منظوری دی ہے یا اس کوشش میں ہیں اور دسیوں سال سے مختلف شکلوں میں یہ برائیاں اسلامی ملکوں میں پھیلانے کی منصوبندی اور کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ہیں اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دشمنی کی وجوہات۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ صراحت کے ساتھ اپنی دشمنی کی وجہ بیان کرکے اس فہرست کو سب کے سامنے لائیں تو مسلم اقوام کے دلوں میں جو اصول پسند ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کا مقام و مرتبہ بڑھ جائے گا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے پروپیگنڈوں میں ایک طرف ایران پر دہشتگردی اور اسی قسم کے دوسرے الزامات لگاتے ہیں اور دوسری طرف جعلی خبروں اور جھوٹے تجزیوں میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گویا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اصولوں سے دستبردار ہوکر دشمن کے مطالبات کے سامنے جھک گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں غلط اور استکبار کی فریبی چالیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اصول، وہی امام (خمینی رہ) کا بتایا ہوا راستہ اور اسلام کے بنیادی اصول ہیں ، دشمن کے کہنے کے برعکس ایران اسلامی میں بدستور معتبر اور سیاسی و سماجی زندگی کی بنیاد ہیں۔ ایران کی حکومت اور قوم حقیقی محمدی ( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسلام کے سائے میں زندگی سے، جو اس نے فداکاریوں اور عزیز ترین جانوں کی قربانی دیکر حاصل کی ہے، کسی بھی حال میں دستبردار نہیں ہوگی اور حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ ) کے اصول اور ان میں سرفہرست دین کے سیاست سے الگ نہ ہونے اور اسلام اور قرآن کو گوشہ نشین کرنے کے لئے مادہ پرستوں کے دباؤ کے مقابلے میں اسقتامت کے اصول ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران میں باقی رہیں گے۔6- آخر میں حجاج کرام سے سفارش کرتا ہوں کہ مسلمان بھائیوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے حج (کے موقع) سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، مسلمانوں کے رفتار و گفتار سے عالم اسلام کے حالات کو سمجھیں، ایک دوسرے سے تجربات، آرزؤوں، پیشرفتوں اور توانائیوں کا تبادلہ کریں اور اپنے حج کو اس حج سے نزدیک تر کریں جو اسلام کے پیش نظر ہے۔ ایرانی بہنوں اور بھائیوں سے میری سفارش ہے کہ اپنی رفتار و گفتار سے دوسرے ملکوں کے مسلمان بھائیوں تک پرشکوہ انقلاب، اپنے ملک اور قوم کا پیغام پہنچائیں۔ خانہ خدا، روضہ پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حج کے مواقف اور یادوں سے پر سرزمین حجاز میں اپنے مختصر قیام کو، دل میں یاد خدا کو زندہ کرنے، رسول خدا( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کی عترت طیبہ ( علیہم السلام) سے روحانی رابطے کو مستحکم تر کرنے بالخصوص حضرت ولی اللہ الاعظم سے کہ یقینا حج میں جن کی مقدس موجودگی صاحبان معرفت کے لئے فیض رساں ہوتی ہے، آپ سے توسل اور آپ کی عنایات حاصل کرنے، قرآن سے انس، اس کی آیات پر غور و فکر کرنے، دعا و مناجات اور توسل کے لئے جو یقینا تقرب خدا کا موجب ہے، غنیمت سمجھیں، اس سے بہرہ مند ہوں، مسلمانوں کی مشکلات دور ہونے اور اسلام نیز اسلامی جمہویہ کی عزت وطاقت میں روزافزوں اضافے اور حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی روح مطہرہ اور شہدائے اسلام کی ارواح طیبہ کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں ۔والسلام علیکم ورحمت اللہ 24 ذیقعدہ 1413 مطابق 28 اردیبہشت 1372
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اٹھارہ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق آٹھ مئی انیس سو ترانوے عیسوی کو شمالی ایران کے نوشہر نامی علاقے میں عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں ملک اور اسلامی انقلاب کے لئے اس خطے کے عوام کی خدمات اور ایثار کی تعریف کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بوسنیا ہرزے گووینا کا موضوع اٹھایا اور اس مسئلے میں بوسنیائی مسلمانوں کی مظلومیت اور بڑی طاقتوں کی فریبی چالوں کا ذکر کیا۔ آپ نے اس تعلق سے امریکا سمیت بڑی طاقتوں کی پالسیوں کی مذمت کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کا بھی ذکر کیا اور فلسطینیوں کی حمایت پر تاکید فرمائی۔ آپ نے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اٹھارہ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق سات مئی انیس سو ترانوے عیسوی کو نوشہر کے دورے کے دوران بحریہ کے مرکز میں فوجیوں سے خطاب کیا۔ آپ نے ملک و قوم کی توقعات بیان کیں اور عقیدہ و عمل کے سلسلے میں نہایت اہم نصیحتیں فرمائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پندرہ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق چار مئی انیس سو ترانوے عیسوی کو یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے اپنے خطاب میں معاشرے میں دونوں ہی طبقات کی اہمیت اور موثر کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اقتصادی خود مختاری کے حصول میں محنت کش طبقے اور ثقافتی خود مختاری کے سلسلے میں اساتذہ کی ذمہ داریوں کو بہت سنگین قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق ستائیس اپریل انیس سو ترانوے عیسوی کو حج کمیٹی کے عہدہ داروں اور کارکنوں سے ملاقات میں فلسفہ حج پر روشنی ڈالی اور اتحاد بین المسلمین نیز دیگر امور کے تعلق سے حج کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا۔ آپ نے حالات حاضرہ پر تصبرہ کرتے ہوئے فلسطین کے سلسلے میں جاری مغربی ممالک کی سازشوں اور کچھ عرب حکومتوں کی مغرب سے ساز باز پر تنقید کی۔ آپ نے امریکا میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جانب اشارہ کیا اور بوسنیا ہرزےگوویان کے سلسلے میں مغربی ممالک کے عیارانہ روئے کا پردہ فاش کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سولہ اپریل انیس سو ترانوے کو عالم اسلام اور مسلک تشیع کی مایہ ناز شخصیت، جلیل القدر عالم دین شیخ مفید علیہ الرحمۃ کے نام سے منعقدہ عالمی کانفرنس کے نام اپنے تفصیلی پیغام میں اس عظیم الشان شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور مذہب تشیع کے لئے ان کی حیاتی کوششوں و علمی کاوشوں کی جانب اشارہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مذہب تشیع کی اس عظیم شخصیت کے ایسے کارناموں کی نشاندہی فرمائی جو عام طور پر لوگوں کی نظروں میں نہیں ہیں: تفصیلی پیغام ملاحظہ فرمائیے:
16-4-1993
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین وافضل صلواتہ و ازکی تحیاتہ علی سیدنا النبی الاعظم محمد المصطفی وآلہ الغر المیامین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین روحی لہ الفداء
آج سے ہزار سال قبل بغداد کے حوادث سے بھرے ایک دن، بغداد کا میدان اشنان، لوگوں کے لئے تنگ پڑ گیا جو ایک غم انگیز واقعے کی وجہ سے وہاں جمع ہوئے تھے۔ اس پر ہزاروں آنکھوں نے گریہ کیا جس کی موت ایک عظیم سانحہ تھی۔ اس برگزیدہ انسان کی میت پر دسیوں ہزار لوگوں نے نماز پڑھی جس نے پچاس سال تک عالم اسلام کو اپنے علم و معرفت کی روشنی سے منور کیا اور دریائے دجلہ کے کنارے علم و معرفت کا ایک دریا جاری کر دیا تھا۔ عباسیوں کے دارالحکومت کے تلخ و خونیں حوادث کی آندھیاں اور بد خواہی و تعصب کے طوفان، اس چراغ علم وعمل کو خاموش نہ کرسکے جو اہلبیت علیہم السلام کے معارف اور علم قرآن کے شجرہ طیبہ سے متصل تھا اور جس نے مصباح خرد انسانی سے نور حاصل کیا تھا۔ کج فہمی و کج فکری کے خس و خاشاک، اس بحر خروشاں کو روکنے میں ناکام رہے کہ جس نے فقہ، کلام، معقولات اور علم حدیث کو زرخیز زمین تک پہنچا دیا تھا۔
جب شیخ مفید علیہ الرحمہ کی تشییع جنازہ میں دسیوں ہزار لوگوں نے شرکت کی اور سید علی مرتضی نے آپ کی نماز پڑھائی تو کینے سے پر اور حکمت و فراست سے عاری دلوں نے سمجھا کہ اس عظیم ہستی کا کام ختم ہوگیا اور انہوں نے آ پ کی رحلت کا جشن منایا۔
مگر ہر دانشمند کی آنکھ اور قلب اچھی طرح سمجھ سکتا تھا کہ فرزانوں کے اس قافلہ سالار کی موت، اس کے کاموں کا خاتمہ نہیں ہوسکتی اور اس کے پچاس سالہ فیضان نے فکر بشر میں علم و دانش، اخلاق و ثقافت اور حکمت کا ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور ارادہ الہی اور روایت تاریخ نے اس کو جاودانی اور نسلوں، ادوار اور صدیوں کو عبورکرکے، رشد انسانی کے دریائے بیکراں سے متصل ہونے تک اس کی بقا کو یقینی بنا دیا ہے۔
اس دن شیخ مفید کا نحیف و لاغر جسم بغداد کے درب الریاح میں آپ کے گھر میں سونپا گیا تاکہ ایک دن اسے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے روضہ اقدس میں منتقل کیا جائے اور رحمت الہی کے اس دارالسلام میں آپ کی آخری آرامگاہ ہو مگر آپ کی عظیم شخصیت جو چھپائی جاسکتی تھی نہ فراموش کی جا سکتی تھی، ہمیشہ زمانے کی آنکھوں میں باقی رہی، کبھی فراموش نہ ہوئی اور فقہ، کلام اور مذہب اہلیبت علیہم السلام کی نشر و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی۔
آج اس دن کے ایک ہزار سال بعد آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کی ہزار سالہ یاد منانے کے لئے بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کرکے اس عظیم سانحے کی یاد تازہ کرنے اور اس کوہ علم وتقوا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ دس صدیاں گذرجانے، علم و تمدن کی پیشرفت کی دس صدیاں گزرنے کے باوجود، نگاہوں میں جس کی عظمت و بلندی میں کوئی کمی نہیں آئی ۔
آج کی علمی نسل، شیخ مفید علیہ الرحمہ کی یاد منا کر اور آپ کی تصنیفات کی اشاعت کرکے در حقیقت، اس ہستی کے تئیں فریضہ سپاس پر عمل کر رہی ہے کہ جو خود اور اس کے افکار فقہ و کلام اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کو غنی اور مالامال کرنے میں بنیادی کردار کی مالک رہی اور ان ہزار برسوں میں انہیں شیعہ فقہ و کلام کی فلک بوس عمارت کا سنگ بنیاد تسلیم کیا گیا ہے، آپ تمام علمی کاموں کا سرچشمہ رہے ہیں ۔
زندہ علمی اور کلامی افکار و نظریات کے میدان میں، شیخ مفید علیہ الرحمہ کی موجودگی، ان کی کتابوں کی اشاعت اور ان کے افکار کے ذکر تک محدود نہیں ہے۔ اگر چہ کتابوں کی اشاعت اور ان کے افکار کی ترویج، ان کے بعد آنے والے فقہا و متکلمین پر ان کے احسان کے سپاس کا مقتضا ہے، مگر ان کی اصل موجودگی فقہ و کلام میں اس روش اور سبک کا دوام ہے جس کے بانی وہ خود ہیں ۔
اس عظیم ہستی کی قدردانی اور سپاس کی غرض سے اس کی ہزار سالہ یاد منانے کی یہ کانفرنس، سب سے پہلے تو، موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اس عظیم ہستی سے زیادہ آشنا کرے گی اور اس کی اہمیت سے واقفیت کے ساتھ اس کی تصنیفات سے بہرہ مند ہونے کے لئے زمین ہموار کرے گی اور دوسرے فقہ و معقولات کی تاریخ کے محققین کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ ان علوم کے رشد و تکامل کے مراحل، ان کی تشکیل اور بالندگی کی کیفیت اور تاریخ کے اس حساس دور میں ان کے عناصر تشکیل کی معلومات حاصل کریں۔ اس نکتے کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے کہ جب چوتھی اور پانچویں صدی ہجری پر علمی ادبی اور ثقافتی ترقی اور رشد کے دور کی حیثیت سے توجہ دیں اور تحقیق کریں۔
تیسرے مسلمان اور ہر فرقے اور مذہب کے محققین اور عام مسلم مفکرین کے لئے شیعہ مذہب کے بنیادی اور کلامی معارف سے وسیع واقفیت کے مواقع فراہم کرے گی۔ اس نکتے کی اہمیت اس وقت زیادہ آشکارا ہوتی ہے کہ جب اس بات پر توجہ دیں کہ آج دشمن کے زرخرید، زہر آلود، کینہ پرور اور نفرت انگیز قلم شیعہ اعتقادات کے بارے میں جو آج بڑے اسلامی مذاہب میں سے ہے اور مسلمین کی بیداری کا علمبردارہے، کتنی جھوٹی اور افترا آمیز باتیں لکھ رہے ہیں اور پھیلانے کی کوشش ہیں جو پوری تاریخ میں جو کچھ انجام پایا ہے (6) اس سے قابل موازنہ نہیں ہے۔
افسوس کہ اس گمراہ کن تحریک میں سیاسی اور استعماری محرکات آج ہر زمانے سے زیادہ آشکارا ہیں۔ حتی اس زمانے سے بھی زیادہ کہ جب بنی امیہ اور بنی عباس شیعہ مذہب کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانے کو پیروان اہلبیت علیہم السلام کے خلاف ہمہ گیر مہم کا جز اور ان کی سرکوبی کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اس نظر سے شیعہ عقائد ومعارف کی ہر تحقیق مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ کیونکہ دشمنان اسلام نے تفرقہ ڈالنے کے لئے، ہمیشہ ان کے فقہی اور اعتقادی معارف کو ایک دوسرے کے لئے برا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس وقت ان تمام فضلائے کرام کہ جنہوں نے اس عظیم کانفرنس کا اہتمام کیا ہے اور ان تمام دانشوروں اور صاحب الرائے حضرات کے شکریئے کے ساتھ کہ جو اس کانفرنس میں اپنی شرکت سے اس کی علمی حیثیت بڑھنے کے اسباب فراہم کریں گے، میری کوشش یہ ہے کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کے بارے میں ایک اہم نکتہ پیش کرکے اس عظیم اجتماعی کارنامے میں خود کو شریک کروں اور صدیوں اور ادوار پر محیط اس عظیم نورانی ہستی کو متعارف کرانے کے کام میں شرکت کروں۔ یہ نکتہ، فقہ اور کلام کے میدان میں، تشیع کے علمی تفکر کے رشد میں شیخ مفید کے مقام و مرتبے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے اس کام میں، خود آپ کے مکتوب آثار، علمی نظریات اور اقوال نیز ان شخصیات کے اقوال سے کہ جنہوں نے آپ کے بارے میں کہا ہے اور ان کے شاگردوں اور مترجمین کے کارناموں سے حاصلہ شواہد پر اتکا کیا ہے ۔
مختصر الفاظ میں یہ نکتہ یہ ہے کہ؛ شیخ مفید سلسلہ علمائے امامیہ میں، صرف ایک معروف اور ممتاز فقیہ اور متکلم ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اس ترقی پذیر علمی تحریک کے بانی ہیں جو فقہ و کلام کے شعبوں میں آج تک شیعہ مذہب کے تعلیمی مراکز میں جاری ہے اور تاریخی، جغرافیائی اور مکتبی تاثیرات کے برطرف نہ ہونے کے ساتھ ہی اس کی اصل خصوصیات اور بنیادی خطوط اسی طرح باقی ہیں۔
اس نکتے کے بیان اور اثبات کی اہمیت اس وقت ظاہر ہوتی ہے کہ جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس علمی تحریک میں شیخ مفید کی زندگی سے متصل دور سے آپ کی رحلت سے تقریبا نصف صدی بعد تک ایسا تغیر اور تیز رفتار رشد و تکامل آیا ہے کہ اس کے سامنے، شیخ مفید علیہ الرحمہ کے بانی ہونے کے کردار کو نظرانداز کر دیا گیا۔
اس نکتے میں بنیادی تاکید اس بات پر ہے کہ شیخ مفید کے شاگرد رشید یعنی سید مرتضی علم الہدی ( متوفی 436ہ) اور اس سلسلے کی ممتاز ہستی شیخ الطائفہ محمد بن الحسن الطوسی (متوفی 460ہ) کی تمام نمایاں علمی کاوشیں درحقیقت اسی تحریک کا دوام ہیں، جس کا سرچشمہ اور بانی محمد بن محمد بن النعمان المفید تھے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے ضروری ہے:
1- مکتب اہلبیت علیہم السلام کے علیحدہ تشخص کے استحکام
2-فقہ شیعہ کے صحیح علمی قالب اور شکل کی بنیاد رکھنے اور
3- فقہ وکلام میں معقولات ومنقولات کوجمع کرنے میں منطقی سبک کی تخلیق میں
شیخ مفید کے بنیادی اور موثر کردار کو بیان کیا جائے۔
گذشتہ دس صدیوں کے دوران شیعہ متکلمین اور فقہا نے جو بلند عمارت تعمیر کی ہے اور اپنے علمی آثار سے جو بے نظیر خزانہ جمع کیا ہے، وہ سب اسی علمی قاعدے پر استوار ہے جو شیخ مفید نے علمی جہاد کی ان تین جہات پر قائم کیا ہے۔
ان تینوں جہات کی تشریح سے پہلے یہ کہنا مناسب ہے کہ شیخ مفید اور ان کے زمانے میں بغداد کے شیعہ تعلیمی مراکز میں سے ہر ایک ایسا مرکز شمار ہوتے ہیں کہ اس زمانے تک شیعہ تاریخ میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
اس تاریخ سے پہلے، بےشک شیعہ تعلیمی مراکز، شام کے علاقوں سے لیکر ماوراءالنہر تک ہرجگہ پھیلے ہوئے تھے۔ قم کا تعلیمی مرکز جو حدیث کا بڑا مرکز اور دوسری تیسری ہجری کے کوفہ کے تعلیمی مرکز کا جانشین تھا اور ری کا تعلیمی مرکز کہ شیخ کلینی، ابن قبہ اور یہاں سے اٹھنے والی دیگر علمی شخصیات معروف ہیں، شیعہ علمی مراکز کا صرف ایک حصہ تھے۔ مشرق میں ماوراءالنہر کا تعلیمی مرکز تھا کہ جس سے نکلنے والی دو شخصیات، عیاشی سمرقندی اور ابوعمرو کشی معروف ہیں اور مغرب میں حلب کا علمی مرکز تھا کہ جہاں کے حسن بن احمد السبیعی الحلبی اور علی بن خالد الحلبی، شیخ مفید سے وابستہ پائے کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ بنابریں قرائن تائید کرتے ہیں کہ شیعہ علوم و معارف کے اہم مراکز رہے ہوں گے۔ مشائخ کشی کی فہرست پر ایک نگاہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے میں بنیادی شیعہ علمی مراکز سے دوری کے باوجود کتنی قابل توجہ تعداد میں علماء و محدثین تیار ہوئے ہیں اور اس خیال کی تقویت ہوتی ہے کہ ان علاقوں میں اس قسم کی شخصیات تیار کرنے کی سرگرمیاں ، ایک شیعہ علمی مرکز سے زیادہ وسیع رہی ہیں۔ کم سے کم دس مشائخ سمرقند یا کش (سمرقند کے نزدیک واقع شہر) سے منسوب ہیں اور تقریبا اتنی ہی تعداد بخارا، بلخ، ہرات، سرخش، نیشابور، بیہق، فاریاب اور اس خطے کے بعض دیگر شہروں سے منسوب ہے ۔ (7)
خراسان اور ماوراءالنہر کے شہروں سے منسوب اتنے ناموں کا مشاہدہ کہ بظاہر سب یا تقریبا سبھی شیعہ تھے، اس بات کے پیش نظر کہ معمول کے خلاف ہے کہ کوئی قم، کوفے یا بغداد سے ان تمام خراسانی اور ترکستانی مشائخ کے پاس آیا ہو، اس گمان کی تقویت کرتا ہے کہ عیاشی کا گھر جونجاشی کے کہنے کے مطابق کانت مرتعا للشیعہ اھل العلم (8) یا وکانت دارہ کالمسجد بین ناسخ او مقابل او قاری او معلق مملوئہ من الناس (9) بغداد میں نہیں بلکہ سمرقند میں رہا ہوگا۔ اس صورت میں یہ بات بذات خود اس شہر میں شیعہ علمی مرکز اور علوم و معارف اہلبیت کی ترویج کی غمازی کرتی ہے ۔
شام اور حلب کے علاقوں میں شیعوں کی کثرت اور حمدانیوں کی حکومت کے پیش نظر، جو خود شیعہ اور شیعی رسومات وآداب کے پابند تھے، بیشک قابل توجہ شیعہ علمی مراکز رہے ہوں گے۔ اگرچہ عراق سے ان کی نزدیکی اور بغداد میں اور اس کے بعد شیخ طوسی کے زمانے میں نجف میں اس دیار کے فقہا اور محدثین کی موجودگی کے پیش نظر انہیں بڑے علمی مراکز میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
شیخ مفید کے زمانے پر جاکر ختم ہونے والے دور میں شیعہ علمی مراکز کی یہ اجمالی صورتحال ہے۔ بغداد کا علمی مرکز بھی اسی دور میں قائم اور علوم و معارف اسلامی کے تبادلے میں سرگرم ہوا۔ لیکن شیخ مفید کے سامنے آنے اور ان کی علمی شہرت کے پھیلنے کے بعد بغداد جو سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے اسلامی قلمرو کا مرکز تھا، شیعہ علوم و معارف کے اہم ترین مرکز میں تبدیل ہوگیا اور شیعہ دینی و فکری مسائل کے حل کا مرکز ہی نہیں بلکہ طالبان علم کا کعبہ آرزو بن گیا ۔
اگرچہ شیخ مفید کے شاگردوں کی جن کی تعداد فطری طور پر بہت رہی ہوگی، کوئی جامع فہرست نہیں ہے اور ان لوگوں کی تعداد جن کا نام کتابوں اور تراجم میں ان کے شاگردوں کے عنوان سے لیا گیا ہے، اس سے بہت کم ہے کہ جس تعداد میں شیخ مفید جیسی ہستی نے جو تقریبا نصف صدی تک شیعہ علمی مرکز کے سربراہ رہے ہیں، علماء تیار کئے ہوں گے، لیکن شیخ طوسی جیسی نابغہ اور دانشمند ہستی کا طوس سے بغداد جانا اور اپنی جائے پیدائش کے نزدیک کے علاقوں یعنی خراسان اور ماوراءالنہر کے علمی مراکز کی طرف مائل نہ ہونا، قم اور ری میں نہ رکنا اور مذکورہ علمی مراکز کی شخصیات کا ایک طویل عرصے تک معروف نہ ہونا، یہ سب اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ بغداد کا علمی مرکز شیخ مفید کی شہرت کے سبب اس مقام تک پہنچ گیا تھا کہ ہمیں یاد نہیں ہے کہ کوئی علمی مرکز اس سے پہلے اس مقام تک پہنچا ہو۔ اس علمی مرکز نے شیعہ علمی مراکز میں رائج تمام علوم کو جمع کرکے، دنیا کے دیگر علمی مراکز کی رونق ختم کردی اور نجف اشرف کے مبارک حوزہ علمیہ کے ( 448یا 449 میں ) وجود میں آنے تک ، شیعہ علمی مراکز کا درۃ التاج شمار ہوتاتھا۔
بیشک اس علمی مرکز کے عروج اور درخشندگی کا محور شیخ مفید علیہ الرحمہ تھے۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت و استعداد، انتھک محنت، بغداد کی اسلامی دنیا کے سیاسی و جغرافیائی مرکز کی حیثیت اور مختلف مذاہب کی علمی شخصیات کی آمد و رفت سے فائدہ اٹھاکر اس علمی مرکز میں بے نظیر جامعیت پیدا کردی تھی اور پھر اپنے زمانے میں بغداد کے شیعہ علمی مرکز کو ممتاز بنانے والے عنصر، کشش محور اور قطب کی حیثیت اختیار کرلی۔ شیخ مفید کے علمی آثار پر ایک نظر ڈالنے اور دیگر قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے تک ممتاز شیعہ علمی شخصیات کی جو خصوصیات مشہور تھیں وہ سب شیخ مفید میں حیرت انگیز طور پر یکجا مجتمع ہوگئی تھیں۔ فقہ میں ان کے اندر قدیمین، ابن بابویہ اور جعفر بن قولویہ کی صلاحیت، کلام میں ہبن ابن قبہ اور بنی نوبخت کی استعداد، علم رجال میں کشی اور برقی کا علم ، حدیث میں شیخ صدوق، صفار اور کلینی کی مہارت کے ساتھ ہی فکری مجادلے اور بحث و مباحثے کی بے نظیر لیاقت اور بہت سی دیگر نمایاں خصوصیات جمع تھیں۔ ان میں سے ہر ایک یقینا راہ علوم اہلبیت کی مشعل ہے لیکن شیخ مفید کی ذات میں ان سب کی صفات و استعداد مجمتمع تھیں ۔ یہ وہ چیز ہے جو ان سے پہلے کسی بھی شیعہ علمی ہستی میں نہیں ملتی ۔ ان کے یکتا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ابن ندیم ( م380) کے مطابق وہ چوالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ( 13) فقہ کلام اور حدیث میں سب سے ممتاز شیعہ شخصیت بن چکے تھے اور ذہبی، جس نے تاریخ اسلام میں انصاف سے دور اور کینہ آلود لہجے میں ان کے بارے میں لکھا ہے، اس کے باوجود، ان کے بارے میں ابن ابی طے سے نقل کرتا ہے کہ وہ تمام علوم میں یکتا تھے۔ اصول، فقہ، علم رجال، قرآن و تفسیر، نحو، نظم، ان تمام علوم میں وہ سب سے برتر تھے اور ہر عقیدے کے پیرو سے مناظرہ کرتے تھے۔(14)
جی ہاں مفید وہ ہستی ہے کہ جس میں اسلاف کے تمام علوم اپنے تکامل کے ساتھ مجتمع ہوگئے تھے۔ اس جامع اور ہمہ گیر شخصیت کی برکت سے اس شیعہ علمی مرکز کا قیام عمل میں آیا جو ان کے بعد صدیوں باقی رہا۔ جہاں فقہ، کلام، اصول، ادب، حدیث اور علم رجال ایک ساتھ اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے علوم کی حیثیت سے پڑھائے جاتے تھے اور ان پر تحقیق ہوتی تھی۔ یہی علمی مرکز ہے کہ جس نے منتہائے عروج میں سید مرتضی اور اوج کمال میں شیخ الطائفہ محمد بن الحسن الطوسی جیسی ہستیاں دیں۔
کم سے کم شہید اول کے دور تک، یعنی اس زمانے تک کہ جب علمی مراکز کو فقہ اور ان علوم سے مخصوص کرنے کا رجحان غالب ہوا ہے جو فقہ کے مقدمات میں شمار ہوتے ہیں، یہی انداز تمام یا اکثر علمی مراکز اور یہاں سے نکلنے والوں میں نظرآتا ہے اور یہ اسی تحریک کا تسلسل ہے کہ جس نے چار سو تیرہ تک شیخ مفید کی شخصیت اور ان کے قائم کردہ بغداد کے علمی مرکز سے سرچشمہ حاصل کیا ہے۔
بنابریں اگر یہ کہا جائے تو تعجب کا مقام نہیں ہے کہ اس یکتا و ممتاز ہستی نے ان تین محوروں کا راستہ کھولا ہے جن کے عناوین ترتیب سے بیان کئے جا رہے ہیں۔
اب مناسب ہوگا کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کے ان تینوں پہلوؤں کا جائزہ لیں ۔
مکتب اہلبیت ( علیہم السلام ) کے علیحدہ تشخص کا استحکام
غیبت کے آغاز بالخصوص غیبت صغرا کے چوہتر سالہ دور کے خاتمے اور امام غائب (ارواحنا فداہ ) سے شیعوں کے رابطے کے مکمل منقطع ہونے کے بعد مکتب اہلبیت کو ایک خطرہ یہ لاحق تھا کہ اس مکتب سے منسوب لوگوں کی عمدی یا غیر عمدی غلطی اور انحراف، اس میں سے کچھ چیزیں کم کردے یا بڑھا دے یا مکتب کی اصولی حدود کم اہمیت ہوجائیں، انحرافی جہتیں اس میں شامل ہوجائیں اور اعتقادی مسالک اور جعلی مذاہب کی انحرافی باتیں اس کے حقائق کے ساتھ مخلوط جائيں۔ امام علیہ السلام کی غیبت شروع ہونے سے پہلے جب ایسی کوئی بات آتی یا اس کا خطرہ پیش کیا جاتا تو خود امام کی ذات گرامی وہ قابل اعتماد محور و مرکز تھی کہ ہر بات آپ کی ذات گرامی کے ذریعے پرکھ لی جاتی تھی اور اس کے بارے میں فیصلہ کر لیا جاتا تھا۔ بنابریں جب تک امام لوگوں کے درمیان تھے غلطی زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی تھی اور یہ معصوم پیشوا اہم مواقع پر اہم خطاؤں کو بیان فرما دیا کرتا تھا۔ شیعوں کو اطمینان تھا کہ اگر مسلک کی بنیادی جہت میں کہیں سے انحراف آیا تو حجت آشکارا ہوگی اور جو حقیقت جاننا چاہتا ہے جان ہی لے گا۔ آئمہ علیہم السلام کی زندگی کی تاریخ میں ایسے لوگوں کے نام ملتے ہیں کہ جن پر، بدعت شروع کرنے، یا غلط راستے کی بنا رکھنے اور باطل عقیدے کی ترویج کی وجہ سے آئمہ علیہم السلام نے صراحت کے ساتھ اعتراض کیا ہے اور انہیں مسترد کیا ہے۔ جیسے محمد بن مفلاص المعروف بہ ابی خطاب یا ابن ابی العزافر معروف بہ شلمغانی ( یہ واقعہ غیبت صغری کے دور میں رونما ہوا) اور ان کے جیسے بہت سے لوگ ہیں۔ حتی ایسے واقعات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ سچے اور مخلص اصحاب کے دو گروہوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں، اگر ان میں سے کوئی گروہ، کسی فرد یا گروہ کو کسی عقیدے کی وجہ سے بلا وجہ مسترد اور لعن طعن کرتا تھا تو امام علیہ السلام مطعون فرد یا گروہ کا دفاع کرتے تھے اور اس کی تعریف کرتے تھے اور اس طرح صحیح عقیدے کی تائید فرمایا کرتے تھے یا اس انحراف کو جس کا گمان کرتے تھے مسترد فرماتے تھے۔ جیسے جب قمیین نے یونس بن عبدالرحمن کو مسترد کیا تو امام علیہ السلام نے ان کی تائید فرمائی اور ان کے لئے رحمت اللہ کان عبدا صالحا ۔۔۔ یا ان یونس اول من یجیب علیا اذا دعا ( رجال کشی ، شرح حال یونس بن عبدالرحمن ، سے رجو ع کریں) اور جب طالبان علوم اہلبیت نے خاندان بنی فضال سے رجوع کیا تو امام علیہ السلام نے یہ عبارت خذوا ما رووا و ذروا ما دروا صادر کرکے، شیعوں میں ان کے انحرافی (فطحی ) عقیدے کے نفوذ کی روک تھام کی۔ اصحاب سے آئمہ کے روابط کی تاریخ میں اس طرح کے واقعات بہت ہیں ۔
بنابریں امام علیہ السلام اپنے ظہور کے زمانے میں ہمیشہ بیدار اور ہوشیار نگہبان ہیں اور اس مکتب کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری بذات خود سنبھالتے ہیں۔
مگر غیبت کے دور میں بالخصوص غیبت کبری کے زمانے میں صورتحال بالکل مختلف ہے ۔اس دور میں روز افزوں ضروریات ہیں جنہیں اب امام علیہ السلام کے ذریعے نہیں بلکہ علمائے دین کے ذریعے پوراہونا ہے اور دوسری طرف علمائے دین کے درمیان فطری اختلاف کے سبب جن کو دور کرنے کا کوئی واضح اور ٹھوس محور بھی نہیں ہے، اصول و فروع دین میں مختلف افکار و نظریات اور مختلف نتائج کے حصول کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے اور پیش کئے جانے والے گوناگوں نظریات میں فطری طور پر انحرافی مکاتب اور غیر امامی شیعی مذاہب ( زیدی ، اسماعیلی، فطحی ۔۔۔) کی کچھ باتیں مکتب اہلبیت (علیہم السلام) میں داخل ہو جاتی ہیں جو اس کے خالص اور یقینی ہونے کے لئے خطرہ ہیں حتی ممکن ہے کہ طویل عرصے میں مکتب کی جہت بالکل تبدیل کر دیں۔
اس منزل میں، اس زمانے میں رہبران امت کا اہم ترین فریضہ سامنے آتا ہے۔ وہ فریضہ کی جس کی صحیح انجام دہی مذہب کی حفاظت اور فیصلہ کن جہاد کے مترادف ہے اور وہ فریضہ یہ ہے کہ ایک فکری اور عملی نظام کی مانند تشیع کی سرحدوں کا تعین کیا جائے اور آئمہ علیہم السلام کے کلام سے استفادہ کرکے، اس کے لئے، عقیدتی اور عملی لحاظ سے حدبندی کی جائے۔ اس طرح مذہب اہلبیت علیہم السلام کا الگ تشخص معین ہوگا اور پیروان مکتب اہلبیت علیہم السلام اس کو سمجھ کے اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ کام شیعہ علماء و مفکرین کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ فقہ و اصول میں، اصولی انحراف یعنی مبانی مذہب کے دائرے سے نکل جانے کو مکتب کے اندر کے داخلی اختلافات سے الگ کر سکیں۔
بیشک یہ کام شیخ مفید سے پہلے تک انجام نہیں پایا تھا۔ فقہ ابن جنید میں قیاسی رجحانات اور خاندان نوبخت کے کلام میں معتزلی رجحانات کا وجود، اس دعوے کی بہترین دلیل ہے۔ اصول اور فروع دین میں مکتب تشیع کی حدبندی نہ ہونے کے نتائج کے یہ صرف دو نمونے ہیں۔ فقہ میں استنباط کے اصولی و عقلی مبانی اور اصل پر فرع کی تفریع سے جو آئمہ علیہم السلام کی مسلمہ تعلیمات میں سے ہے، استفادہ نہ کرنا، یا دوسری طرف وادی قیاس میں لڑکھڑا جانا، مکتب سے انحراف کی دو جہتیں اور اس کی سرحدوں کا تعین اور واضح حد بندی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ کلام میں، مذہب کی حدود کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے آنے والے انحراف کا مظہر کلام تشیع کا کلام معتزلی سے خلط ملط ہو جانا ہے۔ آخر الذکر مسئلے ( کلام ) میں مذہب کی حد بندی نہ ہونے کے نتائج زیادہ نقصاندہ رہے ہیں ۔ان میں سے مندرجہ ذیل پر توجہ دی جائے ۔
معروف اور بڑے متکلمین جیسے خاندان نوبخت علم کلام کے بہت سے مسائل میں، معتزلی رجحانات میں گرفتار ہوگئے اور معتزلہ کی طرح کلامی مباحث میں حد سے زیادہ عقل پر انحصار کیا۔
بڑی شیعہ شخصیات کے معتزلی ہونے کا دعوا کیا گیا اور معتزلی مصنفین نے انہیں اپنے میں شمار کیا۔ اس طرح کے افراد کا ایک نمونہ، معروف شیعہ متکلم اور دانشور حسن بن موسی النوبختی ہیں۔ ان کا معاصر اور بھانجا، ابوسہیل اسماعیل بن علی النوبختی نوبختیوں کی ممتاز شخصیت ہے ۔(15)
یہ سمجھا گیا کہ تشیع اور معتزلی افکار ایک شخص میں جمع ہوسکتے ہیں۔ بڑی اور معروف ہستیوں کو شیعہ اور معتزلی دونوں سمجھا گیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے خود بھی اس دعوے کو قبول کیا، اس کا اعادہ کیا اور اس پر یقین کیا ہے۔ اس کی ایک مثال صاح بن عباد ہیں جو ایک قطعہ میں کہتے ہیں کہ
لو شق قلبی لیری وسطہ سطران قد خطا بلاکاتب
العدل والتوحید فی جانب وحب اہل بیت فی جانب (16)
یا؛ فقلت : انی شیعی ومعتزلی ۔۔۔
اور یہ ایسے عالم میں ہے کہ شیعوں کا اہلبیت علیہم السلام کی امامت کا مخصوص عقیدہ ، ایسا ہے جس کو کوئی معتزلی قبول نہیں کرتا اورم عتزلیوں کا اصول المنزلۃ بین المنزلتین کا عقیدہ شیعہ مسلمات کے منافی اور اس سے متصادم ہے۔
بعض شیعہ علماء نے معتزلیوں کے اصول خمسہ میں سے ایک کو قبول کیا ہے بغیر اس کے کہ وہ خود کو یا دوسرے انہیں معتزلی سمجھیں۔ مثلا نجاشی محمد بن بشر الحمدونی کے بارے میں لکھتاہے؛ وہ خوش عقیدہ تھے اور وعید کے قائل تھے (381)
مجموعی طور پر شیعہ کلام کو معتزلہ سے ماخوذ سمجھا گیا اور خاص طور پر دو اصولوں توحید اور عدل کو اس دعوے کے ساتھ کہ معتزلی مکتب سے تشیع میں آئے ہیں، اس دعوے کی دلیل قرار دیا گياہے۔ ملل و نحل لکھنے والوں، قدما ء سے لیکر متاخرین کے دورتک کے غیر شیعہ متکلمین اور ان لوگوں کی تحریروں میں جنہوں نے معلومات جمع کرنے میں غیر شیعہ کتابوں پر انحصار کیا ہے، جیسے مستشرقین، بارہا اور بارہا اس بات کی تکرار کی گئی ہے۔ حتی خود شیخ مفید کے زمانے میں اہل صاغان حنفی معتزلی فقیہ و متکلم نے، جس کو شیخ مفید نے المسائل ساقانیہ میں شیخ گمراہ کے نام سے یاد کیا ہے، خود شیخ مفید کے بارے میں یہ غلط گمان کیا اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے بغداد کے ایک شیخ نے، جس نے اپنی باتیں معتزلہ سے لی ہیں، ایسا اور ایسا کہا ہے۔ (المسائل ساقانیہ ص 41) البتہ شیعہ مصنفین اور محققین ان کو چھوڑ کر کہ جنہوں نے مستشرقین کی طرح غیر شیعی ماخذوں یا خود مستشرقین سے استفادہ کیا ہے، اس غلطی سے محفوظ رہے ہیں اور یہ شیخ مفید اور اس عظیم کارنامے کی برکات میں سے ہے جو انہوں نے انجام دیا ہے ۔ (17)
جو کچھ کہا گیا اس کے پیش نظر اس کام کی اہمیت زیادہ آشکارا ہو جاتی ہے جو شیخ مفید نے مکتب اہلبیت کی حد بندی کے عنوان سے انجام دیا ہے۔ اس عظیم دانشور نے وقت کے تقاضے کا احساس اور اپنی علمی صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس دشوارگزار میدان میں قدم رکھا اور انتہائی اہم، حساس اور بے نظیر کام کا آغاز کیا اورانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اعتراف کیا جائے کہ اس عظیم کام میں کامیاب رہے ہیں۔ دعوا یہ نہیں ہے کہ شیخ مفید کے اس کام کے بعد کوئی تشیع کے مفاہیم کو سمجھنے میں جہالت و گمراہی کا شکار نہیں ہوا یا نہیں ہوسکتا تھا بلکہ دعوا یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے اس مکتب کو سمجھنا اور اس کی حدود کو پہچاننا ممکن ہوگیا جو یہ چاہتے ہوں اور فقہ وکلام میں مکتب اہلبیت، کسی دوسری شاخ سے مشتبہ ہوئے بغیر، اپنی مخصوص علامات و خصوصیات کے ساتھ، ہمیشہ محققین کی فہم و شناخت کے سامنے موجود ہے۔
مفید نے اس ہدف کے لئے جو علمی کام کئے ہیں ان میں سے ہر ایک الگ سے تحقیق کا متقاضی ہے۔ میں دومیدانوں، فقہ و کلام میں، ان کے کاموں کی فہرست پر اکتفا کروں گا۔
فقہ میں انہوں نے کتاب مقنعہ لکھی جس میں پوری فقہ موجود ہے اور اس میں انہوں نے فقہی استنباط کا درمیانی راستہ اور صراط مستقیم طے کیا جو ادلہ لفظیہ اور قواعد اصولیہ سے استفادے اور قیاس استحسان اور دیگر غیر معتبر ادلہ سے اجتناب پر مبنی ہے۔ (اس بارے میں بعد کی بحث میں کچھ باتیں کہوں گا)
اس کے علاوہ کتاب التذکرہ باصول الفقہ لکھی اور اس میں، کتاب کے وجود اور اس کی تحریروں کی بنیاد پر کہا جاسکتاہے کہ پہلی بار فقہی استنباط کے قواعد جمع کئے اور ان کی اساس پر فتوا دیا۔ (اس کتاب کے بارے میں بھی بعد کی بحث میں گفتگو ہوگی) اور ان سب سے بڑھ کر کتاب الاعلام تحریر کی اور اس میں وہ باتیں جمع کیں جن کے بارے میں شیعہ فقہا کا فتوا متفق علیہ ہے اور اہلسنت فقہا کے درمیان عدم فتوا متفق علیہ ہے۔ یعنی کسی بھی اہلسنت فقیہ نے اس کا فتوا نہیں دیا ہے۔ اس کتاب کے ابواب فقہ میں سے کچھ میں نقل اجماع کے بارے میں بحث و تحقیق کی گئی ہے۔ فقہ امامیہ اور فقہ حنفی کے درمیان حدود کے تعین کے لئے کتاب المسائل الساقانیہ بھی بہت اہم کتاب ہے جو چند شیعہ فقہی مسائل پر ایک حنفی فقیہ کے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے۔
اس درمیان شیخ مفید کا ایک کارنامہ کتاب النقض علی ابن الجنید ہے جس کا عنوان مکتب اہلبیت (علیہم السلام) کی فقہی حدود اور سرحدوں کی مستحکم نگہبانی کی عکاسی کرتا ہے۔ البتہ اس کتاب کے مضامین کے بارے میں کوئی فیصلہ، کتاب کے دسترس میں نہ ہونے کے باعث ممکن نہیں ہے۔ مگر مفید کے کام کی روش، مذہبی بحث میں ان کے قوی دلائل ، دینی منابع کے بارے میں ان کی وسیع معلومات، عقلی استدلال کے مقدمات ترتیب دینے میں ان کا فکری استحکام اور ابن جنید کے قیاسی رجحان کے مقابل ان کا ٹھوس موقف، جس کا نمونہ المسائل الساقانیہ میں دیکھا جاسکتا ہے، (18) ان سب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ کتاب عالمانہ اور قانع کنندہ مضامین پر مشتمل ہوگی اور بیشک شیخ مفید کے بعد شیعہ فقہا میں اس رجحان کے جاری نہ رہنے میں بہت مفید اور موثر واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں یعنی مکتب اہل تشیع کے علیحدہ تشخص کے استحکام میں شیخ مفید کا سب سے اہم اور وسیع تر کام، علم کلام کے میدان میں انجام پایا ہے۔ اس میدان میں شیخ مفید نے شیعہ عقائد اور دیگر کلامی شاخوں کے درمیان سرحد کے تعین میں پوری دقت نظر سے کام لیا ہے اور دیگر اسلامی یا شیعہ فرقوں کے اعتقادی عناصر کے عقائد امامیہ کی حدود میں داخل ہونے اور غلط افکار کو جن سے شیعہ مبرا ہیں ، مکتب تشیع سے منسوب کئے جانے کی روک تھام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی بناء پر ہے کہ اگر چہ وہ دیگر مذاہب سے بحث میں، اپنے دور کے تمام مکاتب فکر کو بحث کی دعوت دیتے ہیں اور اشعری، معتزلی، مرجئی، خارجی، مشبہ، اہل حدیث، غالی، ناصبی اور اسلام سے منسوب دیگر چھوٹے بڑے فرقوں سے بحث کرتے نظر آتے ہیں مگر اس درمیان معتزلہ اور اس کے معروف فرقوں سے ان کا فکری تصادم زیادہ نظر آتا ہے اور متعدد چھوٹے بڑے رسائل اور کتابوں میں، مختلف مباحث میں معتزلہ کے نظریات پر زیادہ تنیقید کرتے ہیں اور انہیں مسترد کرتے ہیں۔ اس کا راز یہ ہے کہ مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان چونکہ معتزلہ کے بعض اصول شیعہ مکتب کے اصولوں سے مشابہ ہیں، اس لئے یہ شبہہ پیدا کیا گیا کہ ان کا مکتب بہت سے شیعہ عقائد کی بنیاد اور سرچشمہ ہے یا حتی اس سے بڑھ کر یہ دعوا کیا گیا کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اعتزال ہی تشیع ہے اور اس سے یہ غلط گمان پیدا ہو گیا کہ شیعہ کلام، معتزلی کلام سے ماخوذ ہے یا شیعی کلام کے اصول، وہی معتزلی کلام کے اصول ہیں اور جیسا کہ اس سے پہلے کہا گیا اس غلط فہمی کے کچھ نتائج بھی بر آمد ہوئے ہیں۔
شیخ مفید کی کتابوں میں معتزلہ کے عقائد کا بیان مکتب تشیع کی نگہبانی اور اس مکتب کے کلامی نظام کی اصالت اور استقلال کے اثبات کا ثبوت ہے۔
اس بارے میں شیخ کی اہم ترین کتاب اوایل المقالات فی المذاہب والمختارات
ہے جو معتزلہ اور شیعہ مذہب کے فرق کو بیان کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔ خود انہوں نے کتاب کے مقدمے میں جو لکھا ہے اس کے مطابق حتی متفقہ اصولی مسائل میں بھی ان دونوں فرقوں کے درمیان اختلاف جیسے عدل کے مسئلے میں دونوں کے اختلاف پر توجہ دی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔(19)
اس مختصر مقدمے میں شیخ مفید کی عبارت سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ اس کتاب کی تالیف سے شیخ مفید کا مقصد، ان لوگوں کے لئے ایک قابل اطمینان عقیدتی مرجع اور اصول فراہم کرنا ہے جو اس مکتب کے فکری مبانی پر تفصیلی ایمان رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کتاب میں حتی ان شیعہ دانشوروں کے عقائد پر بھی تنقید کرتے ہیں جنہوں نے معتزلہ کے بعض نظریات اخذ کرکے کلام تشیع کو خالص نہیں رہنے دیا تھا اور اس بارے میں نوبخت کے نام کا ذکر کرکے ان پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ وہی مکتب تشیع کے فکری نظام کی نگہبانی اور دفاع ہے جس کا پرچم پہلی بار، جیسا کہ تفصیل سے ہمیں معلوم ہے، شیخ مفید نے اٹھایا ہے ۔
البتہ تشیع اور معتزلہ کے درمیان عقیدتی سرحدوں کا تعین، کتاب اوایل المقالات تک محدود نہیں ہے اور شیخ نے اپنی دوسری کتابوں میں بھی، گوناگوں بیانات کے ذریعے اور کبھی طرز بیان کا انتخاب کرکے بہت خوبصورت اور موثر انداز میں یہ مہم انجام دی ہے۔ مگر اوایل میں یہ خصوصیت مکمل اور ہمہ گیر انداز میں نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں وہ جگہیں بھی آتی ہیں جہاں معتزلہ اور اہل تشیع کے درمیان اشتراک عقیدہ پایاجاتا ہے۔ وہ ان جگہوں پر انداز بیان ایسا اختیار کرتے ہیں کہ اس عقیدے میں مکتب اہلبیت کا موقف آشکارا ہو جاتا ہے اور معتزلہ کی پیروی کا گمان ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر رویت خدا کی نفی کے سلسلے میں کہتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ ان آنکھوں سے خدائے سبحان کو دیکھنا ممکن نہیں ہے اور اس بات کی عقل گواہی دیتی ہے، قرآن اس پر گویا ہے اور روایات ائمہ اس بارے میں متواتر ہیں اور جمہور اہل امامت اور ان کے متکلمین اس پر متفق ہیں الا ایک کے جو اس مسئلے میں سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے، کیونکہ تاویل روایات میں وہ شبہے میں گرفتار ہوگیا ہے اور معتزلہ سبھی اس مسئلے میں اہل امامت سے متفق ہیں اور مرجئیہ اور بہت سے خوارج اور زیدیہ اور اہل حدیث کے بہت سے گروہ بھی ( ص 162اوایل المقالات)
اس مسئلے میں اس کے علاوہ کہ عقلی دلیل بھی اس پر دلالت کرتی ہے ، شیعہ اپنے معتبر ادلہ یعنی کتاب اور سنت متواترہ پر انحصار کرتے ہیں۔ بنابریں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اس بات کو معتزلہ یا کسی دوسرے سے اخذ کریں، بلکہ یہ معتزلہ ہیں جنہوں نے اس مسئلے میں اہل امامت سے اتفاق کیا ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اس مسئلے میں معتزلہ نے شیعہ مکتب سے قرض لیا ہے۔
اس کے بعد چیزوں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کے بارے میں علم خدائے تعالی کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں میں کہتا ہوں کہ خدائے تعالی ہر اس چیز کا جو وجود پاتی ہے، اس کے وجود پانے سے پہلے عالم ہے اور کوئی واقعہ نہیں ہے الا یہ کہ اس کے وقوع سے پہلے اس کا عالم ہے اور کوئی معلوم یا وہ چیز جو معلوم ہوسکتی ہے، نہیں ہے الا یہ کہ وہ اس کی حقیقت کا عالم ہے اور اس سبحانہ تعالی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پنہاں نہیں ہے اور اس بات پر عقلی دلائل، کتاب مسطور اور آل رسول کی روایات متواتر دلالت کرتی ہیں اور یہ تمام امامیہ مکتب کا مذہب ہے اور جو معتزلہ نے ہشام بن الحکم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کے خلاف کہا ہے۔ ہمیں اس کی خبر نہیں ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ نقل ان پر ان کی جانب سے تہمت ہے اور ان لوگوں کی غلطی ہے جنہوں نے اس نقل میں ان کی تقلید کی ہے اور اس کو شیعوں سے منسوب کیا ہے ۔۔۔ اور اس عقیدے میں توحید سے منسوب سبھی ہمارے ساتھ ہیں الا مجیرہ کے جہم بن صفوان اور معتزلہ کے ہشام بن عمرو الفوطی کے ( ص 60-61) یہاں بھی انداز گفتگو اور حدیث متواتر، قران اور عقل سے استناد اس طرح ہے کہ منشاء استناد میں تشیع کی ممتاز حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اگرچہ معتزلہ نے بھی دوسرے فرقوں کی طرح اس کو قبول کیا ہے۔
بعض مسائل میں، شیعہ اور معتزلہ، کسی معروف مسئلے کے ایک حصے میں ایک دوسرے کے موافق ہیں۔ مفید ان مسائل میں معتزلہ یا دوسرے فرقوں سے شیعوں کے فرق کا نقطہ بیان کرتے ہیں تاکہ عنوان مسئلہ میں اتفاق اس کے جوانب میں اشتباہ کا موجب نہ ہو۔ مثلا شیعہ اور معتزلہ دونوں لطف اور اصلح کے قائل ہیں مگر مفید لطف کے بیان میں اس لئے کہ مسئلے کو سمجھنے میں غلطی نہ ہو اور شیعہ اس مسئلے میں معتزلہ کے اشتباہ میں گرفتار نہ ہوں، اصلح کے بیان کے فورا بعد کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ لطف جس کو اصحاب لطف لازم شمار کرتے تھے، صرف خدا کے جود و کرم کے سبب لازم ہے نہ اس طرح جو انہوں ( معتزلہ اور دوسروں) نے سمجھا ہے کہ عدل اس لطف کو ( خدا پر ) واجب کرتا ہے کہ اگر نہ کرے تو ظلم کرے گا (ص65)
حتی بعض مسائل میں جن میں کچھ شیعہ متکلمین معتزلہ سے متفق ہوگئے ہیں، اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کا نام لے کر یا اشارتا ذکر کریں تاکہ ان کم لوگوں کا نظریہ شیعہ عقیدہ اور مکتب اہل تشیع میں نہ شمار کیا جائے۔
مثال کے طور پر، عصمت کے مسئلے میں، امامیہ نقطہ نگاہ سے، گناہان صغیرہ حتی سہو و نسیان سے بھی آئمہ علیہم السلام کی عصمت کے بیان کے بعد کہتے ہیں تمام امامیہ کا مذہب یہ ہے الا اس کے جوان کے جو سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے اور اپنے عقیدے کے لئے بعض روایات کے ظواہر سے تمسک کیا ہے جن کا باطن اور تاویل اس کی فاسد رائے کے برعکس ہے اور معتزلہ سب، اس مسئلے میں مخالف ہیں اور آئمہ کے لئے، گناہان کبیرہ حتی ارتداد کو بھی ممکن شمار کرتے ہیں۔ (ص 74) گویا شیخ مفید کا اشارہ شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ کی جانب ہے ۔
ان مثالوں میں اور پوری کتاب اوایل المقالات میں شیخ مفید کا نمایاں کردار مکتب کی حدود معین کرنے والے اور ہوشیار اور غفلت سے دور نگہبان کا ہے جس کی پوری کوشش یہ ہے کہ شیعہ مکتب کی کلامی اور اعتقادی حدود اس طرح معین کریں کہ کسی بھی دوسرے فرقے اور مذہب سے قابل اشتباہ نہ رہے۔ یہی ہدف دوسری کتابوں میں بھی مد نظر رہا ہے۔ اگرچہ تقریبا مختلف روشوں کے ساتھ مثلا الحکایات میں جس کا بڑا حصہ مختلف کلامی عناوین کے تحت معتزلہ کے عقائد کے رد پر مشتمل ہے، ایک باب التہام التشبیہ ہے کہ جس میں حکایات کے راوی گویا سید مرتضی ہیں ، کہتے ہیں؛ معتزلہ نے ہمارے اسلاف پر تشبیہ کا الزام لگایا ہے اور امامیہ کے بعض اہل حدیث نے ان کی اس بات کو قبول کرلیا ہے اور دعوا کیا ہے کہ ہم نے نفی تشبیہ کا عقیدہ معتزلہ سے لیا ہے اور پھر شیخ مفید سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسی حدیث بیان کریں جو اس تہمت کو باطل کر دے۔
شیخ مفید جواب میں اس الزام کی جڑ اور تاریخچہ بیان کرنے کے بعد تشبیہ کی رد میں اہلبیت علیہم السلام سے منقول بے شمار روایات تحریر کرتے ہیں اور حضرت ابی عبداللہ ( علیہ السلام ) کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں یہ ابی عبداللہ (علیہ السلام ) کا کلام ہے، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے اسے معتزلہ سے لیا ہو؟ صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ اس بات کا کہنے والا دینداری میں ضعیف ہو۔ ( الحکایات ص 81-79)
یہ جو شیخ مفید اتنی شدت کے ساتھ ، تشبیہ ، جبر اور رویت کے عقائد شیعہ سے ہونے کے الزام کی نفی کرتے ہیں، خود شیخ کی جانب سے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے علیحدہ تشخص کے استحکام اور اس کی نگہبانی کا ایک اور مصداق ہے، جو ہماری موجودہ بحث کا عنوان ہے۔
جو کچھ شیخ مفید نے کتاب اوایل المقالات اور دیگر کلامی کتب جیسے تصحیح الاعتقاد والفصول المختارہ وغیرہ میں، اہل تشیع کے عقائد بیان کئے ہیں اور ان عقائد اور دیگر کلامی فرقوں بالخصوص معتزلہ کے عقائد کے درمیان فرق کو واضخ کرنے کے لئے جو باتیں بیان کی ہیں، اس پر توجہ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کوشش یہ تھی کہ تشیع کے لئے، ایک شفاف فکری نظام پیش کریں کہ جس کی حدود واضح اور معین ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اس فکری نظام کا نقطہ امتیاز مسئلہ امامت ہے۔ اس معنی میں کہ کوئی دوسرا فرقہ اس میں شیعوں کا شریک نہیں ہے اور کسی شخص یا جماعت کو شیعہ مذہب سے منسوب کرنے کی بنیاد اس مسئلے پر اعتقاد ہے۔ یہ صحیح ہے کہ شیعہ اپنے بہت سے دیگر اعتقادات میں بھی، عنوان مسئلہ جیسے توحید، عدل اور صفات وغیرہ میں دوسرے فرقوں سے شباہت کے باوجود روح، معنی، بعض فروع اور جزیئات میں کافی اختلافات رکھتے ہیں مگر مسئلہ امامت میں، شیعہ اور دیگر اسلامی فرقوں میں فرق زیادہ آشکارا اور نمایاں ہے۔ لہذا شیخ مفید نے اس کے ساتھ ہی کہ اپنی مفصل کتابوں جیسے اوایل المقالات وغیرہ میں مسئلہ امامت کو افتتاح کلام میں رکھا ہے، امامت کے موضوع پر مختلف ناموں سے متعدد مختصر اور ضخیم رسائل بھی تحریر کئے ہیں۔
یہاں اس نکتے کا ذکر مناسب ہے کہ شیخ مفید کے فکری نظام میں مسئلہ امامت کے نمایاں نقطہ ہونے کا مطلب وہ نہیں ہے جو ایک مستشرق نے سمجھا ہے اور امامت کو اس نے شیخ مفید کے نظام فکری کے محور کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔ شیعہ فکری نظام اور شیخ مفید نیز اس فرقے کے دیگر متکلمین کا محور صانع اور توحید باری تعالی کا مسئلہ ہے۔ اہم مسائل جیسے صفات حق تعالی، معنی اور حضرت حق (عز اسمہ ) کی ذات سے اس کی نسبت، مسئلہ نبوت اور اس کی شاخیں، مسئلہ عدل اور مسئلہ امامت اور فرائض اور قیامت وغیرہ سے مربوط مسائل، سب کے سب اسی مسئلے سے نکلے ہیں اور اسی پر مبنی ہیں۔ افسوس کہ مستشرقین اور جو لوگ اسلامی مفاہیم کا لازمی احاطہ نہیں رکھتے، شیخ مفید جیسی عظیم ہستیوں کی مراد کو سمجھنے میں اس قسم کی غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس قسم کے جلسوں اور مباحث میں ان کی کج فہمیوں کی اصلاح ہو اور حقائق روشن کئے جائیں۔ ایک مغربی محقق جس نے شیخ مفید کے بارے میں کچھ باتیں لکھی ہیں، کبھی لکھتا ہے کہ ان کا کوئی الگ فکری نظام نہیں تھا اور کبھی لکھتا ہے کہ ان کا ایک فکری نظام تھا جو امامت پر استوار تھا۔ جیسا کہ کہا گیا، یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ شیخ مفید کا فکری نظام ان کے متعدد رسائل اور کتابوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس کا محور مسئلہ معرفت کے بعد جو اعتقادی مسائل کا فطری مقدمہ ہے، ذات و صفات باری تعالی کا مسئلہ ہے۔ تمام بنیادی مسائل حسب مراتب اسی سے نکلے ہیں۔ مسئلہ امامت جیسا کہ کہا گیا، اس مکتب کو دوسرے مکاتب فکر سے الگ اور ممتاز کرنے والا نقطہ ہے اور ایسا عقیدہ ہے جس سے اہل تشیع پہچانے جاتے ہیں۔ شاید اس مسئلے کا معتزلہ کے المنزلۃ بین المنزلتین سے قیاس کیا جا سکے جو مکتب معتزلہ کے اصول خمسہ میں پہلا، اہم ترین یا بنیادی ترین مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ توحید و عدل ہے۔ لیکن مسئلہ المنزلۃ بین المنزلتین معتزلہ کا خاص عقیدہ اس کی نمایاں علامت اور اس کے وجود میں آنے کا سرچشمہ ہے۔ کوئی معتزلی ایسا نہیں ہے کہ یہ نام اس پر صادق آئے اور وہ اس کا معتقد نہ ہو۔ شیعہ فکری نظام میں یہ خصوصیت امامت (کے عقیدے) سے تعلق رکھتی ہے ۔
جو کچھ کہا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ شیعہ کی نابغہ ہستی، شیخ مفید پہلی شیخصیت ہیں کہ جنہوں نے فقہ اور کلام میں مکتب تشیع کی حد بندی کی اور مرتب کیا۔ علم کلام میں، ایک منظم اور تمام شیعی عقائد پر محیط فکری نظام پیش کیا اور دیگر اسلامی فرقوں، مذاہب اور غیر امامی مکاتب سے اس کے مشتبہ کی روک تھام کی ہے اور علم فقہ میں تعلیمات اہلبیت ( علیہم السلام ) سے ماخوذ اصولوں پر مبنی روش استنباط کے ذریعے فقہ کا پورا دورہ تیار کیا اور غیر معتبر روشوں جیسے قیاس، ناقص اور ابتدائی (روشوں) جیسے اہل حدیث کی روش کا راستہ بند کردیا اور یہ ان تین پہلوؤں میں سے پہلا ہے کہ، مکتب اہلبیت (علیہم السلام ) کی ترقی پذیر علمی تحریک کے بانی کی حیثیت سے شیخ مفید کی شخصیت جن پر استوار ہے ۔
2- شیعہ فقہ کے صحیح علمی قالب کی بنیاد؛
شیعہ مکتب فکر میں کتاب وسنت کے منابع سے حکم شریعت کے استنباط کے معنی میں فقاہت کی تاریخ اور ماضی بہت طولانی ہے۔ ابان بن تغلب سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یہ کلام اجلس فی مسجد المدینۃ و افت الناس ۔۔۔(20) اور عبد الاعلی کو آپ کی یہ تعلیم کہ یعرف ھذا و اشباھہ من کتاب اللہ عز و جل قال اللہ تعالی ما جعل علیکم فی الدین من حرج ۔۔۔ ( 21) اور اسی قسم کے دیگر بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اصحاب آئمہ ( علیہم السلام) قدیم الایام سے قرآن اور سنت پیغمبر (صل اللہ علیہ والہ وسلم) اور آنحضرت کے اقوال سے استنباط کے مرحلے پر فائز تھے اور فقہ، معرفت احکام کے معنی میں آئمہ علیہم السلام کے شیعوں کے دائرے میں، صرف آئمہ علیہم السلام کی تقلید اور آپ کے اقوال پر عمل کرنے تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اس میں زیادہ جزئیات اور استدلال کے پیچیدہ تر ہونے پر محیط وسعت آ چکی تھی۔ اس کے باجود فقہائے اصحاب آئمہ ( علیہم السلام ) فقاہت اور فتوے کے سلسلے میں جو کچھ انجام دیتے تھے، اس میں اور اس دور کی فقاہت میں جس کو شیعہ فقہ کی پیشرفت کا دور سمجھا جاتا ہے، یعنی فروع کو اصول کی طرف پلٹانا، کتاب وسنت اور حکم عقلی سے ہزاروں پیچیدہ اور مشکل احکام اور سیکڑوں کلی قاعدوں کا استنباط اور بے شمار فروع کا استخراج کہ جس کے ذریعے غیبت امام معصوم میں مکلفین کے تمام سوالوں کا شریعت سے جواب دیا جاسکے، تمام امور میں حلال و حرام خدا کو تمام جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاسکے، فاصلہ بہت گہرا تھا اور اس فاصلے کو تدریجی طورپر فقاہت کی پیشرفت سے پر ہونا تھا۔
بیشک شیخ مفید سے پہلے کے فقہا نے اس راہ میں اہم قدم اٹھائے ہیں مگر شیخ کبیر، اپنی نابغہ فکری قوت سے اس میدان میں بھی ایک پر تغیر تاریخ کا سرآغاز اور روزبروز وسیع تر اور عمیق تر ہونے والی پربار تحریک کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔گویا کئی صدیوں تک منابع فقہ یعنی معصومین سے صادر ہونے والے کلمات کی جمع آوری اور متون و ظواہر روایات کی اساس پر فتاوی صادر کئے جانے کے بعد تاریخ فقہ کے ایک دور میں ضروری تھا کہ اس قیمتی سرمائے اور ذخیرے کو علمی فکر کے قالب میں ڈھالا جائے اور استنباط کی فنی روش ایجاد کی جائے ۔
شیخ مفید سے پہلے شیعہ فقہ میں دو مختلف گروہ تھے ۔ ایک گروہ کی نمائندگی علی بن بابویہ ( 329) کرتے ہیں اور شاید اس کو گروہ قمیین کا نام دیا جاسکتا ہے اور گمان غالب یہ ہے کہ فقہ میں شیخ مفید کے استاد یعنی جعفر بن قولویہ (متوفی 368) کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اس گروہ میں فقاہت کا مطلب متون روایات کے مطابق فتوا دینا ہے۔ چنانچہ اس گروہ کی فقہی کتب میں ہر فتوا اپنے مضمون میں کسی روایت کی حکایت کرتا ہے بنابریں اگر صاحب فتوا ضروری اعتماد اور امانتداری کا مالک ہو تو وہ فتوا حدیث کی جگہ لے سکتا ہے۔اسی بناء پر شہید (علیہ الرحمہ ) ایک ذکر میں فرماتے ہیں کہ : قد کان الاصحاب یتمسکون بما یجدون فی شرائع الشیخ ابی الحسن بن بابویہ رحمت اللہ عند اعواز النصوص الحسن ظنھم بہ و ان فتواہ کروایتہ (22)
ظاہر ہے کہ اس کیفیت کے ساتھ فقاہت ابتدائی اور فنی و پیچیدہ اسلوب سے عاری ہے اور اس گروہ کی فقہی کتب میں جن فروعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ منصوص، محدود اور بہت کم ہیں اور یہ وہی چيز ہے جس کی وجہ سے مخالفین شیعوں کو فروعات کے کم ہونے کا طعنہ دیتے تھے اور شیخ طوسی رحمت اللہ علیہ نے بعد میں اس طعنے کو دور کرنے کے لئے کتاب المبسوط تالیف فرمائی۔
دوسرا گروہ اس کے بالکل برعکس تھا جو استدلال اور ظن غالب پر بھروسہ کرتا تھا اور یہ سبک سنی فقہ سے ماخوذ تھا اس گروہ کی دو معروف ہستیاں، حسن ابن ابی عقیل العمانی ( متوفی ؟ ) اور ابن جنید الاسکافی ( متوفی احتمالا381) ہیں۔ اگرچہ اس گروہ اور حتی ان دونوں معروف فقیہوں کے بارے میں کافی اطلاعات نہیں ہیں جن سے پتہ چلے کہ استنباط میں اس گروہ کے فقہا کی بنیاد اور نظریہ کیا تھا لیکن شیخ مفید اور دوسروں نے ابن جنید کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس سے مسلمہ نظر آتا ہے کہ وہ قیاس اور رائے کی طرف رجحاں رکھتے تھے اور شیعوں کے معروف اور مقبول طریقے سے دور تھے لیکن عمانی اگرچہ اس رجحان سے منسوب نہیں کئے گئے ہیں بلکہ نجاشی کے کہنے کے مطابق جو کہتے ہیں وسمعت شیخنا ابا عبداللہ یکثر الثناء علی ھذا الرجل رحمت اللہ (23) اور جو انہوں نے اور شیخ نے، دو فہرست میں ان کی کتاب کے بارے میں کہا ہے (24) اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ فقیہ مستقیم اور شاید اس طریقے سے نزدیک تھے جو شیخ مفید نے اختیار کیا ہے ، اس پر چلے ہیں ، اس پر تالیف و تحقیق انجام دی ہے اور اس پر اپنے شاگردوں کی تربیت کی ہے ۔لیکن اس کے باوجود چونکہ ان کی آراء نادر اور متروک شمار ہوتی ہیں اور شاید اسی وجہ سے علامہ اور محقق (رحمت اللہ ) کے بعد کے ادوار کے لئے ان کی کتاب سے اس کے نام کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا ہے اس لئے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بعد کے لئے فقہی تحریک کے اسلاف میں نہیں ہوسکتے اور ان کی فقاہت میں نقص تھا۔ البتہ شک نہیں کرنا چاہئے کہ وہ عالم اقدم تھے جن کے بارے میں بحرالعلوم نے کہا ہے کہ ھواول من ھذب الفقہ واستعمل النظر و فتق البحث عن الاصول والفروع فی ابتداء الغیبت الکبری ( فتاوی العلمین ص 13) اور فقاہت کے صحیح قاعدے اور بنیاد تک شیخ مفید کی دسترسی میں، جس میں پہلا قدم خود ان کے بارے میں شمار کیا جانا چاہئے، موثر رہے ہیں اور ان کے لئے مقدمہ شمار کئے گئے ہیں ۔
جیسا کہ ملاحظہ کیا جا رہا ہے، فقاہت کی دونوں روشیں ایک لحاظ سے ناقص ہیں۔ پہلی روش میں فتوا وہی متن روایت ہے تفریع اور فرع کو اصل پر پلٹائے بغیر اور بحث ومباحثے، تحلیل، استخراج اور اجتہاد کی، اس کے اصطلاحی معنی میں، فقاہت میں کوئی مداخلت اور تاثیر نہیں ہے۔ دوسری روش میں اگرچہ استدلال اور رائے ہے مگر گویا وہ نہیں ہے جو مکتب اہلبیت ( علیہم السلام ) کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے۔ یہ روش قیاس کے ساتھ ہے یا ایسے طریقے پر ہے کہ نادر آراء پر منتج ہوتی ہے جو شیعہ مدرسہ فقاہت میں قابل دوام نہیں ہے ۔
شیخ مفید کی فقہ ان دونوں نقائص سے پاک اور دونوں خوبیوں کی حامل ہے؛ امامیہ کے نزدیک معتبر روشوں پر استوار بھی ہے اور اس میں اصطلاحی اجتہاد سے استفادہ بھی ہے اور استدلال و استنباط نظری کی مداخلت بھی ہے۔ بنابریں شیخ وہ ہستی ہیں کہ جس نے شیعوں کے نزدیک معتبر اور مقبول علمی قالب تیار کیا، ماثور ( معصومین سے منقول ) مضامین اور اصول متلقات میں علمی نظم پیدا کیا اور اس کو شیعہ فقاہت کے مرکز میں باقی رکھا۔ یہ وہی چیز ہے کہ ان کے بعد صدیوں تک اور آج تک ، اصولی فقاہت میں جاری ہے اور اس کو رشد و ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں آج وہ ہے۔
شیخ مفید کے فقہی کارنامے کی اہمیت سے اجمالی واقفیت کے لئے، اس سلسلے میں انکی تین تصنیفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
الف ؛ کتاب مقنعہ
ب ؛ شیخ مفید کے مختصر فقہی رسائل
ج ؛ کتاب التذکرہ باصول الفقہ
الف ؛ کتاب مقنعہ ؛
مقنعہ فقہ کا ایک مکمل دورہ ہے۔اس سے پہلے اس خصوصیت کی حامل فقہ کی کوئی کتاب نہیں تھی۔ مقنع شیخ صدوق قطع نظر اس کے کہ علی بن بابویہ کی کتاب کی طرح متون روایات ہے، جامعیت مباحث فقہی کے لحاظ سے بھی، مقنعہ کے پائے کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مباحث زیادہ مختصر اور زیادہ کوتاہ ہیں۔ مفید نے اس کتاب میں اگرچہ اپنے فتووں کے استدلال کا ذکر نہیں کیا ہے جس کی بناء پر ان فتووں کے استدلال کی کیفیت کو سمجھنا آسان نہیں ہے لیکن اطمینان بحش قرینے کی اساس پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں ان کے فتوے ، متین فقہی استدلال پر استوار ہیں اور اگرچہ یہ استدلال مکتوب نہیں ہیں کہ آئندہ والے اس سے استفادہ کریں، لیکن اس طرح ہیں کہ ان سے متصل فقہا اور تلامذہ انہیں اپنے کام کے لئے سرمشق قرار دیں اور ان میں اضافہ کریں۔ وہ قرینہ اطمینان بخش شیخ طوسی کی کتاب تہذیب ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، تہذیب شرح مقنعہ اور اس کے فقہی استدلال کے بیان کی کتاب ہے۔ شیخ طوسی ( علیہ الرحمہ) اس کتاب کے مقدمے میں، اس کتاب کو لکھنے کے محرک کے بیان اور اس ذکر کے بعد کہ اسی صدیق سے کہ جس سے انہوں نے تالیف کتاب طلب کی ہے ، وہ بھی چاہا ہے کہ جس مقصود کو پورا کرنے کے لئے شیخ نے ، مفید کی مقنعہ کی جو کافی و شافی اور فضول نیز فالتو باتوں سے پاک ہے، شرح کی ہے، استدلال میں اپنی روش بیان کرتے ہیں جو اختصار کے ساتھ اس طرح ہے ؛ ہر مسئلے میں استدلال، ظاہر یا صریح قران سے یا اس کے مختلف مفہومی دلائل ( جیسے ؛ مفہوم موافقہ ، مفہوم مخالفہ اور دلالت التزامی وغیرہ ) ، اور سنت قطعیہ سے، خبر متواتر یا قرینے کے ہمراہ خبر کے معنی میں، استدلال، اجماع مسلمین یا اجماع امامیہ، اس کے بعد ہر مسئلے میں مشہور احادیث کا ذکر اور پھر دلیل معارض پیش کرنا، ( اگر ہو) دو دلیلوں کے درمیان جمع دلالی اور اگر جمع دلالی ممکن نہ ہو تو سند کی کمزوری یا اس کے مضمون سے اصحاب کے اجتناب کی وجہ سے دلیل مقابل کو رد کر دینا اور جہاں دونوں دلیلیں سند وغیرہ ( جیسے جہت صدور یا اعراض مشہور وغیرہ ) کے لحاظ سے برابر ہوں اور کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو تو اس روایت کو ترجیح دینا جو شریعت سے استخراج ہونے والے ،اصول و قواعد کلیہ کے موافق ہو، اور اس دلیل کو ترک کرنا جو اصول و قاعدہ کے خلاف ہو اور مسئلے میں کوئی حدیث نہ ہونے کی صورت میں ، مقتضائے اصل پر عمل اور ہمیشہ ترجیح سندی پر جمع دلالی کو ترجیح دینا ، اور جمع دلالی کو شاہد جمع کے مطابق منصوص انجام دینا اور حتی المقدور اس سے انحراف نہ کرنا۔
یہ کتاب مقنعہ کو استدلالی کرنے کی وہ روش ہے کہ جس کا شیخ طوسی ، کتاب تہذیب کے شروع میں ذکر کرتے ہیں۔ اہل فن اچھی طرح جانتے ہیں کہ استدلال کی یہ جامع روش ، فقاہت شیعہ کے تمام ادوار میں جاری رہی ہے اور آج بھی موجود ہے اور فقہی استدلال کا کلی قالب شیخ طوسی کے بعد تمام ادوار میں اور آج تک یہی رہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا شیخ مفید جو خود کتاب مقنعہ کے مصنف ہیں، اس جامع روش استدلال سے جو فقیہ کو اس کتاب کے تمام فتووں تک پہنچا سکتی ہے، غافل تھے اور بغیر واقفیت کے اس روش استدلال سے ان فتووں تک پہنچے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں کیا شیخ طوسی ( رحمت اللہ علیہ ) اس طرز استدلال کے موجد ہیں؟ یا انہوں نے اسے اپنے استاد شیخ مفید سے سیکھا ہے؟ موضوع کے جوانب پر توجہ سے اس سوال کا جواب حاصل ہو جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شیخ طوسی نے کتاب تہذیب کی تالیف شیخ مفید کی حیات میں یعنی 413 سے پہلے شروع کردی تھی اور یہ مقدمہ اسی وقت لکھا تھا۔ شیخ طوسی 408 میں عراق پہنچتے ہیں جب وہ تیئس سال کے نوجوان تھے۔ انہوں نے شیخ مفید کی خدمت میں اعلا علمی مدارج طے کرنے اور تحقیق کا آغاز کیا اور 413 تک پانچ سال اس عظیم نابغہ ہستی سے استفادہ کیا - بقیہ علمی استفادہ شیخ طوسی نے تیئس سال تک سید مرتضی سے کیا ہے ۔
اس طرح شک باقی نہیں رہتا ہے کہ شیخ طوسی نے وہ اسلوب استدلال فقہی شیخ مفید کے حضور اور خود ان سے سیکھا ہے اور چونکہ اپنے استاد کی روش استدلال سے واقف تھے، لہذا ان کی کتاب کو خود ان کے اصولوں کے مطابق مستدل کرنے میں کامیاب رہے ۔
اس خیال کو اس وقت زیادہ تقویت اور استحکام ملتا ہے جب کتاب اصول میں جس کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے ، شیخ مفید کے مبانی اصول پر توجہ دی جائے۔ اس کتاب کے مطالعے اور کتاب اور سنت متواتر و محفوف بہ قرینہ یا مرسل مشہور اور عمل اصحاب پر شیخ مفید کے تکیہ کرنے کے مشاہدے اور اصول میں ان کے دیگر نطریات سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ شیخ طوسی نے کتاب تہذیب میں جو اسلوب استدلالی بیان کیا ہے وہ وہی ہے جس کے ان کے استاد معتقد تھے اور اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اپنے شاگردوں کو سکھاتے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب مقنعہ اگرچہ استدلال کے ساتھ نہیں ہے، مگر جو کچھ کہا گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مفید اسی طرز استدلال سے جو ان کے ایک ہزار سال بعد بھی شیعہ فقہی مراکز میں رائج ہے، اس کتاب میں مذکور فتووں تک پہنچے ہیں۔
یہ طرز استدلال وہی جامع اور کامل اسلوب ہے کہ جو ان سے پہلے فقہ شیعہ کے دونوں گروہوں ، یعنی گروہ ابن بابویہ اور گروہ قدیمین میں سے کسی میں بھی رائج نہیں تھا اور شیخ مفید اس کے موجد و بانی ہیں ۔
ب فقہی رسائل
یہ رسائل مختصر ہونے کے باوجود شیخ کی فقہی دانش کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔اگرچہ ان میں بعض جیسے رسالہ المسح علی الرجیلین اور ذبائح اھل الکتاب بحث و مباحثے کے استدلال اور شبہ عقلی پر مشتمل ہے، مگر بعض دیگر واقعی متین، مستحکم اور منظم فقہی اسلوب پر محیط ہیں۔ مثلا رسالہ المہر یا جوابات اھل موصل فی الرویۃ و العدد یا المسائل الساقانیہ ۔ رسالہ رویت و عدد میں جو ماہ رمضان کے تیس روزہ ہونے پر مبنی شیخ صدوق (رحمت اللہ علیہ) اور بعض دیگر قدیم فقہا سے منسوب قول کے رد میں ہے، شیخ مفید نے آیات سے استظہار، الفاظ سے استفادہ، مسلمہ فقہی احکام کے استشہاد، ان روایات کے فقہ الحدیث میں بحث جن سے مخالف نے استدلال کیا ہے، سند میں بحث، احوال رجال کا ذکر اور احادیث سے استنباط کے فہم میں بہت سے نکات جمع کئے ہیں اور ہر ایک سے بہترین اور محکم ترین انداز میں استفادہ کیا ہے۔اس رسالہ میں ان کے قابل توجہ کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک جگہ اس حدیث کے ذکر کے بعد جس سے مخالف نے استدلال کیا ہے، اس کی سند کو کمزور ثابت کرتے ہیں، اس کے بیان کو بھی متین استدلال کے ذریعے ، غیر معقول، امام کے حکمت آمیز بیان سے عاری اور اس کے جعل کا نتیجہ بتاتے ہیں جو عام اور جاہل شخص ہے اور قرائن سے اس کے ارسال سند کا احتمال بھی پیش کرتے ہیں اور یہ آخری نکتہ حدیث میں ان کے تبحر اور مہارت کی نشاندہی کرتا ہے ( مذکورہ رسالہ کے صفحہ تئیس اور اس کے بعد کے صفحات پر حضرت ابی عبد اللہ علیہ السلام سے یعقوب بن شعث کی روایت سے متعلق فصل سے رجوع ہو)
رسالہ المسائل الساقانیہ جس میں آپ دس فقہی مسائل میں، ساغان کے حنفی فقیہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں، شیخ عالی مقام کے تبحر اور قوت استدلال کا ایک اور ثبوت ہے۔ یہ رسالہ اگرچہ کلامی ماہیت یعنی غیر شیعہ مخالف سے بحث و مباحثے اور اس کی جانب سے بدعت کے الزام کے رد اور جواب میں خود اس سے اور اس کے امام سے بدعت منسوب کرنے سے تعلق رکھتاہے، لیکن چونکہ پیش کردہ مسائل عموما فقہی ہیں اس لئے ہر صاحب نظر ناظر ان کی قوت استدلال اور ان کے علمی مقام اور مجتہدانہ فقاہت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔
یہ رسالہ اور رسالہ العدد و الرویہ شیخ مفید کی علمی تخلیقی صلاحیت اور اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ ان کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں میں علمی فقاہت کے جو اسلوب نظر آتے ہیں، ان سب کا سرچشمہ وہ اسلوب ہے کہ جس کے بانی اور موجد شیخ مفید شمار ہوتے ہیں۔
ج کتاب التذکرہ باصول الفقہ
یہ شیعہ علمی تحریک کے بانی کی حیثیت سے شیخ مفید کی شخصیت کا تیسرا پہلو ہے۔
یہاں بھی شیخ عالی مقام نے معتزلہ اور ان کی پیروی کرنے والے شیعوں جیسے نوبخت کے عقل پر مطلق انحصار کرنے اور شیخ صدوق کے حدیث پر انحصار کرنے کے درمیان نئی راہ کھولی۔
معتزلہ، اعتزال کے رواج کے زمانے میں یعنی عباسی خلافت کے پہلے دور کے اواخر میں (جو تیسری صدی ہجری کے اواسط پر ختم ہوتا ہے) بیرونی فلسفیانہ افکار (یونانی ، پہلوی اور ہندوستانی وغیرہ) کی عالم اسلام میں آمد اور ان کی کتابوں کے تراجم سے بہت متاثر تھے اور اس زمانے میں اس بیرونی تحریک کو بھی اور معتزلہ کے رجحان کو خلفاء بالخصوص مامون کی پشت پناہی حاصل تھی۔ عقل پر انحصار کی اس انتہا پسندی کے ردعمل میں، اہلسنت اور شیعہ محدثین جیسے شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ کے درمیان اہل حدیث کی تحریک شروع ہوئی جو چاہتے تھے کہ اعتقادی اور کلامی معارف کو حدیث سے ہی سمجھیں۔
شیخ مفید کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ عقل اکیلے، علم کلام کے تمام مباحث کو سمجھنے سے قاصر ہے مثلا صفات باری جیسے، ارادے، سمع اور بصر وغیرہ کو۔ عقل، وحی کی مدد سے وادی معرفت میں قدم رکھ سکتی ہے اور اکیلے اس وادی میں جو حضرت حق (جل وعلا ) سے مربوط ہے، داخل ہونا، کوہ ضلالت پر قدم رکھنا ہے اور یہ در حقیقت اس روایت کا مفہوم ہے جو انسان کو خدائے متعال کے بارے میں گفتگو کرنے سے منع کرتی ہے۔ بنابریں شیخ مفید کا کام، عقل کو اس کے قلمرو سے جہاں روایت و وحی کارگر نہیں ہے، یعنی اثبات صانع اور وجود باری یا توحید یا نبوت عامہ پر استدلال کی وادی سے محروم کرنا نہیں بلکہ عقل کو ان حدود میں محدود کرنا ہے جو خدائے عقل نے اس کے لئے معین کی ہیں تاکہ گمراہی میں نہ پڑے۔
ایک جگہ اوائل المقالات کی عبارت اس طرح ہے ان استحقاق سبحانہ بھذہ الصفات(اعنی کونہ تعالی سمیعا بصیرا و رائیا و مدرکا) کلھا من جہت السمع دون القیاس و دلائل العقول (31) اور دوسری جگہ اس طرح ہے ان کلام اللہ تعالی محدث وبذلک جائت الاثار عن آل محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ ) ( 32) اور ایک دوسری جگہ اس طرح ہے ان اللہ تعالی مرید من جھت السمع والاتباع والتسلیم علی حسب ما جاء فی القران ولا اوجب ذلک من جھت العقول (33) اور ایک دوسری جگہ مجموعی طور پر اس طرح ہے اتفقت الامامیہ علی ان العقل یحتاج فی علمہ و نتائجہ الی السمع وانہ غیر منفک عن سمع ینبہ العاقل علی کیفیۃ الاستدلال۔۔۔واجتمعت المعتزلہ ۔۔۔ علی خلاف ذلک و زعموا ان العقول تعمل بمجردھا عن السمع والتوقیف ۔۔۔ (34)
مفید کے کلام میں اس طرح کی وضاحتیں بہت ہیں۔ اس کے باوجود روایت کی سندیت کو وہاں قبول کرتے ہیں جہاں برہان عقلی اس کے امتناع پر قائم نہ ہو۔ بنابریں آئمہ ( علیہم السلام ) سے ظہور معجزات کے بارے میں، ان پر سماعی دلیل کے ذکر سے پہلے کہتے ہیں کہ فانہ من الممکن الذی لیس بواجب عقلا ولا ممتنع قیاسا (35) دوسری جگہوں پر بھی اس طرح کی باتوں کا ذکر کیا ہے۔ (36) لیکن تصحیح اعتقادات الامامیہ میں جو اعتقادات شیخ صدوق پر تعلیقات ہیں، مخالف قران حدیث کے رد کا حکم صادر کرنے کے بعد دوسری جگہوں سے زیادہ صراحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ و کذلک ان وجدنا حدیثا یخالف احکام العقول اطرحناہ، لقضیت العقل بفسادہ (37) اس بیان میں حدیث مخالف حکم عقل کو رد کرنے کے ساتھ ہی، اس کی بنیاد اور اساس بھی حکم عقل کو قرار دیتے ہیں اور اس طرح استدلال عقلی کی حجیت پر تاکید مکرر کرتے ہیں ۔
شیخ مفید کے مکتب میں عقلی استدلال پر اس حد تک اعتماد ہے کہ الالم للمصلحۃ دون العوض کی بحث میں، اپنا منفرد نظریہ بیان کرنے کے بعد جس میں عدلیہ اور مرجئہ میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہے، کم نظیر خود اعتمادی کے ساتھ کہتے ہیں وقد جمعت فیہ بین اصول یختص بی جمعھا دون من وافقنی فی العدل والا رجاء بما کشف لی فی النظر عن صحتہ ولم یوحشنی من خالف فیہ ، اذ بالحجت لی اتم و آنس ولا وحشت من حق والحمد للہ (38) اس بات کے پیش نظر کہ بحث الم اور لطف کی بحثوں میں عموما سمعی ادلہ پر نہیں بلکہ عقلی ادلہ سے استناد کیا ہے ، بنابریں مذکورہ عبارت میں حجت سے مراد وہی استدلال عقلی ہے ۔
شیخ مفید کے مکتب کلامی میں، عنصر سمع کا وارد ہونا اس بات کا موجب ہوا کہ بیانات آئمہ ( علیہم السلام ) کی مدد سے بہت سے دشوار مباحث جن میں حق تک پہنچنا، طولانی راستہ طے کرنے کا متقاضی ہے، شیخ کے کلامی مجموعے میں آسانی کے ساتھ ، جگہ پاجائیں اور شیخ مفید کے بعد شیعہ کلام کو راستے سے منحرف ہونے اور فکری اضطراب سے محفوظ رکھیں ۔
مثال کے طور پر اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ صفات باری کے مسئلے میں، معتزلہ نے کلمات واصل بن عطاء میں نفی صفات اور صفات کے نیابت ذات کی نفی کے نظریئے سے اس معنی میں کہ صفات باری زائد بر ذات نہیں ہیں اور صفات حق تعالی، وجود میں اس کی عین ذات ہیں، توحید تک پہنچنے میں لمبا راستہ طے کیا ہے، درآنحالیکہ کلمات مفید میں یہ مسئلہ سمع یعنی نہج البلاغہ اور آئمہ (علیہم السلام) کی روایات سے ماخوذ ہے۔ حتی ان روایات سے یہ استفادہ بھی ہوتا ہے کہ یہ مباحث آئمہ ( علیہم السلام) کے زمانے میں شیعوں کے درمیان موجود تھے اور ان میں علم اہلبیت کے منبع لایزال سے استفادہ کیا جاتا تھا۔( کافی ج1، ص 107، باب صفات الذات اور توحید صدوق کی مختلف فصول اور نہج البلاغہ سے رجوع کریں )
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ النکت فی مقدمات الاصول جیسے مختصر رسالوں میں حتی صفات باری کے باب میں بھی کہ اوائل المقالات میں سمعی استدلال کو جس کا واحد مرجع بتاتے تھے ، سمعی استدلال کے ساتھ ہی عقلی استدلال کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ مثالا اس عبارت میں:
فان قال ؛ ما الدلیل علی انہ قادر؟ فقل : تعلق الافعال بہ مع تعذرھا فی البدائۃ علی العاجز۔۔ اور پھر ما الذی یدل علی انہ عالم ؟ فقل ؛ مافی افعالہ من الاتقان والتظافر علی الاتساق ، وتعذر ما کان بھذہ الصفہ فی البدائہ علی الجاھل اور اسی طرح سمیع بصیر حکیم و ھکذ ( النکت فی مقدمات الاصول ص 33-34)
اس کو اوائل المقالات میں بیان کئے گئے مبنا سے عدول نہیں کہا جاسکتا۔ پہلے کہا گیا ہے کہ امکان قوی ہے کہ وہ مختصر رسالے جو شیخ مفید نے سوال و جواب کی شکل میں تحریر کئے ہیں، کلامی بحث کے نئے شاگردوں یا دور دراز کے ان شیعوں کے لئے لکھے گئے ہوں گے ، جن کی پہنچ شیخ مفید تک نہیں تھی اور شیخ نے ان رسالوں میں عقلی بحث کے اسلوب کا انتخاب کیا ہے جو ہر مخاطب کے لئے زیادہ قابل استفادہ ہوسکتا ہے۔
اس طرح واضخ ہوتا ہے کہ جمع بین حجت عقلی اور دلیل نقلی، کلام مفید کے اسلوب میں، ان کی ایجاد اور نمایاں کارناموں میں سے ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس علمی اجتماع میں ان ابواب اور شیخ مفید کی علمی زندگی کے دیگر درخشاں پہلووں پر توجہ دی جائے گی۔
اس مقالے کے اختتام پر مناسب ہے کہ اس بات کی یاددہانی کرا دی جائے کہ اس عالی مقام نابغہ نےاس طولانی علمی جہاد ، علم فقہ کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھنے اور کلام میں درمیان کا راستہ کھولنے کا کارنامہ ، دشوار سماجی حالات میں انجام دیا ہے۔ اگرچہ بغداد میں آل بویہ کی حکومت نے آزاد علمی بحث کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا تھا ، مگر حنبلی فقہا کے تعصب آمیز طرزعمل اور شیخ مفید اور تمام شیعوں پر عباسی حکومت کے دباؤ کا مسئلہ ہر گز حل نہ کرسکی۔ بغداد کے علاقے کرخ کے شیعوں کی مظلومیت اور انہیں اور ان کے عظیم پیشوا کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ ایسے حقائق ہیں کہ تاریخ صراحت کے ساتھ اس کی گواہی دیتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید کی تین بار کی جلاوطنی کے علاوہ جو تاریخ میں درج ہے ، 405 سے 407 تک تقریبا دوسال انہیں ایسی پریشانیوں اور اذیتوں میں مبتلا رکھا گیا کہ جن کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔ یہ خیال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ 406 میں شیخ مفید کے شاگرد رشید سید رضی کہ جنہیں شیخ بہت چاہتے تھے، کتابوں میں ان کی وفات کے تذکرے میں، تشیع وغیرہ کی تفصیلات موجود ہیں مگر شیخ مفید کا کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ اصولا ان کا ذکر بار بار ہونا چاہئے تھا۔ دوسرا قرینہ جو ذہن میں یہ خیال پیدا کرتا ہے ، یہ ہے کہ ، ہر سال رمضان کے آس پاس، شیخ کے گھر میں یا درب الریاح میں ان کی مسجد میں کئی جلسوں میں امالی شیخ مفید کا دورہ ہوتا تھا اور یہ سلسلہ 404 سے 411 تک جاری رہا ، مگر 405 اور 406 میں یہ دورہ انجام نہیں پایا۔ مجموعہ امالی شیخ مفید میں ان دو برسوں سے متعلق کسی جلسے کا ذکر نہیں ہے۔
ایک اور قرینہ یہ ہے کہ 406 کے محرم کے قضیے میں، جب شیعوں کے خلاف بڑا فتنہ برپا ہوا اور اس میں ان پر بارہا ڈھائی جانے والی مصیبتیں دوبارہ ڈھائی گئیں تو حکومت بغداد نے مذاکرات کے لئے، شیعہ فرقے کے نمائندے اور قائد کی حیثیت سے سید مرتضی کا انتخاب کیا شیخ مفید کا نہیں۔ جبکہ اس زمانے میں اور اس سے برسوں پہلے سے شیعوں کے غیرمتنازع اور مطلق قائد، شیخ مفید تھے اور سید مرتضی ان کے شاگرد، مرید، مخلص اور تابع سمجھے جاتے تھے۔
یہ قرائن ذہن میں یہ خیال پیدا کرتے ہیں کہ ان دو برسوں کے دوران وہ کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا رہے ہوں گے، جس کی بناء پر بغداد میں نہ رہے ہوں گے۔ اس بارے میں تحقیق ہونی چاہئے مگر جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ عراق اور بغداد میں آل بویہ کی حکومت کے ایک سو تیرہ برسوں کا بڑا حصہ ، بغداد میں شیعوں اور ان کے رہنماؤں کی زندگی کی سختیوں، دشواریوں، اذیتوں، قتل عام اور مظلومیت سے پر رہا ہے ۔(39) اور ان سخت مشکلات میں شیخ مفید نے عراق بلکہ پوری دنیا کے شیعوں کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی اور شیعہ معارف کے میدان میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ۔
اس مقالے کا اختتامی نکتہ اس ثقافتی اجتماع میں شریک علماء اور دانشوروں سے میری یہ تاکیدی سفارش ہے کہ پوری کوشش کریں کہ یہ علمی اجتماع، اسلامی مذاہب کے درمیان علمی اتحاد اور فکری قربت کا وسیلہ بنے۔ اپنے زمانے میں مذہبی مخالفت سے نمٹنے میں شیخ مفید کا طرز عمل یقینا ان تلخ حوادث اور مصائب کا نتیجہ تھا جن سے اس دور کے مظلوم شیعہ دوچار تھے اور اندھے تعصب کی آگ ان کا باعث تھی۔ وہ طرز عمل، آج اسلامی فرقوں کے ایک دوسرے کے ساتھ، حتی کلامی میدانوں میں، روش اور طرز عمل کے لئے نمونہ نہیں بن سکتا۔ آج تمام اسلامی فرقوں کو تاریخ کے ان دردناک مناظر کے مشاہدے سے، مصالحت اور مہربانی کا درس حاصل کرنا چاہئے اور ایسے زمانے میں کہ جب اصول اسلام ، جن کے احیاء کے لئے ہر مذہب میں شیخ مفید جیسی شخصیتوں نے اتنی مصیبتیں برداشت کی ہیں، عالمی دشمنوں کی جانب سے خطرات سے دوچارہیں، تمام فرقوں اور ان کے مفکرین کی وحدت، قربت اور تعاون کے بارے میں سوچیں۔ یہ ہمارے انقلاب اور ہمارے امام (قدس اللہ نفسہ الزکیہ ) کی ہمیشہ باقی رہنے والی ہدایت ہے۔
ایک بار پھر خدائے متعال سے آپ کے لئے توفیق اور کانفرنس کے شایان شان اور باقی رہنے والے نتائج کے لئے دعاگو ہوں۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
علی الحسینی الخامنہ ای
فروردین 1372 مطابق شوال 1413
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6- ماضی میں اس سلسلے میں ایسی متعصبانہ اور جاہلانہ کوششیں کی گئی ہیں جو ایک شیعہ محقق کے لئے دہشتناک اور حیرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر اس بات پر توجہ دیں کہ شیخ صدوق نے خدا شناسی کے مسائل میں پانچ سو تراسی احادیث اور سڑسٹھ ابواب پر مشتمل کتاب توحید لکھی۔ انہوں نے خود اس کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ مخالفین، شیعوں پر جبر و تشبیہ کے عقیدے کا الزام لگاتے تھے جبکہ دو اصول امربین الامرین اور نہ تشبیہ اور نہ تعطیل شیعہ اعتقاد کے معروف ترین مبانی میں رہے ہیں۔ کتاب ملل و نحل میں شہرستانی نے جو نسبتیں دی ہیں اور ان سے پہلے اور ان کے بعد کے بہت سے لکھنے والے اور ان کی تحریریں، پیروان مکتب اہلبیت (علیہم السلام) کی نسبت ان ظالمانہ کوششوں کے نمونے ہیں اور ہمارے زمانے کے غیر ذمہ دار مصنفین نے جنہوں نے شیعوں کے بارے میں اپنی تحریروں کے لئے خود کو جواب دہ نہیں سمجھا ہے اور اس بات کو اہمیت نہیں دی ہے کہ ارباب اقتدار کو خوش کرنے اور تھوڑے سے ڈالر حاصل کرنے کے لئے، حقیقت کو پامال اور حجاب تقوا چاک کرنے کی کیا قیمت دینی پڑسکتی ہے، بہت زیادہ بے لگام ہوکر لکھا ہے کہ ایک نسل پہلے کا شیعہ مخالف مصری مصنف، یعنی احمد امین، جو ہرزہ سرائی اور دروغ بیانی میں کسی حد کا قائل نہیں تھا، دوسرے اور تیسرے درجے پر چلا گیا ہے۔ اس بات کی یاد دہانی بے جا نہیں ہے کہ ان کتابوں اور تحریروں سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں ہے جو کسی مذہب کے اثبات یا کسی مذہب کے رد میں ایمانداری و صداقت کے ساتھ لکھی گئ ہیں بلکہ مسلمانوں کے رشد افکار اور حسن انتخاب کے لئے ایسی کتابوں کا وجود ضروری ہے۔ یہاں گفتگو جعل و فریب، گندگی پھیلانے اور جھوٹی نسبت دینے کے بارے میں ہے۔
7- جبریل بن احمد الفاریابی (فاریاب بلخ اور مروالرود کے درمیان واقع ایک شہر ہے) وہ شیخ طوسی کے کہنے کے مطابق کش کے رہنے والے تھے۔ ابراہیم بن نصر الکشی (کش سمرقند کا ایک قریہ ہے) خلف بن حماد الکشی، خلف بن محمد الملقب بہ امان الکشی، عثمان بن حامدالکشی، محمد بن الحسن الکشی، محمد بن سعد بن مزید الکشی، ابراہیم بن علی الکوفی السمرقندی (دو نسبتوں کی ترتیب سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شیخ کوفی مہاجرت کرکے سمرقند آئے ہوں گے) ابراہیم الوراق السمرقندی، آدم بن محمد القلانسی البلخی، احمد بن علی بن کلثوم السرخسی، احمد بن یعقوب البیہقی، علی بن محمد بن قتیبہ النیشابوری ، محمد بن ابی عوف البخاری، محمد بن الحسین الھروی، محمد بن رشید الھروی ، نصر بن الصباح البلخی و۔۔۔۔
8- عبارت نجاشی در شرح حال شیخ کشی ص 372
9- عبارت نجاشی در شرح حال عیاشی ص 351
10-اس کا دوسرا موید یہ ہے کہ پہلی بار 356 میں علی بن محمد القزوینی عیاشی کی کتابیں بغداد لائے تھے۔( نجاشی ص 267 سے رجوع کیا جائے )
11-مولوی مثنوی میں ایک شاعر کی داستان نقل کرتے ہیں کہ عاشور کے دن حلب میں تھا ، اس نے دیکھا کہ شہر سیاہ پوش ہے اور بازار تعطیل ہیں ، اس نے سوچا کہ کوئی امیر یا شاہزادہ مرگیا ہے ۔ جب شہر کے لوگوں سے سوال کیا تو انہوں نے اس سے کہا، لگتا ہے تم یہاں اجنبی ہو۔۔۔
12- اطراف و اکناف بلاد اسلامی سے آنے والے سوالوں کے جواب میں لکھے گئے شیخ مفید کے رسالوں اور ان سوالوں کے تنوع اور وسعت پر توجہ دی جائے ۔۔ ۔ جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ شیخ مفید کا جواب نہ صرف سوال کرنے والے کی فکری مشکل کو حل کرتا ہے بلکہ ایک فکری و کلامی حریف سے مقابلے کا ہدف بھی پورا کرتا ہے۔گویا وہ بغداد میں اپنے مکتب کی حرمت کے دفاع کے ساتھ ہی خطرناک دشمنوں کی یلغار کے مقابلے میں مومنین کی پشت پناہی کا بیڑا بھی اٹھاتے ہیں۔ المسائل الساقانیہ کو دیکھیں جس کا سخت اور مستحکم حملے کا لہجہ، خراسان کے مستضعف شیعوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے جن کی فکری حدود پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان قیل فقل کے طرز پر لکھے گئے رسالے، جیسے النکت فی مقدمات الاصول، اور النکت الاعتقادیۃ، عام طور پر ان لوگوں کے لئے لکھے گئے تھے جو دور تھے اور ان کے سامنے مستقل طور پر مخصوص قسم کے مذہبی سوالات پیش کئے جاتے تھے جن کے محکم کلامی جواب کے لئے انہیں دستورالعمل کی ضرورت تھی ۔۔۔۔
13- کیونکہ ان کی وفات کے سال، شیخ مفید جو 336 میں پیدا ہوئے تھے، چوالیس سال کے تھے اور ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اپنی فہرست میں مفید کا شرح حال کتنے سال پہلے لکھا ہے ۔
14 - ذہبی کےکلام کا یہ حصہ، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، کا ایک حصہ ہے، جو ابھی شائع نہیں ہوئی ہے اور جو نقل کیا گیا ہے وہ گویا کہ اس نسخے سے لیا گیا ہے جو چھپنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
14- تاریخ علوم اسلامی مجلال ھمایی ص 51و
16- الکنی والالقاب ج 2 ص 404
17- تعجب ہے کہ حتی ہمارے زمانے میں بھی ایک مستشرق نے مفید کے کلامی افکار کے بارے میں ایک تحریر میں انہیں بغداد کے معتزلہ مکتب کا پیرو بتایا ہے۔
18- مفید نے المسائل الصاقانیہ میں ابن جنید پر سخت اعتراض کیا ہے، ان کی باتوں کو ہذیان سے تعبیر کیا ہے اور ان کے نظریات کو غیر سدید کہا ہے۔ (المسائل الصاقانیہ ص 62 کو دیکھا جائے )
19- و فصل ما بین العدلیۃ من الشیعۃ من ذھب الی العدل فی المعتزلۃ والفرق ما بینھم من بعد وما بین الامامیۃ فیما اتفقوا علیہ من خلافھم فیہ من الاصول ( اوائل المقالات ص 40)
20- رجال نجاشی ص 10
21-وسائل ج 1 ص 327
22- فتاوی العلمین ص 5
23- رجال نجاشی ص 48
24 - نجاشی کی عبارت اس طرح ہے ؛ کتاب مشھور فی الطائفہ وقیل؛ ما ورد الحاج من خراسان الا طلب و اشتری منہ نسخ ( ص 48) اور فہرست میں شیخ کی عبارت اس طرح ہے : لہ کتب اخر منھا کتاب التمسک ۔۔۔ فی الفقہ، کبیر حسن ( ص 368 فہرست اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ، ص96 )
25- عدہ ص 5
26- عدہ سے منقول عبارت کو دیکھیں ۔۔۔فی المختصر الذی فی اصول الفقہ ۔۔۔
27- ولیس یصح فی النظر دعوی العموم بذکر الفعل و انما یصح ذلک فی لکلام المبنی والصور منہ المخصوصۃ، فمن تعلق بعموم الفعل فقد خالف العقول التذکرہ ۔۔۔ ص38
28- اذا ورد لفظ الامر معاقبا لذکر الحظر افاد الاباحہ دون الایجاب ( ص 30)
29- والاستثناء اذا اعقب جملا فھو راجع الی جمیعہا ، الا۔۔ ( ص 41)
30- عدہ ص 8
31- اوائل المقالات ص 59
32- اوائل المقالات ص57
33- اوائل المقالات ص 58
34- اوائل المقالات ص 50
35- اوائل المقالات ص79
36- اوائل المقالات القول فی سماع الائمہ (ع ) کلام الملائکۃ الکرام ۔ ص80
37-تصحیح الاعتقاد ص 149
38- اوائل المقالات ص 129
39- بغداد پر عضد الدولہ دیلمی کے تسلط کا دور ( 367-372) اس قاعدے سے مستثنی ہے۔
تیئیس مارچ انیس سو ترانوے کو عیدالفطر پر ملک کے حکام اوراعلی عہدیداروں سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے الہی تعلیمات پر حکام کی خاص توجہ کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے اس موقع پر عالم اسلام کے مسائل کا ذکر کیا اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
کا خطاب ۔
قائد انقلاب اسلامی نے بائیس مارچ انیس سو ترانوے کو نئے ہجری شمسی سال کی آمد پر حسب دستور قوم کے نام ایک پیغام نوروز جاری فرمایا۔ آپ نے اس پیغام میں بیتے سال کی اہم تبدیلیوں کا سرسری جائزہ لیا اور شروع ہونے والے سال کی اہم ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے سال تیرہ سو بہتر ہجری شمسی کو منصوبہ بندی کے سال سے موسوم فرمایا اور ساتھ ہی منصوبہ بندی سے متعلق اہم نکات ذکر کئے۔ تفصیلی پیغام زیر نظر ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم یا مقلب القلوب والابصار ۔ یا مدبر اللیل والنہار ۔ یا محول الحول الاحوال حول حالنا الی احسن الحال عید نوروز اور نئے سال کی آمد اور اسی طرح عید الفطر کی ایرانی قوم اور ان تمام اقوام کو جو دونوں عیدوں کی اہمیت اور احترام کے قائل ہی، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بالخصوص ان لوگوں کو جن کا احترام پوری ایرانی قوم کا فریضہ ہے اور درحقیقت سب ان کے احسانمند ہیں، یعنی محترم شہیدوں کے خاندان والوں، آزاد ہوکر آنے والے جنگی قیدیوں، لاپتہ ہونے والے افراد اور ان کے اہل خاندان اور ان جنگی قیدیوں کو جو ابھی دشمن کی جیل میں ہیں اور ان کے گھر والوں کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنے عزیز امام (خمینی رہ) کی روح مطہرہ کے لئے خدا کی رحمت و برکات طلب کرتا ہوں۔ہماری عمر کا ایک سال اور گذرگیا اور ہم اپنی عمر کے ایام کے بعد کے سال میں پہنچ گئے۔ جو گذرگیا وہ الہی امتحان تھا۔ اگر اس کی گھڑیوں، اوقات اور لمحات میں ہم نے اپنے فریضے پر عمل کیا تو جو گذرگیا اس پر حسرت نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا اور اگر خدانخواستہ، جو سال گذرگيا اس میں ہم نے غفلت، کوتاہی اور تقصیر کی، اپنے فرائض کو اہم نہیں سمجھا، جو ہمیں کمال تک پہنچا سکتا تھا، اس کی طرف سے ہم نے غفلت برتی یا خدا نخواستہ اس راستے پر چلے جو نقصان اور افسوس پر منتج ہوتا ہے، تو اس صورت میں جو گذرگیا اس پر بہت زیادہ حسرت ہوگی، عمر ہے جو چلی گئی، سرمایہ تھا جو ختم ہوگيا اور سیاہ اعمال نامہ ہے جو ممکن ہے کہ خدانخواستہ وجود میں آیا ہو۔ امید ہے کہ آنے والا سال عبودیت، پرہیزگاری، حسن عمل، عبادات کی قبولیت، الہی عنایات اور برکات کے نزول کا سال ہوگا۔ انہیں چند ایام میں جو ماہ رمضان کے باقی رہ گئے ہیں، زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس مہینے کے لحمات سے بہرہ مند ہوں اور خود کو رضائے خدا کے راستے پر قرار دیں۔ گذرنے والا سال، عالمی مسائل کے لحاظ سے حادثات سے پر تھا۔ پوری دنیا میں، ہرطرف، ممالک اور اقوام آزمائش میں مبتلا ہوئیں۔ خاص طور پر مسلمین اس سال، سخت آزمائش سے گذرے۔ اگرچہ ہم دنیا کی ان مشکلات سے جن میں سبھی گرفتار ہوئے اور اسی طرح ان مشکلات سے جو دنیا کی سامراجی طاقتوں نے ترقی پذیر ملکوں پر مسلط کی ہیں، بالکل بچے نہیں رہ سکتے تھے، مگر مجموعی طور پر مطمئن ہوسکتے ہیں کہ دنیا کے اس متلاطم سمندر میں اور اس طوفانی دنیا میں، ہمارے ملک کے حکام کو توفیق الہی نصیب ہوئی اور وہ قوم کے تعاون سے ملک کو بڑی عالمی مشکلات سے بچانے میں کامیاب رہے۔ملک کے اندر، جو ہم کہہ ستے ہیں اور جس چیز کا واضح طور پر احساس کر رہے ہیں، یہ ہے کہ الحمدللہ ملک کے حکام نے، اس پانچ سالہ منصوبے اور اہداف کے حصول کے لئے، جس کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، پوری طاقت و توانائی سے سعی و کوشش کی۔ یہ ہم دیکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ اسے خدا کے حضور شرف قبولیت حاصل ہوگا، ان نتائج واہداف تک پہنچیں گے جو معین کئے گئے ہیں، عوام کو فائدہ پنہچے گا اور انشاء اللہ حکام تمام کوششیں بروئے کار لانے میں کامیاب رہیں گے۔ اعلی سطحی حکام کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں، ملک کی تعمیر کی کوششوں کے آثار، پورے ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ اپنی عزیز قوم کی گذشتہ سال کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اطمنان اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ سال کے شروع میں ہی عوام ایک بڑے امتحان سے روبرو ہوئے اور انہوں نے چوتھے دور کی پارلیمنٹ کے اراکین کا پوری ذمہ داری، سنجیدگی، دلچسپی اور خلوص کے ساتھ انتخاب کیا۔ سال کے اواخر میں، عشرہ فجر اور یوم آزادی کے عظیم الشان جلوسوں میں پرشکوہ انداز میں شرکت کی اور ہم نے سیاسی و سماجی میدانوں میں ہرجگہ مستحکم عوامی اور قومی موجودگی کا مشاہدہ کیا۔ انصاف یہ ہے کہ، جہاں عوام کو حکومت کی مدد کے لئے آنا چاہئے تھا، جہاں انہیں، بلا و مصیبت میں گرفتار اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے آنا چاہئے تھا، بوسنیا کے سلسلے میں، ملک کے حالیہ حوادث میں، ہر جگہ آنے والے تباہ کن سیلاب میں، ان کی مشارکت، اطمینان بخش، دشمن شکن اور موثر رہی ہے۔ میں یہاں گذشتہ سال کے اواخر میں ملک کے متعدد علاقوں میں آنے والے سیلاب کے تعلق سے کچھ باتیں اشارتا عرض کروں گا۔ حادثہ بہت افسوسناک تھا، اس حادثے میں جن لوگوں کو نقصان پہنچا ہے اور وہ مشکلات میں گرفتار ہوئے، ان کے لئے ہم غمگین ہیں۔ دعا ہے کہ رمضان المبارک کے پر برکت ایام میں، عید الفطر اور نئے سال کی تحویل کی خوشی کے موقع پر خداوند عالم خود اپنی قدرت سے اور ہماری حکومت اور قوم کے ہاتھوں ان کی مشکلات کو دور کرے۔ لوگوں نے تعاون اور مدد کی ہے۔ مگر مجھے جو اطلاع ملی ہے اس کے مطابق، سانحہ اس سے بہت وسیع ہے جو ہم ذرائع ابلاغ عامہ میں دیکھ سکے ہیں۔ بنابریں اس سلسلے میں حکومت کی مدد ضروری ہے۔اب ایک نظر اس سال پر ڈالتے ہیں جو شروع ہوا ہے یعنی 1372 ہجری شمسی ( 1993-94)پر ۔ امید ہے انشاءاللہ یہ سال مبارک ہوگا۔ حکومت اور حکام سے امید ہے کہ جس طرح گذشتہ سال کے دوران انہوں نے حکومت کے اعلان شدہ اہداف تک پہنچنے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے، وہ اس سال میں بھی جاری رکھیں گے اور کوششیں بڑھائیں گے۔ یہ منصوبہ بندی کا سال ہے۔ اس سال حکومت دوسرا پنجسالہ منصوبہ تیار کرکے منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ میں، ملک کے حکام اور منصوبہ تیار کرنے والوں سے تاکید کے ساتھ سفارش کروں گا کہ توجہ رکھیں کہ اس منصوبے میں، اصل ہدف معاشرے کے محروم طبقات کی مدد ہو۔ یہ کام ہمیں سماجی انصاف سے نزدیک کرے گا۔ ہمارے ملک میں، اسلامی جمہوری نظام میں اصل ہدف، انصاف کی فراہمی ہے جبکہ اقتصادی ترقی اور تعمیراتی کام، اس کا مقدمہ ہیں۔ ہم وہ ترقی اور اقتصادی پیشرفت نہیں چاہتے کہ جس کے نتیجے میں کچھ لوگ زیادہ رفاہ میں ہوں اور کچھ لوگ زیادہ غریب ہوجائیں۔ یہ بات نہ ہمیں منظور ہے، نہ اسلام کو قبول ہے اور نہ ہی رضائے الہی اس میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تعمیر ہو، اقتصادی ترقی ہو اور مادی پیشرفت آئے تاکہ ہم سماجی انصاف سے نزدیک تر ہوں اور ملک میں کوئی غریب نہ رہے۔ محروم طبقات محرومیت کا احساس نہ کریں، کوئی محروم نہ رہے۔ ملک میں کوئی محروم علاقہ نہ ہو۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ روز بروز کم سے کمتر ہو۔ یہ اصل ہدف ہے۔ منصوبے میں اس کو مد نظر رکھیں۔ ان پنجسالہ منصوبوں میں سے ہر ایک، انقلاب کے اہداف کی طرف حکومت اور قوم کے بڑھنے کے لئے ہے، اس میں اس جہت کا جو انقلابی جہت ہے سخت تاکید اور اصرار کے ساتھ لحاظ اور حفاظت ہونی چاہئے ۔اپنی عزیز قوم اور حکام سے ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں ہمیں جو بھی کامیابی ملی ہے وہ اس لئے ملی ہے کہ ہم نے انقلاب کے اصولوں کا احترام اور پابندی کی ہے اور جہاں ناکامی ملی ہے اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ کم و بیش الہی، اسلامی اور انقلابی اصولوں سے انحراف کیا گیا ہے۔ ہماری کامیابیاں انقلاب کے اصولوں کی برکت سے ہیں۔ البتہ ملک سے باہر ہمارے دشمن اور ملک کے اندر ان کے ایجنٹ اس کے برعکس ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری خباثت اور موذیانہ انداز میں لکھتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ انقلاب کی پابندی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ جی نہیں' یہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ انقلاب کی پابندی سے حکومت اور قوم کے مسائل حل ہوتے ہیں، راستہ کھلتا ہے اور مشکلات برطرف ہوتی ہیں۔ انقلاب اور اسلام کے اصولوں سے انحراف مشکلات پیدا کرتا ہے، چاہے یہ انحراف عمل میں ہو یافکر میں۔ ممکن ہے کہ کبھی فکر انقلابی ہو مگر عمل انقلابی نہ ہو۔ یہ مشکل ساز ہے۔آپ آٹھ سال مسلط کردہ جنگ پر ایک نظر ڈالیں، وہاں اس قضیے نے واضح طور پر خود کو ثابت کیا ہے۔ خارجہ سیاست پر ایک نگاہ ڈالیں، وہاں بھی یہ مسئلہ آشکارا طور پر نظر آۓ گا۔ دیگر تمام امور میں بھی ایسا ہی ہے۔ منصوبہ بندی میں اس کی پابندی ہونی چاہئے۔ میں اسی بناء پر اور دیگر وجوہات کی اساس پر اپنی عزیز قوم سے سفارش کرتا ہوں کہ آئندہ سال بھی اور رواں سال میں بھی جو الحمدللہ شروع ہوچکا ہے اور مبارک ہوگا، کوشش کریں کہ اسی انقلابی و اسلامی جہت اور حکومت نیز حکام کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کا جذبہ باقی رکھیں اور قومی اتحاد و یکجہتی اور ہم آہنگی کی حفاظت کریں۔ یہ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے والی چیزیں ہیں ۔ اگر دشمن کے پروپیگنڈوں اور کوششوں پر ایک نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ان کی کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ ہماری قوم کی یکجہتی ختم کردیں۔ یقینا دشمن ہمارا برا چاہتا ہے۔ یک جہتی اس قوم کے مسائل و مشکلات کا علاج ہے۔ دشمن حکومت اور قوم ، حکام اور عوام کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس سمت میں چلنا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام اسلام اور انقلاب کے اہداف سے دور ہوجائیں۔ بنابریں یہ چیز قوم کے نقصان میں ہے اور ہمیں یہ فاصلہ کم کرنا اور اسلام اور انقلاب کی سمت میں زیادہ بڑھنا چاہئے۔اسی بناء پر میں تاکید کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز مومن نوجوان، تمام عوام، مسلمان خواتین اور مرد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فراموش نہ کریں جو دو الہی فرائض اور اہم اقدار میں سے ہیں، ملک کے مختلف حکومتی اور انقلابی ادارے بھی خود کو انقلابی و اسلامی اصول و ضوابط سے نزدیک کرنے کی کوشش کریں۔ دعا ہے کہ خدا کے تفضل و برکات اور حضرت ولی عصرارواحنا فداہ، عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عنایات سے ملت ایران کی زندگی روز بروز شفاف، پیشرفتہ اور خدا کی رحمت اور برکت سے سرشار ہو، یہ عید آپ سب کو، تمام خاندانوں کو، نوجوانوں کو اور قوم کے ایک ایک فرد کو مبارک ہو۔ والسلام علیکم ورحمت اللہ برکاتہ
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 23 فروری 1993 پہلی رمضان المبارک کو اپنے خطاب میں خود سازی کے ذیل میں بڑے اہم نکات پیش کئے۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں اخلاص عمل کی اہمیت بیان کی اور رمضان المبارک کے مہینے سے بھرپور استفادہ کرنے کی سفارش کی۔
امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پاسداران انقلاب اور پولیس کے اہلکاروں سے خطاب کیا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چھبیس مرداد تیرہ سو اکہتر ہجری شمسی مطابق سترہ اگست انیس سو بانوے عیسوی کو عراق کی بعثی حکومت کی قید سے آزاد ہونے والے ایرانی جنگی قیدیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے قیدیوں کی رہائی پر دلی مسرت کا اظہار کیا اور ان کی جیل کی صعوبتوں اور سختیوں کو اہم ترین تجربات سے تعبیر کیا۔ آپ نے آزاد شدہ جنگی قیدیوں کو اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی بہترین اور فرض شناس افرادی قوت قرار دیا اور ان سے ہمیشہ میدان میں موجود رہنے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اکیس مرداد تیرہ سو اکتہر ہجری شمسی مطابق بارہ اگست انیس سو بانوے عیسوی کو وزیر تعلیم اور تعلیم و تربیت کے شعبے کے مختلف عہدہ داروں اور تعلیمی مراکز کے ذمہ دار افراد کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم و تربیت اور ثقافتی شعبے کی اہمیت اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی یلغار اور ثقافتی لین دینے کے فرق کو واضح کیا اور ثقافتی یلغار کو سامراجی طاقتوں کا ایک اہم حربہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم احتیاطی تدابیر کی نشاندہی بھی فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہما السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں زندگی کے مادی و معنوی پہلوؤں کا جائزہ لیا اور اسلام میں ان دونوں پہلوؤں پر بھرپور توجہ اور مغربی معاشرے میں معنوی پہلو کو نظر انداز کئے جانے کے فرق کے اثرات و نتائج پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28-12-1370ہجری شمسی مطابق 19-3-1992 عیسوی کو نئے ہجری شمسی سال کی آمد کی مناسبت سے قوم کے نام اپنے پیغام میں ملکی اور عالمی امور کا اختصار سے جائزہ لیا۔ آپ نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور اس کے تسلط والے ممالک میں اسلامی لہر سامنے آنے کو خاص اہمیت کا حامل واقعہ قرار دیا۔ آپ نے ملک کے اندر عوام اور حکام کی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے سال نو کی تقریبات کے تعلق سے اسراف اور فضول خرچی سے گریز کی سفارش کی۔ عید نوروز کا پیغام حسب ذیل ہے؛بسم اللہ الرحمن الرحیم یا مقلب القلوب والابصار، یا مدبر اللیل والنّھار، یا محوّل الحول والاحوال حوّل حالنا الی احسن الحال۔ با برکت عید نوروز کی اپنے عزیز ہم وطنوں کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بالخصوص فداکاروں کو کہ وطن جن کا ممنون کرم ہے، شہیدوں کے خاندان والوں کو، مسلط کردہ جنگ میں اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور جانباز سپاہیوں اور ان کے گھروالوں، جنگی قیدیوں، دشمن کی قید سے رہائی پاکے آنے والے سپاہیوں، لاپتہ ہو جانے والوں اور ان کے کنبے والوں کو اور اسی طرح تمام مجاہد سپاہیوں اور ان تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے مسلط کردہ جنگ کے سخت دور کا اپنے پورے وجود سے سامنا کیا ہے، چاہے وہ فوجی ہوں، پاسداران انقلاب ہوں یا لاکھوں بسیجی (رضاکار) ہوں۔ اس سال خوش قسمتی سے عید نوروز کی مبارکباد ان دیگر اقوام کو بھی پیش کرسکتے ہیں جو سرکاری طور پر اس عید پر جشن مناتی ہیں۔ میں جمہوریہ آذربائیجان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمنستان اور علاقے کے ان دیگر ملکوں کے عوام کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عید نوروز اور اس کا جشن مناتے ہیں۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مقدس پر، جو پوری اسلامی دنیا اور علاقے میں اس عام جوش و جذبے کو بیدار اور جان و دل کو متحد کرنے والے تھے، درود و سلام بھیجتا ہوں اور آپ کی روح کے لئے طلب مغفرت کرتا ہوں۔ اس سال عید نوروز رمضان المبارک میں، بالخصوص شبہائے قدر اور حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلاۃ والسلام کے یوم ولادت باسعادت سے متصل ہے۔ امید ہے کہ اس سال موسم بہار میں قدرت کا تغیر ہم سب کے اندر اخلاقی و روحانی تغیر اور معنوی بلندی کے پیدا کرے گا۔ کسی قوم کے لئے مکمل عید اس وقت ہوتی ہے جب قوم کے لوگ، امید، ایمان، جذبہ عمل، آگاہی اور معرفت کے ساتھ اپنے باطن کی تعمیر کر سکیں۔ خداوند عالم سے اپنے رابطے کو محکم اور اپنے اندر معنویت کی تقویت کرکے، خدا سے دعا اور اس کی نصرت طلب کرکے، اس پر توکل اور خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت سے اپنے دل و جان کو روشن کرسکیں اور اس امید، طمانیت اور سکون تک پہنچ سکیں جو انسان کی سعادت کے لئے ضروری ہے۔ اس صورت میں قوم حوادث زمانہ کے مقابلے میں ناقابل تسخیر ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ اس نئے سال میں اور بالخصوص رمضان المبارک کے ان ایام ، ان دنوں اور ان شبہائے قدر میں ہم یہ توفیق حاصل کر سکیں۔ گذرنے والا سال،عالمی سطح پر حوادث سے پر تھا اور فطری بات ہے کہ ہم بھی ان حوادث کے آثار سے پوری طرح محفوظ نہیں رہے۔ ان حوادث کے نتائج شیریں اور پسندیدہ بھی تھے اور ساتھ ہی ناگوار بھی تھے۔ البتہ ملک کے حکام کی کوشش یہ ہے کہ حوادث عالم کے تعلق سے شیریں و دلچسپ اثرات زیادہ ہوں اور ناگوار و تلخ نتائج کم ہوں۔ ان حوادث میں سے ایک سوویت یونین کی بڑی سلطنت کا شیرازہ بکھرنا اور ایک سپر پاور کا زوال ہے، جو درحقیقت ہمارے دور اور ہماری تاریخ کا بڑا واقعہ شمار ہوتا ہے۔ یہ واقعہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلے اس لحاظ سے کہ اس کے نتیجے میں جن ملکوں اور اقوام نے آزادی و خود مختاری حاصل کی ان میں مسلم اقوام بھی ہیں۔ اس علاقے میں اور ہمارے پڑوس میں، دسیوں لاکھ مسلمان آشکارا طور پر اور صراحت کے ساتھ اپنی اسلامی اقدار، اسلامی ثقافت اور اسلامی آرزوئیں زبان پر لائے اور ان کا اظہار کیا جبکہ وہ دسیوں سال سے اس فطری حق سے محروم رکھے گئے تھے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں جو عالمی میدان اور اقوام کی زندگی میں سپر طاقتوں کی غارتگری کا دور ہے، ایک سپر طاقت کا زوال، کمزور اقوام کو امید عطا کر سکتا ہے، دنیا کے عقلمندوں کے لئے عبرت کا باعث ہو سکتا ہے اور دنیا کے بہت سے لوگوں کے دلوں میں امید کی روشنی پیدا کر سکتا ہے۔گذشتہ سال دیگر اہم واقعات میں، مختلف ملکوں میں مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریکوں میں شدت بھی ہے کہ جس کی خبریں گذشتہ سال کے دوران تسلسل سے آ رہی تھیں اور ہماری عزیز قوم نے ان خبروں کو سنا۔گذشتہ سال کے شیریں واقعات میں عالمی سطح پر ہمارے عزیز ملک کے اثر و رسوخ اور اعتبار میں اضافہ بھی ہے۔ بین الاقوامی امور میں ہمارے ملک نے نمایاں کردار ادا کیا اور عالمی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی ۔ یہ بات دنیا کے اچھے ملکوں کے ساتھ مثبت سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی روابط میں توسیع اور فروغ کا سبب بنی جو ہمارے لئے بہت اچھی بات تھی۔ یہ سب ان لوگوں کی فداکاریوں اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے جنہوں نے ان چند برسوں کے دوران مختلف میدانوں میں دل و جان سے کوشش کی اور اس سلسلے میں ہماری عظیم قوم اور دلیر نیز حریت پسند عوام کا تعاون سب سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے طویل برسوں تک مختلف میدانوں میں اپنی پرجوش موجودگی اور مشارکت سے انقلاب کو اس طرح متحرک اور زندہ رکھا کہ اس نے دنیا میں اور اقوام عالم کی نگاہوں میں نمایاں حیثیت حاصل کی ۔ گذشتہ سال کے تعلق سے ہمارے ملک کا ایک مسئلہ ملک کی تعمیر نو کے لئے حکومت اور حکام کی کوشش رہی ہے۔ اس ایک برس کے دوران، بہت اچھے بنیادی کاموں سے اس کا آغاز ہوا اور بہت اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ اس پر عمل ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی و پیشرفت اور غربت نیز و بے روزگاری کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ، بنیادی کام یہ ہے کہ ملک کے اندر بڑی منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہ وہ کام ہے جو الحمد للہ گزرنے والے سال میں انجام پایا ہے۔ یعنی ان منصوبوں کا بڑا حصہ شروع ہو گیا یا منصوبہ بندی ، نفاذ اور استفادے کے مرحلے میں ہے اور خدا کے فضل سے آئندہ برسوں کے دوران بھی اس پر عمل جاری رہے گا۔ میں گذشتہ سال کے تعلق سے، جس کے اختتام کا ہم نے مشاہدہ کیا، جو عرض کر سکتا ہوں یہ ہے کہ گذشتہ سال، عالمی واقعات اور داخلی مسائل کے لحاظ سے ہمارے لئے حوادث سے پر اور کامیاب سعی و کوشش کا سال تھا۔ یہاں ضروری ہے کہ اپنی عظیم قوم کی اس بہت بڑی سیاسی کامیابی کی یاد دہانی کراؤں کہ اقوام متحدہ نے مسلط کردہ جنگ کے بارے میں اعلان کیا کہ جنگ شروع کرنے والا عراق تھا۔اس قوم کی آٹھ سال تک جاری رہنے والی مجاہدت میں، اس عالمی گواہی کے بعد دوسرا ہی رنگ اور انداز دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر چہ حق پسند اور حق پرست اس گواہی سے پہلے بھی حقیقت واقعہ سے واقف تھے اور ہماری قوم اپنی مظلومیت اور حقانیت سے سب سے زیادہ واقف تھی لیکن ہماری قوم کو معتبرترین بین الاقوامی تنطیم کی جانب سے اس گواہی کی ضرورت تھی۔بہرحال یہ سال کامیابیوں کا سال تھا۔ الحمد للہ ہمیں کافی کامیابیاں ملیں اور ہم نے آگے کی سمت قدم بڑھائے۔ البتہ کوئی یہ دعوی ہرگز نہیں کر سکتا کہ ان چند برسوں کی کوششوں کے مکمل اہداف تک ہم پوری طرح پہنچ گئے۔ لیکن ان اہداف کی سمت میں ہم نے قدم بڑھائے ہیں اور ان شاء اللہ ہماری قوم آخری اہداف تک پہنچے گی۔اس سال کے آغاز پر اپنی پوری قوم اور ملک کے حکام سے جو سفارش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قوم، حکومت اور خدمتگزار حکام، سب کوشش کریں کہ حکومت اور عوام کے درمیان محبت و صداقت کے اس رشتے اور اس اتحاد ویکجہتی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط، وسیع اور مستحکم کریں۔ ہماری عزیز قوم، انقلاب کے میدانوں میں پوری قوت کےساتھ اپنی موجودگی کو جاری رکھے جو ملک کی تمام مشکلات کے حل میں کارساز رہی ہے اور دنیا کو ہماری حقانیت کی طرف متوجہ کر سکی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں یوم قدس آ رہا ہے، اس دن کے جلوسوں میں عوام کی شرکت بہت اہم ہے۔ اسی طرح مستقبل قریب میں انتخابات ہونے والے ہیں، جن میں عوام کی شرکت بہت اہم اور فیصلہ کن کردار رکھتی ہے۔ مستقبل میں، تمام شعبوں میں تعمیر نو اور حکومت کے ساتھ مختلف قسم کے تعاون کے کئی مراحل سامنے ہیں۔ ان تمام مراحل میں ہماری قوم کو اپنی موجودگی کا ثبوت دینا ہے۔ حکومت اور زحمت کش نیز عوام کے خدمتگزار حکام سے بھی چاہتا ہوں کہ ملک کی تعمیر نو میں عوام کی مشارکت کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ اس امر میں انہیں منظم کریں۔ سب سے میری سفارش یہ ہے کہ کام کو بہت زیادہ اہمیت دیں۔ آج واقعی کام، جس محاذ پر بھی ہو، جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ جو لوگ اپنے لئے کام کرتے ہیں، وہ بھی کوشش کریں کہ ان کا کام ملک، قوم اور عوام کی مصلحت اور اہداف سے ہم آہنگ ہو۔ عوام اپنے اتحاد کو محفوظ رکھیں۔ ہمدلی اور قومی اتحاد کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی جو بہت اہم ہے، حفاظت کریں۔ اقوم کی مشکلات و مسائل کے تمام قلیل المیعاد اور طویل المیعاد حل، اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہیں۔ میں سفارش کرتاہوں کہ عوام عید نوروز کے ایام میں اور آئندہ سال کے دوران ، خاص طور پر ان تقریبات میں جن میں اسراف ہوتا ہے، اسراف سے پرہیز کریں۔ فضول خرچی اور اسراف معمولا متمول طبقہ کرتا ہے۔ کیونکہ کمزور طبقات زیادہ خرچ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ایک طبقے کی جانب سے زیادہ خرچ اور اسراف ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس میں اقتصادی لحاظ سے بھی نقصان ہے اور سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی لحاظ سے بھی ضرر ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے، ایک بار پھر کہتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں کہ فضول خرچی ترک کریں۔ خرچ ایک معقول مقدار کے اندر ہونا چاہئے۔ اسراف اور فضول خرچی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ معقول مقدار ہر الگ الگ زمانے میں مختلف ہوتی ہے۔ آج عوام کے بہت سے طبقات اور گھرانے، مشکل اور مصیبت میں ہیں اور ابھی ملک کی تعمیر نو کے اثرات و ثمرات پوری طرح ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور اس کی برکتیں سب تک نہیں پہنچی ہیں۔ معقول مقدار سے مراد یہ ہے کہ انسان جہاں تک ہو سکے، خود کو ان طبقات سے نزدیک کرے۔ ملک کے عزیز حکام اور عہدیدار، چاہے حکومت سے ان کا تعلق ہو، عدلیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسرے شعبوں سے متعلق ہوں، خاص طور پر اس اصول کی دوسروں سے زیادہ پابندی کریں۔ دعا ہے کہ خدا وند عالم اپنی برکات آپ پر نازل فرمائے ، اس عید کو حقیقی معنوں میں آپ کے لئے مبارک قرار دے اور اس سال کو آپ کے لئے بہت اچھا، پرشکوہ، باعظمت، خوش قسمتی اور شادمانی کا سال قرار دے ۔ والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
حزب اللہ لبنان کے نو منتخب سیکریٹری جنرل حجت الاسلام سید حسن نصر اللہ سمیت تنظیم کی مرکزی کمیٹی کے ارکان پر مشتمل وفد نے 13-12-1370 ہجری شمسی مطابق 4-3-1992 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے تہران میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حزب اللہ کے جام شہادت نوش کرنے والے سربراہ سید عباس موسوی کو خراج تحسین پیش کیا اور تنظیم کے نئے سربراہ کو مخاطب کرکے انتہائی اہم نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 2-12-1370 ہجری شمسی مطابق 21-2-1992عیسوی کو مقدس شہر قم کے اپنے دورے میں ممتاز مراجع کرام سے ملاقاتیں کیں۔ آپ آیت اللہ العظمی گلپائگانی اور آیت اللہ العظمی اراکی سے بھی ملے اور قم کے دینی تعلیمی مرکز کے تعلق سے بعض نکات بیان کی۔ دونوں ممتاز علمائے کرام سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کی گفتگو بالترتیب پیش خدمت ہے؛
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دو بہمن سنہ تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق بائیس جنوری سنہ انیس سو بانوے عیسوی کو انتظامی فورس (پولیس) کے سیاسی اور عقیدتی ادارے کے عہدیداروں اور کمانڈروں سے ملاقات میں اس محکمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور محکمے کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک ایک شہری کو دل سے انتظامی فورس پر اطمینان اور اعتماد حاصل ہونا چاہئے۔ یعنی جب دکان بند کرتے وقت اس کو تشویش ہو تو کہے کہ انتظامی فورس کا اہلکار ہے۔ سفر پر گھر چھوڑ کے جائے تو کہے کہ انتظامی فورس ہے۔ اگر گاڑی پر بیٹھے تاکہ کسی جگہ سے روانہ ہو اور کسی دوسری جگہ بیابانوں میں پہنچے اور سلامتی سے متعلق کوئی مشکل پیش آئے، اگر کہیں کہ مشکل ہے، مجرمین سڑک پر آگئے ہیں اگر کہیں کہ کچھ لوگ، لوگوں کی عزت و آبرو کے لئے خطرہ پیدا کر رہے ہیں، اگرکہیں کچھ لوگ لوگوں کی عزت و ناموس پر حملہ کرتے ہیں تو اس کے دل میں امید کی شمع روشن ہو کہ انتظامی فورس ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ لوگ انتظامی فورس کو امن و امان برقرار کرنے والے اور سلامتی کے مرکز کی حیثیت سے دیکھیں۔ آپ کو یہ حالت وجود میں لانی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انتیس دی سنہ تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق انیس جنوری سنہ انیس سو بانوے عیسوی کو
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب میں حضرت علی علیہ السلام کی بعض صفات کا تذکرہ کیا۔ آپ نے اہل بیت سے قلبی رشتے کے سلسلے میں فرمایا کہ امیر المومنین ( علیہ السلام ) سے ہماری قوم کا رابطہ، ایک عاشقانہ رابطہ ہے۔ یہ مسئلہ آپ کی ولایت اور امامت پر اعتقاد سے بالاتر ہے۔ ولایت و امامت پر اعتقاد ہے اور ہماری زندگی کا جز ہے۔ گہوارے میں ہمیں پڑھائے جانے والے اولین سبقوں میں سے ہے اور انشاء اللہ یہ اعتقاد ہم اپنے ساتھ قبر میں بھی لے جائیں گے لیکن امیرالمومنین (علیہ الصلاۃ و السلام) سے ہماری قوم کے رابطے کا ایک اور عنصر آپ سے محبت اور عشق کا عنصر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچیس دی سنہ تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق پندرہ جنوری سنہ انیس سو بانوے عیسوی کو وزیر تعلیم ان کے نائبین، مشیروں اور محکمہ تعلیم کے اعلا عہدہ داروں سے خطاب میں تعلیم و تربیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ تعلیم و تربیت کی اہمیت کے بارے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ نہ جانتے ہوں اور میں عرض کروں۔ امر واقعہ وہی ہے جو ہم سب جانتے ہیں۔ یعنی ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ملک کا مستقبل ملک کے محکمۂ تعلیم و تربیت اور معلمین کے ہاتھوں میں ہے۔ بہترین افراد اور آمادہ ترین لوگ اسلامی تعلیم وتربیت کے لئے آپ کے اختیار میں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس دی سنہ تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق نو جنوری سنہ انیس سو بانوے عیسوی کو قم کے مختلف عوامی طبقات سے خطاب کیا۔ انیس دی کی تاریخ اہل قم کے اہم ترین قیام سے منسوب ہے۔ اس قیام کی اسلامی انقلاب کے تعلق سے خاص اہمیت ہے اور اسی مناسبت سے ہر سال انیس دی کے موقعہ پر اہل قم قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اس قیام کی خصوصیات اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تیرہ دی سن تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق تین جنوری انیس سو بانوے عیسی کو جنوبی ایران کے بوشہر کے نزدیک واقع دلوار اور اس کے اطراف کے دیہی علاقوں کے عوام کے اجتماع سے خطاب۔ اس خطاب میں قائد انقلاب نے انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے اس علاقے کی خدمات اور قربانیوں کی قدردانی کی۔ آپ نے علاقے میں تعلیمی قابلیت کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے پر زور دیا۔